جہاز کا پہلا سفر یا آخری؟


ایک شخص کو پہلی مرتبہ جہاز میں سفر کرنے کا موقع ملا۔ اُس نے سُن رکھا تھا کہ جہاز میں بیٹھ کر کھڑکی سے نیچے دیکھیں تو لوگ کیڑے مکوڑوں کی طرح نظر آتے ہیں۔ اور اُس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ ساتھ بیٹھے ہوئے شخص کو کہنے لگا، بھائی صاحب ! لوگ سچ ہی کہتے ہیں، سب لوگ زمین پر مکوڑوں کی طرح ہی نظر آ رہے ہیں۔ وہ شخص پہلے تو کچھ لمحے اُسے دیکھتا رہا، پھر نہایت اطمینان سے اُسے ایک نابینا عورت کا بچہ کہہ کر مُخاطب کیا اور کہنے لگا ، اوئے انّی دیا، ہالے زمین تے کھلوتا اے جہاز، تے تھلے اے اِنسان نئیں مکوڑے ای نے (ابھی جہاز زمین پر کھڑا ہے اور یہ نیچے اِنسان نہیں، مکوڑے ہی ہیں)۔

ہمارے ایک ساتھی زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اُن کی زمینوں پر باقاعدہ مزارعین کام کرتے ہیں۔ اُنھوں نے گاﺅں میں بتایا ہوا ہے کہ وہ کپتان ہیں اور جہاز اُڑاتے ہیں۔ ایک دِن اُن کے گاﺅں کے کچھ لوگ جِن میں غالباً ایک آدھ مزارعہ بھی شامِل تھا، حج فلائیٹ پر تشریف لے آئے۔ وہ تو شُکر ہوا کہ پہلے ہی اُن کی نظر اِن افراد پر پڑ گئی۔ اب یہ چھُپتے پھریں کہ دورانِ پرواز اِن کی خدمت کرنی پڑے گی اور کپتانی کا بھانڈا پھُوٹ جائے گا۔ ہم نے اِس کا حل یہ نکالا کہ اُن کو جہاز کے آخری حصے میں تعینات کروا دیا۔ خیر کب تک چھُپتے، جہاز تھا جنگل تھوڑی، وہ لوگ ایک ساتھی سے پوچھ بیٹھے کہ اِس شخص کی شکل ہمارے چوہدری صاحب سے بہت ملتی ہے جو آپ کی ائیر لائن میں کپتان ہیں۔ وہ ساتھی ساری صورتحال سے واقف تھا۔ اُن کو جہاز کے آخری حصے میں موجود گیلی ( جی ہاں وہی کُلچے اور بریانی پکانے والی جگہ) میں لے آیا اور کہا یہاں اِنتظار کریں ، کپتان چوہدری صاحب آتے ہی ہوں گے۔ پھر چوہدری صاحب کو مطلع کیا کہ آ کر سنبھالو اپنا کاک پٹ۔ چوہدری صاحب تشریف لائے، گرم جوشی سے مُلاقات کی، ایک مزارعے نے پوچھا، سائیں! اے کیا جگہ اے ؟ ( یہ کیا جگہ ہے؟)۔ چوہدری صاحب نے جواب دیا اوئے کملیا، میں اِتھاﺅں تاں جہاز کوں قابو کیتی کھڑاں (او بےوقوف میں اِسی جگہ سے تو جہاز کو کنٹرول کر رہا ہوں)۔ پھر اچانک مزید سوالات کے خوف کے پیشِ نظر چوہدری صاحب نے ایک اوون اور چِلر کا سوئچ آن کیا اور اپنی رعایا کی طرف جعلی رعونت سے دیکھتے ہوئے گویا ہوئے، چلو تُساں جا کہ بہہ ونو، تے میکوں جہاز اڈاون ڈیو (چلو تم لوگ جا کر بیٹھ جاﺅ اور مُجھے جہاز اُڑانے دو)۔ وہ چُپ چاپ اپنی مقرر کردہ نشِستوں پر چلے گئے اور چوہدری صاحب کی عزت کا فالودہ ہونے سے بچ گیا۔

ملتان فوکر کا حادثہ تو سب کو یاد ہو گا۔ اُس جہاز پر میں نے بھی بہت بار سفر کیا ۔ ایک خاتون ساتھی بیان کرتی ہیں کہ پرواز پشاور کی جانب اُڑان بھر چُکی تھی، سب کچھ نارمل تھا۔ ایک خان صاحب نے بُلایا اور کہنے لگے، باجی ! پھنکھا نئیں چلدا؟ (پنکھا نہیں چلتا؟)۔ میں نے اُن کی نشست کے اُوپر لگا ہوا ائیر وینٹ چیک کیا تو وہ ٹھیک کام کر رہا تھا۔ میں نے کہا خان صاحب پنکھا تو چل رہا ہے! خان صاحب نے کھڑکی کا پردہ اُٹھایا اور باہر کی طرف اِشارہ کر کے کہنے لگے، باجی! وہ بار والا پھنکھا نئی چھلتا! (باہر والا پنکھا نہیں چل رہا)۔ کہنے لگیں اب جو باہر دیکھا تو واقعی پنکھا بند تھا۔ آسان لفظوں میں مُشکل بات آپ تک پہنچاﺅں تو یوں سمجھیئے کہ جہاز کا ایک اِنجن بند ہو چُکا تھا۔ بھاگتی ہوئی کپتان تک پہنچی تو پتہ چلا کہ اُن کو بھی خبر ہے اور اللہ کے فضل سے صورتحال قابو میں ہے۔ ہنگامی بُنیادوں پر جہاز ایک اِنجن پر اُتارنا پڑا۔ خدا کا شُکر ہے کوئی نُقصان نہیں ہوا۔

لوگ اکثر پوچھتے ہیں کہ خاور بھائی ! آپ کو ڈر نہیں لگتا؟ دِل تو کرتا ہے کہ وسیم بھائی (وسیم اکرم) کی طرح اُن کو جواب دے دیا کروں، نہیں میں سگریٹ نہیں پیتا، لیکن ایک مرتبہ ڈر لگا تھا۔ ایسا ڈر کہ کلمہ تک پڑھ لیا اور سب کو معاف بھی کر دیا تھا۔ کراچی سے لاہور (بطور مُسافر) آتے ہوئے مُلتان اور بہاولپور کے اوپر مِٹی کے طوفان نے آ لیا۔ اُس طوفانی ہوا نے 251290 کِلو وزنی جہاز کو کِسی جھاڑ کی طرح اُچھال کر رکھ دیا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے ہوا نے کسی چھوٹے بچے کے ہاتھ کی شکل اِختیار کر لی ہے، جو جہاز کو دُم سے پکڑ کر جس رُخ دِل کرتا ہے ، موڑ دیتا ہے۔ جہاز کے اندر اللہ اکبر، کلمہ شہادت، یا خُدا رحم اور گڑگڑانے تک کی آوازیں سُنائی دے رہی تھیں۔ میں جہاں بیٹھا ہوا تھا وہاں آس پاس کوئی نہیں تھا۔ اکیلا بیٹھا سوچ رہا تھا کہ زمین تک پہنچ بھی پاﺅں گا یا فِضا میں ہی کہانی تمام ہے میری۔ بس کیا بتاﺅں، جیسا کہانیوں میں پڑھا اور فِلموں میں دیکھا کہ موت سامنے ہو تو ساری زندگی کے واقعات ایک لمحے میں آنکھوں کے سامنے سے گزرنے لگتے ہیں، ایسی کوئی ڈرامے بازی تو نہیں ہوئی میرے ساتھ البتہ اُس وقت میں نے یہ ضرور سوچا کہ میرا بھائی حسنین ٹھیک کہتا ہے کہ جہاز کے عملے کو ایک ایک پیراشوٹ ضرور مِلنا چاہئے۔ اِتنا دیو قامت اور وزنی جہاز اُس طوفان میں دائیں بائیں ایسے ہچکولے کھا رہا تھا جیسے میلے ٹھیلوں میں بحری قزاقوں کی کشتی نُما جھولا۔ اُس دِن مُجھے حضرت عزرائیل ؑ کا پلان کچھ اور ہی لگ رہا تھا مگر اللہ نے کرم کیا۔ کس طرح کی صورتحال پیش آنے والی ہے؟ اور اُس میں سے اپنے آپ اور دوسرے مُسافروں کو نکالنا کیسے ہے، اِسی سوچ میں غلطاں تھا کہ کپتان کی آواز سُنائی دی کہ ہم طوفان سے نکل آئے ہیں اور جلد لاہور اُتر جائیں گے۔ خُدا کی قسم میں بادشاہ ہوتا تو خوشی کے شادیانے بجواتا، خزانوں کے منہ کھول دیتا، لنگرِ عام چالیس روز تک جاری کرواتا کہ شہر میں کوئی بھوکا نہ رہے۔ خیر، قصہ مُختصر، یوں ہمارا جہاز اِس صورتحال سے کوئی ڈیڑھ سو بندوں کا تراہ نکال کے نکلا۔

خاور جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

خاور جمال

خاور جمال پیشے کے اعتبار سے فضائی میزبان ہیں اور اپنی ائیر لائن کے بارے میں کسی سے بات کرنا پسند نہیں کرتے، کوئی بات کرے تو لڑنے بھڑنے پر تیار ہو جاتے ہیں

khawar-jamal has 40 posts and counting.See all posts by khawar-jamal

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments