لذت سنگ – کالی شلوار اور دھواں میں فحاشی


آج کا افسانہ نویس ان مردوں اور عورتوں کی کہانیاں لکھتا ہے جو جنوں اور پریوں سے کہیں زیادہ دلچسپ ہیں۔ اس دور کا ادیب مطمئن انسان تھا۔ آج کا ادیب ایک غیر مطمئن انسان ہے۔ اپنے ماحول، اپنے نظام، اپنی معاشرت، اپنے ادب، حتیٰ کہ اپنے آپ سے بھی۔ اس کی اس بے اطمینانی کو لوگوں نے غلط نام دے رکھے ہیں۔ کوئی اسے ترقی پسند کہتا ہے، کوئی فحش نگار اور کوئی مزدور پرست۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان ادیبوں کے اعصاب پر عورت سوار ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ ہبوط آدم سے لے کر اب تک ہر مرد کے اعصاب پر عورت سوار رہی ہے اور کیوں نہ رہے، مرد کے اعصاب پر کیا ہاتھی گھوڑوں کو سوار ہونا چاہیے، جب کبوتر، کبوتریوں کو دیکھ کر گٹکتے ہیں تو مرد، عورتوں کو دیکھ کر ایک غزل یا افسانہ کیوں نہ لکھیں، عورتیں کبوتریوں سے کہیں زیادہ دلچسپ خوبصورت اور فکر انگیز ہیں۔ کیا میں جھوٹ کہتا ہوں، آج سے کچھ عرصہ پہلے شاعری میں عورت کو ایک خوبصورت لڑکا بنا دیا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس زمانے کے شاعروں نے اس میں کوئی مصلحت دیکھی ہوگی، مگر آج کے شاعر اس مصلحت کے خلاف ہیں۔ وہ عورت کے چہرے پر سبزے یا خط کے آغاز کو بہت ہی مکروہ اور خلاف فطرتِ سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دوسرے بھی اس کو اس کی اصلی شکل ہی میں دیکھیں۔ خدا لگتی کہیے، کیا آپ اپنی محبوب کے گالوں پر داڑھی پسند کریں گے؟

میں عرض کر رہا ہوں کہ زمانے کی کروٹوں کے ساتھ ادب بھی کروٹیں بدلتا رہتا ہے۔ آج اس نے جو کروٹ بدلی ہے اس کے خلاف اخباروں میں مضمون لکھنا یا جلسوں میں زہر اگلنا بالکل بیکار ہے۔ وہ لوگ جو ادبِ جدید کا، ترقی پسند ادب کا، فحش ادب کا یا جو کچھ بھی یہ ہے، خاتمہ کر دینا چاہتے ہیں تو اس کا راستہ یہ ہے کہ ان حالات کا خاتمہ کر دیا جائے جو اس ادب کے محرک ہیں۔ محمود آباد کے راجہ صاحب کا حیدر آباد کے شاعر ماہر القادری صاحب کا یا بمبئی کے دوا فروش حکیم مرزا حیدر بیگ صاحب کا اس لٹریچر کے خلاف ریزولیوشن پاس کرنا بالکل بیکار ہے۔

جب تک عورتوں اور مردوں کے جذبات کے درمیان ایک موٹی دیوار حائل رہے گی، عصمت چغتائی اس کے چونے کو اپنے تیز ناخنوں سے کریدتی رہے گی، جب تک کشمیر کے حسین دیہاتوں میں شہروں کی گندگی پھیلی رہے گی، غریب کرشن چندر ہولے ہولے روتا رہے گا۔ جب تک انسانوں میں اور خاص طور پر سعادت حسن منٹو میں کمزوریاں موجود ہیں، وہ خوردبین سے دیکھ دیکھ کر باہر نکلتا اور دوسروں کو دکھاتا رہے گا۔

راجہ صاحب محمود آباد اور ان کے ہم خیال کہتے ہیں۔ یہ سراسر بیہودگی ہے۔ تم جو کچھ لکھتے ہو، خرافات ہے۔ میں کہتا ہوں، بالکل درست ہے۔ اس لیے کہ میں بیہودگیوں اور خرافات ہی کے متعلق لکھتا ہوں۔ راجہ صاحب محمود آباد ایک کانفرنس کے صدر بن جائیں یا حکیم حیدر بیگ صاحب کھانسی دور کرنے کا مجرب شربت ایجاد کریں، مجھے ان کی صدارت اور ان کے شربت سے کوئی دلچسپی نہیں، البتہ جب میں ٹرین میں بیٹھا اپنا خریدا ہوا قیمتی پن نکالتا ہوں، صرف اس غرض سے کہ لوگ دیکھیں اور مرعوب ہوں تو مجھے اپنا سفلہ پن بہت دلچسپ معلوم ہوتا ہے۔

میرے پڑوس میں اگر کوئی عورت ہر روز خاوند سے مار کھاتی ہے اور پھر اس کے جوتے صاف کرتی ہے تو میرے دل میں اس کے لئے ذرا برابر ہمدردی پیدا نہیں ہوتی، لیکن جب میرے پڑوس میں کوئی عورت اپنے خاوند سے لڑ کر اور خودکشی کی دھمکی دے کر سینما دیکھنے چلی جاتی ہے اور میں خاوند کو دو گھنٹے سخت پریشانی کی حالت میں دیکھتا ہوں تو مجھے دونوں سے ایک عجیب و غریب قسم کی ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے۔

کسی لڑکے کو لڑکی سے عشق ہو جائے تو میں اسے زکام کے برابر اہمیت نہیں دیتا، مگر وہ لڑکا میری توجہ کو اپنی طر ف ضرور کھینچے گا جو ظاہر کرے کہ اس پر سینکڑوں لڑکیاں جان دیتی ہیں، لیکن درحقیقت وہ محبت کا اتنا ہی بھوکا ہے جتنا بنگال کا فاقہ زدہ باشندہ۔ اس بظاہر کامیاب عاشق کی رنگین باتوں میں جو ٹریجڈی سسکیاں بھرتی ہوں گی، اس کو میں اپنے دل کے کانوں سے سنوں گا اور دوسروں کو سناؤں گا۔ چکی پیسنے والی عورت جو دن بھر کام کرتی ہے اور رات کو اطمینان سے سو جاتی ہے، میرے افسانوں کی ہیروئن نہیں ہو سکتی۔

میری ہیروئن چکلے کی ایک ٹکھیائی رنڈی ہو سکتی ہے جو رات کو جاگتی ہے اور دن کو سوتے میں کبھی کبھی ڈراؤنا خواب دیکھ کر اٹھ بیٹھتی ہے کہ بڑھاپا اس کے دروازے پر دستک دینے آ رہا ہے۔ اس کے بھاری بھاری پپوٹے جن پر برسوں کی اُچٹی ہوئی نیندیں منجمد ہو گئی ہیں، میرے افسانوں کا موضوع بن سکتے ہیں۔ اس کی غلاظت، اس کی بیماریاں، اس کا چڑچڑاپن، اس کی گالیاں یہ سب مجھے بھاتی ہیں۔ میں ان کے متعلق لکھتا ہوں اور گھریلو عورتوں کی شستہ کلامیوں، ان کی صحت اور ان کی نفاست پسندی کو نظرانداز کر جاتا ہوں۔

اعتراض کیا جاتا ہے کہ نئے لکھنے والوں نے عورت اور مرد کے جنسی تعلقات ہی کو اپنا موضوع بنا لیا ہے۔ میں سب کی طرف سے جواب نہیں دوں گا، اپنے متعلق اتنا کہوں گا کہ یہ موضوع مجھے پسند ہے۔ کیوں ہے۔ بس ہے، سمجھ لیجیے کہ مجھ میں (Perversion) ہے اور اگر آپ عقلمند ہیں، چیزوں کے عواقب و عواطف اچھی طرح جانچ سکتے ہیں تو سمجھ لیں گے کہ یہ بیماری مجھے کیوں لگی ہے۔ زمانے کے جس دور سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں، اگر آپ اس سے ناواقف ہیں تو میرے افسانے پڑھیے، اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ زمانہ ناقابل برداشت ہے۔

مجھ میں جو برائیاں ہیں، وہ اس عہد کی برائیاں ہیں۔ میری تحریر میں کوئی نقص نہیں۔ جس نقص کو میرے نام سے منسوب کیا جاتا ہے، دراصل موجودہ نظام کا نقص ہے۔ میں ہنگامہ پسند نہیں۔ میں لوگوں کے خیالات و جذبات میں ہیجان پیدا کرنا نہیں چاہتا۔ میں تہذیب و تمدن اور سوسائٹی کی چولی کیا اتاروں گا جو ہے ہی ننگی۔ میں اسے کپڑے پہنانے کی کوشش بھی نہیں کرتا، اس لئے کہ یہ میرا کام نہیں درزیوں کا ہے۔ لوگ مجھے سیاہ قلم کہتے ہیں، میں تختہ سیاہ پر کالی چاک سے نہیں لکھتا، سفید چاک استعمال کرتا ہوں کہ تختہ سیاہ کی سیاہی اور بھی زیادہ نمایاں ہو جائے۔ یہ میرا خاص انداز، میرا خاص طرز ہے جسے فحش نگاری، ترقی پسندی اور خدا معلوم کیا کچھ کہا جاتا ہے۔ لعنت ہو سعادت حسن منٹو پر، کم بخت کو گالی بھی سلیقے سے نہیں دی جاتی۔

جب میں نے لکھنا شروع کیا تھا تو گھر والے سب بیزار تھے۔ باہر کے لوگوں کو بھی میرے ساتھ دلچسپی پیدا ہو گئی تھی، چنانچہ وہ کہا کرتے تھے ”بھئی کوئی نوکری تلاش کرو۔ کب تک بیکارپڑے افسانے لکھتے رہو گے۔ ‘‘ آٹھ دس برس پہلے افسانہ نگاری بیکاری کا دوسرا نام تھا، آج اسے ادبِ جدید کہا جاتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے ذہن نے کافی ترقی کر لی ہے۔ وہ وقت بھی آ جائے گا جب اس جدید ادب کا صحیح مطلب واضح ہو جائے گا اور حکیم حیدر بیگ صاحب دہلوی کو اپنے شفاخانے سے اٹھ کر نئے لکھنے والوں کے روگ کی تشخیص نہیں کرنا پڑے گی۔

جب سے جنگ شروع ہوئی ہے، ادب جدید پر ایک نئے زاویئے سے حملہ کیا جا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب ساری دنیا جنگ کے شعلوں میں لپٹی ہے، ہر روز ہزاروں انسانوں کا خون مٹی میں مل رہا ہے۔ فنا باوۂ ہر جام بنی ہے۔ دوسری اجناس کی طرح انسانوں کے گوشت پوست کی دکانیں بھی کھلی ہیں۔ یہ نئے لکھنے والے کیوں خاموش ہیں۔ کیا ان کے قلم صرف جنسیات کی روشنائی ہی میں ڈوبتے ہیں؟ دنیا کا نقشہ بدل رہا ہے۔ ہر لحظ، ہر گھڑی ایک نئے طوفان کا پیغام لا رہی ہے، مگر ان کے دل و دماغ پر ایسا جمود طاری ہے کہ دور ہی نہیں ہوتا۔

میں پھر دوسروں کی طرف سے جواب نہیں دو ں گا۔ اپنے متعلق عرض کرنا چاہتا ہوں کہ دنیا کا نقشہ واقعی بدل رہا ہے، لیکن اگر میں نے اس کے متعلق کچھ لکھ دیا تو میرا حلیہ بھی بدل جائے گا۔ ڈرپوک آدمی ہوں، جیل سے بہت ڈر لگتا ہے۔ یہ زندگی جو بسر کر رہا ہوں، جیل سے کم تکلیف دہ نہیں۔ اگر اس جیل کے اندر ایک اور جیل پیدا ہو جائے اور مجھے اس میں ٹھوس دیا جائے تو چٹکیوں میں دم گھٹ جائے۔ زندگی سے مجھے پیار ہے۔ حرکت کا دلدادہ ہوں، چلتے پھرتے، سینے میں گولی کھا سکتا ہوں لیکن جیل میں کھٹمل کی موت نہیں مرنا چاہتا۔

یہاں اس پلیٹ فارم پر یہ مضمون سناتے سناتے آپ سب سے مار کھا لوں گا اور اف تک نہیں کروں گا، لیکن ہندو مسلم فساد میں اگر کوئی میرا سر پھوڑ دے تو میرے خون کی ہر بوند روتی رہے گی۔ میں آرٹسٹ ہوں اور اوچھے زخم اور بھدے گھاؤ مجھے پسند نہیں۔ جنگ کے بارے میں کچھ لکھوں اور دل میں پستول دیکھنے اور اس کو چھونے کی حسرت دبائے کسی تنگ و تاریک کوٹھڑی میں مر جاؤں۔ ایسی موت سے تو یہی بہتر ہے کہ لکھنا وکھنا چھوڑ کر ڈیری فارم کھول لوں اور پانی ملا دودھ بیچنا شروع کر دوں۔

میں اس جنگ کے بارے میں کچھ نہیں لکھوں گا۔ گولے اور تار پیڈو ایک طرف رہے، میں نے تو آج تک ہوائی بندوق بھی نہیں چلائی۔ بچپن کی بات ہے، ہمارے پڑوس میں ایک تھانے دار رہتے تھے۔ ان کے پاس پستول تھا۔ پیٹی اتار کر جب وہ پلنگ پر رکھتے تو سب بچوں سے کہہ دیا جاتا، دیکھو اس کمرے میں مت جانا۔ وہاں پستول پڑا ہے۔ کبھی کبھی ہم ڈرتے ڈرتے اس کمرے میں چلے جاتے۔ دور کھڑے رہ کر اس خطرناک آلے کی طرف دیکھتے تو دل دھک دھک کرنے لگتا۔ ایسا محسوس ہوتا کہ پڑے پڑے وہ پستول دغ جائے گا۔ اب بتایئے، میں اور میرے دوست ٹینکوں کے بارے میں کیا لکھیں گے!

مجھے چست وردی پہننے کا شوق نہیں ہے۔ پیتل اور تانبے کے تمغوں اور کپڑے کے رنگین بلوں سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔ ہوٹلوں میں ڈانس کر کے، کلبوں میں شراب پی کر اور ٹیکسیوں میں چونا کتھا لگی لڑکیوں کے ساتھ گھوم کر میں دارالیفرٹ کی مدد کرنا نہیں چاہتا۔ اس سے کہیں زیادہ دلچسپ مشاغل مجھے میسر ہیں۔ مثال کے طور پر یہ مشغلہ کیا برا ہے کہ میں ہر روز بمبئی سنٹرل سے گورے گاؤں اور گورے گاؤں سے بمبئی سنٹرل تک برقی ٹرین میں سینکڑوں وردی پوش فوجیوں کو دیکھتا ہوں جو فتح و نصرت کو اور زیادہ قریب لانے کے لئے شراب کے نشے میں مدہوش یا تو ٹانگیں پسا ر ے سو رہے ہوتے ہیں یا نہایت ہی بدنما عورتوں سے، میری موجودگی سے غافل، نہایت ہی واہیات قسم کا رومانس لڑانے میں مصروف ہوتے ہیں۔

میں اس جنگ کے بارے میں کچھ نہیں لکھوں گا، لیکن جب میرے ہاتھ میں پستول ہوگا اور دل میں یہ دھڑکا نہیں رہے گا کہ یہ خود بخود چل پڑے گا تو میں اسے لہراتا ہوا باہر نکل جاؤں گا اور اپنے اصلی دشمن کو پہچان کر یا تو ساری گولیاں اس کے سینے میں خالی کر دوں گا۔ یا خود چھلنی ہوجاؤں گا۔ اس موت پر جب میرا کوئی نقاد یہ کہے گا کہ پاگل تھا تو میری روح ان لفظوں ہی کو سب سے بڑا تمغہ سمجھ کر اٹھا لے گی اور اپنے سینے پر آویزاں کر لے گی۔ ‘‘

اس تقریر یا مضمون پر حکومت پنجاب نے زیردفعہ 30 ڈیفنس آف انڈیا رولز مقدمہ چلایا۔ الزام یہ ہے کہ اس میں حضور ملک معظم کی ”فورسز‘‘ کے متعلق ایسی غلط باتیں موجود ہیں جن سے ان کو ضعف پہنچ سکتا ہے۔ ”بو‘‘ پر جو اس کتاب کا پہلا افسانہ ہے صرف فحاشی کا الزام ہے۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6