سسٹم سے اٹھتا ہوا دھواں


ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں، زبان پر لا نہیں سکتے، کیونکہ بظاہر آزادی ہے، لیکن چاروں طرف سے مئے حوادث کے قطرے ٹپک رہے ہیں۔ ایک ایسی ہی کیفیت میں شاعرِ مشرق حضرت اقبالؔ نے کہا تھا گفتار کے اسلوب میں قابو نہیں رہتا، جب روح کے اندر متلاطم ہوں خیالات۔ بس ایک تلاطم برپا ہے اور دُوسری طرف محافظ، نیزے لیے کھڑے ہیں جن کی مشاقی پر تاریخ بھی بول اٹھتی ہے’’تم قتل کرو ہو یا کرامات کروہو‘‘۔ آج کل قوم کے محافظ ہونےکے دعوےدار جناب عمران خان ہیں جن کو ورلڈ کپ جیتنے پر عالمی شہرت ملی تھی اور اُنھوں نے اپنے من میں ڈوب جانے کی ریاضت کی تھی۔ یہ ریاضت بائیس برسوں پر محیط تھی اور اِس دَوران وہ بہت ساری ’روحانی‘ منزلیں طے کر چکے تھے اور پاکستان کا وزیرِاعظم بن جانا اُن کی زندگی کا واحد نصب العین قرار پایا تھا خواہ اُن عناصر سے ہاتھ ملانا پڑا جن کے خلاف وہ حالت ِجذب میں سخت کلمات کہتے رہے تھے۔ جن کی شان میں گستاخی کی گئی تھی، وہ شریف النفس لوگ تھے اور وَطن کے مفادات کے نگہبان۔ اُنھوں نے تعاون کا ہاتھ بڑھایا اور بڑی فراخ دِلی سے ہر قسم کی مدد فراہم کی۔ اُنھیں منافقت سے بڑی نفرت اور بیزاری تھی، اِس لیے وہ ہر کام کھلے بندوں کرتے رہے۔ راتوں رَات محاذ بنے اور اُمیدواروں نے اپنی پارٹی کے ٹکٹ واپس کر دیے۔ انتخابات کے بعد کامیاب ہونے والے آزاد اُمیدوار مسیحا کی جھولی میں ڈال دیے گئےکہ فیصلے آسمان پرہو چکے تھے۔

عوام کو اِن فیصلوں کی اذیت سہتے ہوئے ڈھائی سال ہونے کو ہیں اور وہ سسٹم سے اپنے دکھوں کا مداوا چاہتے ہیں۔ عمران خان کہتے ہیں سسٹم مَیں ہوں اور اِن کا ارشاد ہے کہ ماضی کی حکومتوں کے عبرت ناک انجام سے عام آدمی کے سارے دلدر دُور ہو جائیں گے، چنانچہ اِنہوں نے ریاست کے تمام ادارے مخالف سیاست دانوں کی کردارکشی پر مامور کر دیے ہیں اور ترجمانوں کی ایک بڑی کھیپ بدزبانی کے لیے مختص کر دی ہے۔ اب کابینہ کے اجلاس ہوں، پارلیمنٹ کے اجلاس یا ٹی وی ٹاک شوز، اِن سب میں ایک ہی موضوع زیرِبحث آتا ہے کہ مخالف جماعتوں کا کس طرح تیاپانچا کیا جائے اور حکومت کی نااہلی اور اِس کے ہاتھوں عوام کے کھربوں روپے لُٹا دینے اور اُن پر مہنگائی کا عذاب نازل کرنے کے اقدامات بھی کس طرح خوش رنگ انداز میں پیش کیے جائیں۔ سسٹم کے بگاڑ کا زندہ ثبوت یہ ہے کہ ایک رات پورا ملک اندھیرے میں ڈوب گیا اور اَربابِ حکومت نے اِس پر کسی قسم کی تشویش ظاہر کرنے کے بجائے یہ قوالی شروع کر دی کہ سب کچھ ماضی کی حکومتوں کا کیا دھرا ہے۔ اُنھوں نے ٹرانسمیشن اور ڈِسٹری بیوشن کے سسٹم کی بہتری کے لیے کوئی سرمایہ کاری نہیں کی۔ اب معلوم ہوا ہے کہ جو تین کمپنیاں اِس اہم ترین سسٹم کی دیکھ بھال کی ذمےدار ہیں، وہاں اعلیٰ مناصب پر پروفیشنل تعینات ہی نہیں کیے گئے اور کسی کو خیال نہیں آیا کہ اِس کوتاہی سے بہت بڑا قومی حادثہ پیش آ سکتا ہے۔ حکومت کی بنیادی اَور اہم کاموں کی طرف توجہ ہی نہیں۔ پاور سیکٹر کے انچارج مستعفی ہونے کے بجائے ادنیٰ درجے کے پانچ سات اہلکار معطل کر کے اَپنے شہریوں کو غلط اطلاعات سے بہلانے کی کوشش فرما رہے ہیں۔

پارلیمانی نظام میں اصل اہمیت پارلیمنٹ اور کابینہ کو حاصل ہوتی ہے۔ جناب عمران خان اِن تمام اداروں سے بالاتر ہیں اور اِن کے دل میں ہمہ مقتدر حکمران بننے کی خواہش چٹکیاں لیتی رہتی ہے۔ اِن کا خیال ہے کہ جب ایوب خان سیاہ و سپید کے مالک بن سکتے ہیں، تو مَیں کیوں نہیں بن سکتا، چنانچہ وہ کبھی اٹھارہویں ترمیم کے خاتمے کا عندیہ دیتے ہیں، کبھی سندھ اور بلوچستان کے جزیروں پر قبضہ کرنے کی نوید سناتے ہیں اور گاہے گاہے غیرمنتخب مشیروں کی تعداد میں اضافہ کرتے اور اِنھیں اختیارات سے لادتے چلے جاتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں سنجیدہ بحث کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے اِسے مچھلی منڈی بنا دیا گیا ہے اور قانون سازی کے عمل کا گلا گھونٹ کر صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کاروبارِ حکومت چلایا جا رہا ہے۔ اِس افراتفری میں باربار ہنگامی حالت عود کرتی رہتی ہے اور باربار فوج کی خدمات حاصل کرنا پڑتی ہیں۔ عام تاثر یہ ہے کہ ہماری فرض شناس اَور منظم فوج اَگر تعاون نہ کرے، تو حکومت دو چار دِن بھی قائم نہ رہ سکے، کیونکہ اِس کی کارکردگی عوام کی بہبود کے سلسلے میں ناقابلِ ذکر ہے۔ وہ تو اشیائے ضرورت کی قیمتیں اعتدال پر قائم رکھنے میں بری طرح ناکام رہی ہے او راِس نے مافیاؤں کو زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے مواقع فراہم کیے ہیں۔

ڈھائی سال بعد دکھوں کی ماری غریب اور متوسط آبادی نے سُکھ کا سانس لیا ہے کہ آئندہ وزیرِاعظم صاحب اپنے وزیروں کی کارکردگی کا خود جائزہ لیں گے اور کوتاہی پر کسی کو بھی معاف نہیں کریں گے۔ اُن کے عزم کا اِس اِنتباہ سے بھی اندازہ ہوتا ہے جو اِنھوں نے اپنےو زیروں کو دیا ہے کہ جو حکومتی فیصلوں کے مخالف ہیں، وہ مستعفی ہو جائیں۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ ملمع اتر گیا ہے اور وَزیرِاعظم سے وزرا کا اختلاف ناقابلِ برداشت ہو گیا ہے۔ چند روز پہلے ہماری مایہ ناز تجزیہ نگار نسیم زہرا نے ایک نجی ٹی وی پر کہا تھا کہ ہمارے وزیرِاعظم صاحب چوتھی جماعت کے بچوں کی طرح اپوزیشن سے کُٹی کیے بیٹھے ہیں۔ اپوزیشن کے قائدین پر ڈاکوؤں اَور لُٹیروں کی پھبتیاں کستے رہنے کے باعث ہی سسٹم کے اندر سے دھواں اُٹھنے لگا ہے جو حد درجہ تشویش کی بات ہے۔ اِس پر ہماری اسٹیبلشمنٹ کو بڑے ٹھنڈے دِل سے غور کرنا اور تحریکِ انصاف کے قائدین کو بھی جرأت کا ثبوت دینا ہو گا، کیونکہ قوم اَب جمہوریت کا قتل برداشت نہیں کر پائے گی۔ ہماری بقا کا یہی تقاضا ہے کہ سب مل بیٹھیں اور کلیدی مسائل کے حل پر متفق ہو جائیں، کیونکہ اُمورِ مملکت اتفاقِ رائے سے بخوبی انجام پاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).