کیا رہائی کے بعد نواز شریف کا بیانیہ بدلے گا؟


نواز

ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ نواز شریف کا آئندہ لائحہ عمل کیا ہوتا ہے

پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف فی الوقت سیاست پر بات نہیں کر رہے۔ ان کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کی محض چند روز قبل تدفین ہوئی ہے۔ نواز شریف قید کے دوران پیرول پر رہائی پا کر ان کی آخری رسومات میں شریک ہو پائے، پھر واپس جیل جانا پڑا۔

صرف دو دن بعد ان کی سزا اسلام آباد ہائی کورٹ نے معطل کر دی ہے۔ اب وہ ضمانت پر باہر ہیں۔ مگر لاہور کے مضافات میں واقع ان کی رہائش گاہ جاتی امرا میں سوگ کی فضا تاحال قائم ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سینیٹر مصدق ملک، جو سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے ترجمان بھی رہ چکے ہیں، کہتے ہیں ’ایسے ماحول میں سیاست پر نہ تو بات ہو رہی ہے اور نہ ہی مناسب ہے۔‘

تاہم نواز شریف اب کیا کریں گے؟ ابھی سے بہت سی زبانوں پر یہی سوال ہے۔ اور ایسا ہونے کی وجوہات بھی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

’شکر ہے آج جمعہ نہیں ہے‘

سزائیں معطل اور رہائی: نواز، مریم اور صفدر کی گھر واپسی

نواز شریف کی سزا کی معطلی پر پارٹی کارکن شاد

نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کو انتخابات سے محض چند روز قبل جیل بھیجا گیا۔ ن لیگ کے کئی رہنما مقامی ذرائع ابلاغ پر یہ کہہ چکے ہیں کہ ایسا مبینہ طور پر ن لیگ کی انتخابی مہم کو کمزور کرنے اور انتخابات میں شکست دینے کے لیے کیا گیا۔

تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ انتخابات سے قبل نواز شریف کے ’ووٹ کو عزت دو‘ کے بیانیے اور نئے اندازِ سیاست کو پذیرائی مل رہی تھی جو کہ تحریک بن سکتی تھی، مگر عین اسی وقت انھیں جیل جانا پڑا۔

اب ان کی رہائی کے بعد کئی سوالات سامنے آتے ہیں۔ کیا نواز شریف سلسلہ وہیں سے جوڑنا چاہیں گے جہاں سے ٹوٹا تھا؟ کیا وہ اپنے اسی بیانیے پر قائم رہیں گے یا اس میں لچک آئے گی؟

ان کی جماعت عام انتخابات کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھا چکی ہے۔ اس پر تحقیقات کے لیے حکومت سے پارلیمانی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کر رہی ہے، جو بظاہر مان لیا گیا ہے۔ کیا نواز شریف کی جماعت کے اس احتجاج کو تحریک کا رنگ دے گی؟

نواز شریف کا بیانیہ کیا تھا؟

انتخابات سے قبل تحریکی راستہ اپنانا آسان تھا، تب ان کی حکومت تھی۔ اب وہ انتخابات ہار چکے ہیں، اب حالات مختلف ہوں گے۔ نواز شریف کے سر پر ایون فیلڈ ریفرنس سمیت مبینہ کرپشن کے دیگر مقدمات کی تلوار بدستور لٹک رہی ہے اور وہ دوبارہ جیل بھی جا سکتے ہیں۔

تاہم اگر انھیں وقت ملتا ہے تو تجزیہ نگار شبیر احمد خان کا ماننا ہے کہ نواز شریف کی موجودگی سے ان کی جماعت کو آئندہ ماہ ہونے والے ضمنی انتخابات میں فائدہ پہنچے گا۔

شبیر احمد خان پنجاب یونیورسٹی لاہور کے شعبہ سیاسیات سے منسلک ہیں۔ تاہم ان کے خیال میں نواز شریف لازمی طور پر ’ضمنی انتخابات سے آگے کا سوچ رہے ہوں گے۔‘

’انتخابات تو نواز شریف کے لیے بے معنی ہیں اور یہ وہ خود کہتے رہے ہیں۔ ان کا اصل بیانیہ تو یہ ہے کہ اصل میں حکومت کرنے کا حق کس کا ہے؟ کیا کچھ مقتدر ادارے ہیں ان کا حق ہے یا جو لوگ عوام کے ووٹ سے منتخب ہو کر آتے ہیں۔‘

تاہم ان کا ماننا ہے کہ یہ ایک مشکل بیانیہ ضرور ہے۔ مقتدر ادراوں سے ٹکر لینا آسان نہیں ہے۔

گو کہ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ نواز شریف کا آئندہ لائحہ عمل کیا ہوتا ہے، شبیر احمد خان کا ماننا ہے کہ ’نواز شریف اور ان کی جماعت کی بقا کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے بیانیے پر قائم رہیں۔‘

’یہ تاثر نہ بنے کہ وہ کسی ڈیل یا کسی خاموش این آر او کے نتیجے میں باہر آئے ہیں۔‘

البتہ سینیٹر مصدق ملک کا ماننا ہے کہ نواز شریف کا بیانیہ نہیں بدلے گا۔

نواز

ن لیگ کے کئی رہنما یہ کہہ چکے ہیں کہ نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کو انتخابات سے محض چند روز قبل جیل میں ڈالنا مبینہ طور پر ن لیگ کو انتخابات میں شکست دینے کے لیے کیا گیا

ان کا کہنا تھا کہ اگر نواز شریف کے بیانیے پر نظر ڈالی جائے تو وہ تین عوامل کا بار بار ذکر کر رہے تھے یعنی آئین، قانون اور ووٹ کی عزت کا۔

’اس میں تو کوئی بھی ایسی چیز نہیں جس سے ہٹا جائے یا ہٹا جا سکتا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ آئین، قانون اور ووٹ کے تقدس کے حوالے سے کوئی بھی چیز بدلے گی۔ یہی بیانیہ آگے چلے گا۔‘

اندازِ سیاست کیا ہوگا؟

مصدق ملک کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ پارلیمان کے اندر انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے پارلیمانی طریقے سے تحقیقات ہوں گی۔ وہ تمام چیزیں جو غلط ہوئی ہیں ان کا سدِباب بھی ہوگا۔ اس بات کا اعادہ کیا جائے گا کہ ایسی کوئی صورتحال مستقبل میں پیدا نہ ہو۔

’تو پھر یہی نواز شریف کا بیانیہ ہے اور اسی کو لے کر آگے چلیں گے۔‘

تاہم کیا نواز شریف کا انداز بدلے گا یا وہ تصادم کی سیاست جاری رکھیں گے؟ مصدق ملک کا ماننا ہے کہ ان کا اندازِ سیاست تصادم کا نہیں ہے۔

’میاں نواز شریف کا ماننا یہ ہے کہ ہر معاشرے میں چند بنیادی عقائد ہوتے ہیں جو اسے آگے لے کر جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی ہیں مگر تاریخی طور پر ان کا غلط استعمال ہوتا رہا ہے۔‘

’اب ہمیں یہ طے کر لینا چاہیے کہ وہ کون سے عقائد ہیں جنہیں کے کر ہم آگے بڑہیں۔ اسی کا وہ ذکر کر رہے ہیں، اس میں تصادم والی تو کوئی بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔‘

کیا نواز شریف انتخابات سے پہلے والا جاریحانہ انداز جاری رکھیں گے؟ اس حوالے سے مصدق ملک کا کہنا تھا کہ اس وقت انتخابی مہم چل رہی تھی، اب انتخابات ہو چکے ہیں۔

’تاہم ان کا کہنا تھا کہ ابھی انتحابات پر جو سوالات اٹھائے جا رہے ہیں ان کا سدِ باب ہونا ضروری ہے۔ اگر آئینی اور پارلیمانی طریقے سے ہوتا ہے تو پھر یہ ایک حکمتِ عملی ہو گی۔ اگر آئینی اور پارلیمانی طریقے سے نہیں ہوتا تو پھر کہیں احتجاج یا آواز تو اٹھائیں گے۔‘

تاہم اس احتجاج کے لیے نواز شریف کیا طریقہ کار اختیار کریں گے، اس کا فیصلہ چند روز بعد جماعت کی مجلسِ عاملہ کے ذریعے کیا جائے گا۔

تجزیہ کار شبیر احمد خان تاہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں نواز شریف خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ وہ اپنے ووٹر کو متحرک کریں گے، حزبِ اختلاف کی دیگر جماعتوں سے مشاورت کریں گے۔

’مجھے لگتا ہے پاکستان کی سیاست میں آنے والے دنوں میں آپ ہل چل دیکھیں گے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp