لذت سنگ – کالی شلوار اور دھواں میں فحاشی


خط کشیدہ الفاظ اس بات کے ضامن ہیں کہ مسعود کا ذہن کہیں بھی شہوت سے ملوث نہیں ہوا۔ وہ اپنی بہن کی کمر دباتا ہے جس طرح وہ مزدور مٹی گوندھتے ہیں۔ ٹانگیں دباتا ہے تو اس کا خیال بازی گر کی طرف چلا جاتا ہے جس کا تماشا اس نے ایک بار اپنے سکول میں دیکھا تھا۔ اور جب یہ سوچتا ہے کہ اس کی بہن ذبح کر دی جائے تو کیا اس کے گوشت میں سے دھواں نکلے گا تو فوراً اسے بری بات سمجھ کر اپنے دماغ سے نکال دیتا ہے اور خود کو مجرم سمجھتا ہے۔

خدا جانے استغاثہ اس افسانے کو فحش کیوں کہتا ہے جس میں فحاشی کا شائبہ تک موجود نہیں۔ اگر میں کسی عورت کے سینے کا ذکر کرنا چاہوں گا تو اسے عورت کا سینہ ہی کہوں گا۔ عورت کی چھاتیوں کو آپ مونگ پھلی، میز یا اُسترا نہیں کہہ سکتے۔ یوں تو بعض حضرات کے نزدیک عورت کا وجود ہی فحش ہے، مگر اس کا کیا علاج ہو سکتا ہے۔

میں ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جن کو بکری کا ایک معصوم بچہ ہی معصیت کی طرف لے جاتا ہے۔ دنیا میں ایسے اشخاص بھی موجود ہیں جو مقدس کتابوں سے شہوانی لذت حاصل کرتے ہیں۔ اور ایسے انسان بھی آپ کو مل جائیں گے، لوہے کی مشینیں جن کے جسم میں شہوت کی حرارت پیدا کر دیتی ہیں۔ مگر لوہے کی ان مشینوں کا، جیسا کہ آپ سمجھ سکتے ہیں، کوئی قصور نہیں۔ اسی طرح نہ بکری کے معصوم بچے کا، ا ور نہ مقدس کتابوں کا۔

ایک مریض جسم، ایک بیمار ذہن ہی ایسا غلط اثر لے سکتا ہے، جو لوگ روحانی، ذہنی اور جسمانی لحاظ سے تندرست ہیں، اصل میں انہیں کے لئے شاعر شعر کہتا ہے، افسانہ نگار افسانہ لکھتا ہے اور مصور تصویر بناتا ہے۔

میرے افسانے تندرست اور صحت مند لوگوں کے لیے ہیں، ایسے انسانوں کے لئے جو عورت کے سینے کو عورت کا سینہ ہی سمجھتے ہیں اور اس سے زیادہ آگے نہیں بڑھتے۔ جو عورت اور مرد کے رشتے کو استعجاب کی نظر سے نہیں دیکھتے۔ جو کسی ادب پارے کو ایک ہی دفعہ نگل نہیں جاتے۔

روٹی کھانے کے متعلق ایک موٹا سا اصول ہے کہ ہر لقمہ اچھی طرح چبا کر کھاؤ، لعاب دہن میں اسے خوب حل ہونے دو تاکہ معدے پر زیادہ بوجھ نہ پڑے اور اس کی غذائیت برقرار رہے۔ پڑھنے کے لیے بھی یہی موٹا اصول ہے کہ ہر لفظ کو، ہر سطر کو ہر خیال کو اچھی طرح ذہن میں چباؤ۔ اس لعاب کو جو پڑھنے سے تمہارے دماغ میں پیدا ہو گا، اچھی طرح حل کرو تاکہ جو کچھ تم نے پڑھا ہے، اچھی طرح ہضم ہو سکے، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کے نتائج برے ہوں گے جس کے لئے تم لکھنے والے کو ذمہ دار نہ ٹھہرا سکو گے۔ وہ روٹی جو اچھی طرح چبا کر نہیں کھائی گئی تمہاری بدہضمی کی ذمہ دار کیسے ہو سکتی ہے!

میں ایک مثال سے اس کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔ فرانس میں ایک بہت بڑا افسانہ نگار گائی دی موپاساں گزرا ہے۔ جنسیات اس کا محبوب موضوع تھا۔ بڑے بڑے ڈاکٹروں اور ماہرین نفسیات نے اس کے افسانوں کا اپنی علمی کتابوں میں حوالہ دیا ہے۔ اپنے ایک افسانے میں وہ ایک لڑکے اور لڑکی کی داستان بیان کرتا ہے جو بے حد الہڑ تھے۔ پہلی رات کے متعلق دونوں نے سنی سنائی باتوں سے ایک عجیب و غریب تصویر اپنے ذہن میں کھینچ رکھی تھی۔ دونوں اس خیال سے کپکپا رہے تھے کہ خدا معلوم کتنی بڑی لذت ان کو پہلی رات کے ملاپ سے ملے گی۔

دونوں کی شادی ہو گئی۔ دولہا ماہ عسل منانے کی خاطر دُلہن کو ایک ہوٹل میں لے گیا۔ وہاں پہلی رات کو۔ اس رات کو جس میں دونوں کے خیال کے مطابق شاید فرشتے اتر کر ان کو لوریاں دینے والے تھے، دولہا اور دلہن ہم بستر ہو گئے۔ دونوں لیٹے تھے اور بس۔ دلہن نے شامت اعمال سے اتنا کہہ دیا ”بس۔ کیا یہی ہماری پہلی رات تھی جس کے ہم دونوں اتنے شیریں خواب دیکھا کرتے تھے‘‘۔ دولہا کو یہ بات کھا گئی آخر مرد ہی تو تھا۔ اس نے سوچا یہ میری مردانگی پر حملہ ہے۔ چنانچہ اس کی مردانگی بالکل ہی ختم ہو گئی۔ عرق ندامت میں غرق وہ حجلہ عروسی سے باہر نکل گیا، اس غرض سے کہ اپنی ناکام زندگی کسی دریا کے سپرد کر دے۔

عین اس وقت جب یہ نیا نویلا دولہا اس خطرناک فیصلے پر پہنچا، فرانس کی ایک کسبی۔ ایک ویشیا پاس سے گزری جو غالباً گاہک تلاش کر رہی تھی۔ اس عصمت باختہ عورت نے اس کو اشارہ کیا۔ دولہا نے محض انتقام لینے کے لئے۔ ساری عورت ذات سے بدلہ لینے کے لئے اس کو اس اشارے کا جواب دیا کہ ہاں میں تیار ہوں۔ وہ ٹکھیائی اسے اپنے گھر لے گئی۔ اس کے غلیظ گھر میں دولہا وہ کام کرنے میں کامیاب ہو گیا جو وہ اپنے نفیس ہوٹل کے حجلہ عروسی میں نہ کر سکا تھا۔ اب وہ اس ویشیا کو بھول گیا۔ دوڑا دوڑا اپنی نئی بیاہتا بیوی کے پاس پہنچا جیسے اسے کھوئی ہوئی دولت مل گئی ہے۔ دونوں پاس پاس لیٹے تھے مگر اب اس کی بیوی کو وہ شیریں خواب دیکھنے کی خواہش باقی نہیں رہی تھی جس کا اس نے پہلے گلہ کیا تھا۔

یہ افسانہ پڑھ کر اگر کوئی شخص جو پہلی رات کو ناکام رہا ہو، سیدھا ویشیا کے کوٹھے کا رخ کرے تو میں سمجھتا ہوں اس جیسا چغد اور کوئی نہیں ہوگا۔ میرے ایک دوست نے یہی بے وقوفی کی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسے اپنا کھویا ہوا وقار تو مل گیا، پر اس کے ساتھ ہی ایک مکروہ مرض چمٹ گیا جس کے علاج کے لئے اسے کافی زحمت اٹھانا پڑی۔

پچھلے دنوں میں نے آل انڈیا ریڈیو بمبئی سے ایک تقریر نشر کی تھی۔ اس میں، میں نے کہا تھا :

”ادب ایک فرد کی اپنی زندگی کی تصویر نہیں۔ جب کوئی ادیب قلم اٹھاتا ہے تو وہ اپنے گھریلو معاملات کا روزنامچہ پیش نہیں کرتا۔ اپنی ذاتی خواہشوں۔ خوشیوں، رنجشوں، بیماریوں اور تندرستیوں کا ذکر نہیں کرتا۔ اس کی قلمی تصویروں میں بہت ممکن ہے آنسو اس کی دکھی بہن کے ہوں، مسکراہٹیں آپ کی ہوں اور قہقہے ایک خستہ حال مزدور کے۔ اس لئے اپنی مسکراہٹوں، اپنے آنسوؤں اور اپنے قہقہوں کی ترازو میں ان تصویروں کو تولنا بہت بڑی غلطی ہے۔ ہر ادب پارہ ایک خاص فضاء ایک خاص اثر، ایک خاص مقصد کے لئے پیدا ہوتا ہے، اگر اس میں یہ خاص اثر اور یہ خاص مقصد محسوس نہ کیا جائے تو یہ ایک بے جان لاش رہ جائے گی۔

میں ایک زمانے سے لکھ رہا ہوں۔ گیارہ کتابوں کا مصنف و مؤلف ہوں۔ آل انڈیا ریڈیو کے تقریباً ہر سٹیشن سے میرے ڈرامے اور فیچر براڈ کاسٹ ہوتے رہتے ہیں۔ ان کی تعداد سو سے اوپر ہے۔ میں تحریر تصنیف کے جملہ آداب سے واقف ہوں۔ میرے قلم سے بے ادبی شاذو نادر ہی ہو سکتی ہے۔ میں فحش نگار نہیں، افسانہ نگار ہوں۔

دوسرے افسانے ”کالی شلوار‘‘ کے متعلق میں نے اس لئے کچھ نہیں کہا کہ لاہور کی سیشن کورٹ میں اسے فحاشی سے بری قرار دیا جا چکا ہے۔ ‘‘

میرے اس بیان کا کچھ اثر نہ ہوا۔ صفائی کے گواہوں میں ڈاکٹر سعید اللہ، ایم اے، ایل ایل بی، پی ایچ ڈی، ڈی ایس سی پروفیسر کنہیا لال کپور، ایم اے، ایل ایل بی، ڈاکٹر آئی لطیف ایم اے، پی ایچ ڈی، مولانا باری علیگ، دیوندر ستیارتھی جیسے اہل الرائے ہستیاں موجود تھیں۔ ان حضرات نے اپنا قیمتی وقت ضائع کر کے سارا سارا دن عدالت میں گزار کر میرے حق میں گواہی دی اور کہا کہ زیرعتاب افسانوں میں فحاشی کا شائبہ بھی موجود نہیں، لیکن رائے صاحب لالہ سنت رام نے دونوں افسانے فحش قرار دیے اور مجھے دو سو روپیہ جرمانہ ادا کرنے کی سزا دی۔ عدم ادائیگی جرمانہ کی صورت میں کتنے مہینوں کی قید بامشقت تھی، تھی یا نہیں اس کا مجھے علم نہیں۔ میں نے جب اپنی جیب سے دو سو روپے نکالے تو اسپیشل مجسٹریٹ صاحب کے ہونٹوں پر ایک اسپیشل مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ آ پ نے کہا : ”ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کیل کانٹے سے لیس ہو کر آئے تھے!‘‘

باوجود کوشش کے میرے ہونٹوں پر اسپیشل مسکراہٹ پیدا نہ ہو سکی۔ سیشن میں اپیل کی گئی۔ پیروی مسٹر ہیرا لال سیبل نے کی۔ کئی مہینے گزرنے پر ایک روز ان کا تار آیا کہ مبارک ہو، سیشن کورٹ نے اپیل منظور کر لی ہے۔ جرمانہ واپس ہو جائے گا۔

تیسری دفعہ انجام بخیر ہوا!

ایک اور لطیفہ سنئے۔ چند روز ہوئے، ایک صاحب مجھ سے ملنے آئے، میں نے نوکر سے کہا: ”پوچھو کون ہے؟ ‘‘ جواب آیا: ”سی آئی ڈی کا آدمی‘‘ ظاہر ہے کہ لاہور سے گرفتاری کا وارنٹ تھا لیکن جب میں اس سی آئی ڈی کے آدمی سے ملا اور اس سے کہا : ”فرمایئے، اب کی میری کس کہانی پر عتاب نازل ہوا ہے۔ ‘‘ تو وہ جیسے کچھ سمجھا ہی نہیں۔ کہنے لگا: ”ہم تپاس (پوچھ گچھ) کرنے آیا ہے۔ تمہارا نام ادھر کمیونسٹ پارٹی کے آفس میں چوپڑی (کتاب) میں لکھا تھا۔ بولو، تمہارا کیا تعلق ہے اس سے؟ ‘‘

یہ سن کر مجھے تسلی ہوئی اور مذاق سوجھا: ”چوپڑی سے، کمیونسٹ پارٹی سے؟ ‘‘ ”کمیونسٹ پارٹی سے؟ ‘‘
میں نے جواب دیا: ” تعلق ہے مگر ناجائز۔ ‘‘
”کیوں؟ ‘‘
”اس لئے کہ تمہاری حکومت یہی سمجھتی ہے۔ ورنہ تم یہاں تپاس کرنے کیوں آتے!‘‘ یہ قصہ بھی ختم ہوا۔

آخر میں ان تمام حضرات کا شکریہ ادا کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں جنہوں نے لاہور کی ایسی عدالت میں جہاں شریف انسانوں کو بیٹھنے کے لئے ایک ٹوٹی ہوئی کرسی بھی نہیں ملتی، گھنٹوں اپنا قیمتی وقت ضائع کر کے بھینسوں کے آگے بین بجائی۔

مسٹر اے ایس بخاری کا بھی ممنون و متشکر ہوں۔ متذکرہ صدر مقدمے کے فیصلے کے بعد یا اس سے کچھ دیر پہلے، آپ نے بمبئی ریڈیو سٹیشن میں مجھے بلایا اور بڑی شفقت سے بتایا کہ وہ اور ڈاکٹر محمد دین تاثیر میرے اور عصمت کے عتاب زدہ افسانوں کے متعلق ہندوستان کے مشہور ادیبوں کی رائے مرتب کرنے والے ہیں، اور یہ کہ انہوں نے لاہور میں عدالت سے بیانات وغیرہ کی نقل لینے کے لئے ایک آدمی بھی متعین کر دیا ہے۔ یہ سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ آپ نے اتفاق سے میرا افسانہ نہیں پڑھا تھا، چنانچہ ان کے ارشاد کے مطابق ایک جلد اس کتاب کی ان کو دہلی روانہ کر دی۔ اس ملاقات کو تقریباً ایک برس ہو چکا ہے، امید ہے بخاری صاحب نے اپنا کام ختم کر لیا ہوگا۔

بمبئی 27 فروری 1947ء

سعادت حسن
ذریعہ:
لذت سنگ سن اشاعت: (1948)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6