ڈیل ہو گئی! دو جمع دو والا تجزیہ


ہم بھی عجیب قوم ہیں۔ اپنے لوگ اور اداروں پر خود ہی اعتماد نہیں کرتے مگر کوئی غیر اس ضمن میں تھوڑا سچ بیان کرنے کی جسارت کرے تو چراغ پا ہوجاتے ہیں۔

نواز شریف کی سزا کی معطلی والے حکم کا جب اعلان ہوا تو اس وقت میں گھر میں لیپ ٹاپ کھولے بیٹھا تھا۔ فیس بک اور ٹویٹر کے ذریعے فوری تاثر یہ پھیلانے کی کوشش ہوئی کہ ”ڈیل ہوگئی“۔ مجھ ایسے خبطی کے ذہن میں سوال اُٹھا کب، کہاں اور کس کے درمیان۔ بجائے ان سوالات کے معقول جوابات دینے کے اشاروں کنایوں میں یاد مجھے یہ دلایا گیا کہ نواز شریف کو ”ریلیف“ عین اس وقت نصیب ہوئی ہے جب وزیر اعظم عمران خان صاحب سعودی حکام سے ملاقاتوں میں مصروف تھے۔ دو جمع دو والا بچگانہ ”تجزیہ“؟!

یہ ”تجزیہ“ مشتہر کرنے والوں کی اکثریت عمران خان صاحب سے بے پناہ محبت کرنے والوں پر مشتمل تھی۔ ان کے دیکھا دیکھی چند اور نواز مخالف ”دانشواران“ بھی اس سوچ کے فروغ میں مصروف ہوگئے۔ یہ بات کسی نے یاد ہی نہ رکھی کہ امریکہ کا صدر منتخب ہوتے ہی ٹرمپ نے پہلا دورہ سعودی عرب کا رکھا تھا۔ اس دورے کے دوران اس نے وہاں اسلامی ممالک کے چند سربراہان کو ایک کانفرنس میں ”اسلام اور دہشت گردی“ کے موضوع پر لیکچر بھی دیا تھا۔ ”امتِ مسلمہ کی واحد ایٹمی قوت“ کے منتخب وزیراعظم نواز شریف بھی اس کانفرنس میں مدعوکیے گئے تھے۔ انہیں ”سعودی نواز“ تصور کیا جاتاتھا۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ سعودی حکومت نے انہیں پرویز مشرف کے غضب سے بچا کر اپنے ہاں پناہ دے رکھی تھی۔

سعود ی حکومت کے مبینہ ”لاڈلے“ نواز شریف کو لیکن اس کانفرنس سے خطاب کا موقع نہیں دیا گیا۔ وہ اس عشائیے میں بھی غیر نمایاں رہے جو سعودی بادشاہ نے ٹرمپ کے اعزاز میں دیا تھا۔ ہمارے حوالے سے سب سے نمایاں تصویر جو اس عشائیے کی تقریب سے جاری ہوئی اس میں سعودی حکومت کے حتمی اور کلیدی فیصلہ ساز شہزادہ محمد بن سلمان ایک خصوصی میز پر ٹرمپ کے داماد کشنر کے ساتھ بیٹھے تھے۔ تیسرے شخص اس میز پر پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف تھے جو ان دنوں سعودی ایما اور سرمائے سے بنائی ”مسلم نیٹو“ کے سربراہ ہیں۔

ایم بی ایس، کشنر اورراحیل شریف کی تصویر ایک مقصد کے تحت جاری ہوئی تھی۔ اس کے ذریعے واضح طورپر پیغام دے دیا گیا کہ سعودی عرب نے نواز شریف کو تنہا چھوڑ دیا ہے۔ وہ اگر پاکستان کے اداروں کے غضب کا نشانہ بنے تو انہیں ماضی والی مدد فراہم نہیں کی جائے گی۔ یہ پیغام آج بھی اپنی جگہ قائم ہے۔

اسلام آباد میں متعین سعودی سفیر وہ پہلے غیر ملکی سفارت کار تھے جنہوں نے عمران خان صاحب کے ساتھ 25 جولائی 2018 کے انتخابات کے بعد ملاقات کی اورانہیں ”کامیابی“ کی مبارک دی۔ ”کامیابی کی یہ مبارک“ سعودی حکومت کی جانب سے 25 جولائی 2018 کے انتخابی عمل پر مکمل اعتماد کا اظہار تھا۔ ان کے بعد باری آئی چینی سفیر کی۔ بھارتی وزیر اعظم کا فون بھی آگیا اور بنی گالہ میں غیر ملکی سفراءکی حاضریاں شروع ہوگئیں۔ بہت سوچ سمجھ کر اٹھائے ان تمام سفارتی اقدامات کا بنیادی مقصد پاکستانیوں کو یہ پیغام دینا تھا کہ بین الاقوامی برادری اور ادارے عمران خان صاحب کو پاکستان کا جائز طورپر منتخب ہوا وزیر اعظم تسلیم کرتے ہیں۔ رہا نواز شریف کامعاملہ تو وہ جانیں اور ہماری عدالتیں۔ کوئی غیر ملک پاکستان میں رول آف لا سے جڑے معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا۔

نواز شریف کو ملی عارضی ریلیف پر تلملاتے انصاف پسند، غریب پرور اور کرپشن سے نفرت کرنے والے پاک باز افراد کا گروہ ٹی وی سکرینوں پر اشاروں کنایوں میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ان معزز ججوں کی توہین کرتا بھی سنائی دیا جنہوں نے ”مستند دستاویز سے بدعنوان اور جھوٹے ثابت ہوئے“ نواز شریف کی عارضی رہائی کا حکم جاری کیا تھا۔ بدقسمتی سے ان پاک بازوں کی اکثریت ان افراد پر مشتمل تھی جو نواز شریف اور ان کے حامیوں کو عدالتوں کا احترام نہ کرنے کا مجرم قرار دیتے ہیں۔ ان میں سے چند ایک نے اپنا غصہ نیب پر بھی اُتارا۔ یہ بات کسی شخص نے یاد ہی نہ رکھی کہ احتساب عدالت کا نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے خلاف آیا فیصلہ وکلاءکی اکثریت نے ٹھوس بنیادوں پر ”ناقص “ قرار دیا تھا۔ انہیں یقین تھا کہ اعلیٰ عدالتوں کے روبرو اسے ڈیفینڈ کرنا بہت مشکل ہوجائے گا۔

نواز شریف کے خلاف ویسے بھی نیب کے دو اور کیس ابھی چل رہے ہیں۔ امید ہے کہ نواز دشمنوں کی تسلی کے لئے اگر ان میں بھی نواز شریف کو خطاوار پایا گیا تو فیصلہ اس انداز میں لکھا جائے گا کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اس کے خلا ف خواجہ حارث بھی جانے کی جرات نہ دکھاپائیں۔

نواز شریف کو ملی ریلیف قطعاً عارضی ہے۔ فرض کیا ان پر آئی مصیبت مستقل بنیادوں پر ٹل بھی گئی ہو تو پانامہ کیس کے دوران ہوئی مسلسل رسوائی جے آئی ٹی کے روبرو پیشیوں، وزارتِ عظمیٰ سے فراغت اور بالآخر اڈیالہ جیل میں گزارے دنوں سے بڑھ کر کونسا عذاب ان پر مزید مسلط کیا جاسکتا ہے۔

ذاتی اور جذباتی حوالوں سے سوچیں تو نواز شریف کے لئے اس سے بڑی سزا ان کا بدترین دشمن بھی سوچ نہیں سکتا تھا کہ ان کی عمر بھر کی ساتھی کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہو اور وہ ان کے آخری لمحات میں دُکھ بانٹنے ان کے پاس نہ ہوں۔ مریم نواز صاحبہ بھی اپنی ماں کی آخری لمحات میں خدمت کرنے کے فرض کو نبھانہ پائیں۔ ایسے معاملات کے حوالے سے دلوں میں جاگزیں ہوا تاسف بہت دیرپا ہوتا ہے۔ اس کا ازالہ ممکن ہی نہیں۔

نواز شریف کی عدالتی مشکلات ہمیشہ کے لئے ختم ہوبھی جائیں تو وہ کسی صورت اس ملک کے دوبارہ وزیر اعظم نہیں بن سکتے۔ سپریم کورٹ نے انہیں تاحیات کسی بھی عوامی عہدے کے لئے نا اہل قرار دے رکھا ہے۔ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کی جانب سے آئے فیصلے کے خلاف اپیل کی گنجائش ہی موجود نہیں ہے۔

کہا یہ بھی جارہا ہے کہ مستقبل اب مریم نواز شریف کا ہے۔ فرض کیا یہ بات درست ہو تو ”مستقبل“ کبھی محترمہ بے نظیر بھٹو کا بھی بتایا گیا تھا۔ اپنے باپ کی پھانسی کے بعد جیلوں، نظربندیوں اور طویل جلاوطنی کے بعد وہ بالآخر 1988میں اس ملک کی وزیر اعظم منتخب ہوئیں تو محض 2سال بعد انہیں فارغ کردیا گیا۔ ان کے شوہرجیل بھیج دیے گئے۔ 1993میں دوسری بار وزیر اعظم بنیں تو 3سال بعد ان کے ہاتھوں سے بنائے صدر کے ذریعے فراغت اور آصف علی زرداری دوبارہ جیل میں چلے گئے۔

اپنے بچوں کو ذرا سکون بھرے ماحول میں پالنے کے لئے وہ دوبئی میں ازخود جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئیں۔ بالآخر امریکہ اور برطانیہ نے فقط اپنے مفادات کے حصول کی خاطر جنرل مشرف سے این آر او والا بندوبست کروایا۔ انجام مگر کیا ہوا؟ ر اولپنڈی کی ایک سڑک پر دن دیہاڑے دہشت گردی کا شکاربن گئیں۔ ان کے مبینہ قاتل اگرچہ اپنے انجام تک نہ پہنچ پائے۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کے انجام کو ذہن میں رکھتے ہوئے مجھے ایمان داری کی بات ہے محترمہ مریم نواز شریف کے ”مستقبل“ سے بھی خوف آتا ہے جسے ان کے دشمن یا بدخواہ یکساں طورپر ”روشن“ بتارہے ہیں۔ ربّ کریم سے دردمندانہ دُعا ہے کہ مریم نواز صاحبہ کو ایسے ”روشن مستقبل“ سے محفوظ رکھے۔ زیادہ بہتر یہی ہے کہ سرجھکا کر یہ حقیقت تسلیم کرلی جائے کہ ”مستقبل“ ہو یا ”ماضی“ اس ملک میں وہ فقط جنرل مشرف یا ایوب خان جیسے دیدہ وروں ہی کے روشن اور تاب ناک ہوا کرتے ہیں۔ عدالتی حوالوں سے بھی جسٹس منیر کی دریافت کردہ ”نظری¿ہ ضرورت“ کا ابدی بول بولا ہے۔

عمران خان صاحب کو وزیر اعظم بنے ابھی دو ماہ بھی مکمل نہیں ہوئے ہیں۔ ان کے ”حال“ پر توجہ مرکوز رکھیں اور اطمینان سے دیکھیں کہ وہ کس ”دھج“ سے اپنی پانچ سالہ آئینی مدت مکمل کرتے ہیں۔ ان کا دورئہ سعودی عرب بہت کامیاب رہا ہے۔ آرمی چیف کی چینی صدر سے ملاقات بھی ہوگئی ہے۔ مزید اچھی خبروں کا انتظار کریں اور نواز شریف اور مریم بی بی کو یہ مہلت عطا فرمائیں کہ وہ محترمہ کلثوم نواز شریف کے آخری ایام کے حوالے سے اپنے دلوں میں جاگزیں ہوئے تاسف کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کرسکیں۔

بشکریہ نوائے وقت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).