ایک خواب جسے ادھورا رہنا چاہیے تھا


یہ بالکل ہی فطری تھا کہ میٹرو کے سفر کے شوق میں راہداری سے چلتے آرہے تھے تو وہاں دیواروں پہ پاکستان کے مختلف کرداروں کی تصویریں آویزاں تھیں۔ ان میں ایک پینٹنگ غلام محمد بھرگڑی کی تھی جہاں ہم لوگ رک گئے تھے۔ یعنی یہ بالکل فطری تھا۔

غلام محمد بھرگڑی کی پینٹنگ کے ساتھ سب لوگ فوٹو بنوا رہے تھے۔ میں ماضی کی کھڑکی سے چپکے سے کئی سال پیچھے چلی گئی۔ سبزہ دھرتی کا حسن ہے گل بوٹے ماحول کو صاف ستھرا رکھتے ہی ہیں پر آنکھوں کو بھی پیارے لگتے ہیں۔ کالج کے گیٹ میں گھستے ہی بائیں جانب درختوں کی لمبی سی قطار اور وسیع لان تھا۔ لان کی باؤنڈری مختلف پھولوں پودوں سے بنائی گئی تھی۔

چھٹی کے وقت ہم لوگ یہیں کسی درخت کے نیچے کھڑے ہوکر سارے دن کی جمع کی ہوئی باتیں کرتے رہتے جب تک متعلقہ سواری لینے نہ پہنچتی۔ ایک لڑکی نے بتایا کہ اس نے اپنی بہن کے ساتھ کار میں جانا چھوڑ دیا ہے کہ کار جلدی لینے آجاتی تھی۔ اس نے تانگہ لگوایا تھا جو کچھ کہ دیر میں ہی آ تا تب تک جی بھر کے کچہری کرسکتی تھی۔ درختوں کے نیچے بحث و مباحثے جو انتہائی عاقلانہ ہوتے چلتے ہی رہتے۔

باتیں کرتے ایک سائنس اسٹوڈینٹ نے دل کی بات کی اور دل کی طرف اشارے کے لئے اپنے دائیں ہاتھ کو سینے پر دائیں طرف ہی رکھا تھا۔ بس پھر لڑکیاں ہنسنے لگیں تھیں۔ ہنسی کے پھوارے پھوٹے پڑتے تھے۔ کسی نے اسے یاد دلایا کہ دل نامراد تو بائیں جانب ہے وہیں ہاتھ رکھو۔

آتے ہوئے میں کچھ پھول توڑ کر اپنی جیب میں رکھ لیتی تھی۔ یہ پھول جانی کے لئے ہوتے تھے۔ جانی میرا تین سال کا بھتیجا گھر پہ ہمارے انتظار میں ہوتا۔ جانی کا نام غلام محمد رکھا گیا تھا جو پاکستان کے بانیان میں سے ایک تھے۔ جانی ابھی پورا تین سال کا نہیں تھا پر اتنا ذہین تھا کہ ہمارے کالج سے چھٹی کے وقت کو بھانپ لیا تھا، اپنی امی سے کہتا کہ مجھے کھڑکی میں کھڑا کرو کہ وہ ابھی آتی ہوں گی۔

ہم لوگ تانگے میں اور لڑکیوں کے ساتھ آتے جاتے تھے۔ وہ دور سے ہمارا تانگہ آتے دیکھتا تو خوش ہوتا تالیاں بجاتا۔ میں اور مجھ سے بڑی بہن دونوں ہی ایک ہی کالج میں پڑھ رہے تھے کہ شہر میں لڑکیوں کا واحد یہی کالج تھا۔ وہاں پہنچ کر ہم میں سے کوئی اسے کھڑکی سے نیچے اتارتا جہاں اس کی اماں نے اسے کھڑا کردیا تھا۔ ہم جلد از جلد کپڑے بدلنا چاہتے پر جانی کی ہمیشہ یہی ضد ہوتی کہ آپ کے شوز میں اتاروں گا۔ ہمارے روم میں دو ہی کرسیاں تھیں۔

ہم دونوں مجبوراً وہاں بیٹھ جاتے۔ جانی بہت ہی مشکل سے دیر کرکے ایک ایک شوز کے تسمے کھولتا۔ وہ اس وقت ہماری مدد کبھی قبول نہیں کرتا تھا۔ بڑی ہی جانفشانی سے شوز اتارنے کے بعد ہماری بدبو دار جرابیں اتارتا اتنے ہی بدبو والے پاؤں کو چومتا۔

ہم لوگ جانی کی اس ادا پر تو فدا ہوئے جاتے تھے۔ اس کو پکڑ کر بھینچ کے بیشمار چمیاں دے ڈالتی ساتھ ہی جیب سے پھول نکال کے اس کو تھما دیتی۔ کچھ دیر تو پھولوں کو اٹھائے رکھتا پھر یہ کہیں مسلے ہوئے پڑے دکھائی دیتے۔ جانی تین سال کا ہونے جارہا تھا اس کو چودہ اگست کی سمجھ آتی تھی یا نہیں پر ہری جھنڈیوں۔ جس پر پاکستان کا جھنڈا بنا ہوتا اس کی فرمائش پر ہی منگوائی گئی تھیں۔ جو ہم پھوپھیوں نے مل کر سارے آنگن میں نمائشی انداز میں لگا لی تھیں۔ ابو سے بڑے جھنڈے کی فرمائش کردی تو وہ بھی ایک بڑاسا جھنڈا لے کے آئے جو ہمارے گھر پر اس طرح لگایا گیا کہ جانی اس کو دیکھ سکے۔

یہ اس زمانے کی بات ہے جب وی سی آر کلچر عروج پر تھا۔ امیتابھ بچن وغیرہ سب لوگوں کے پسندیدہ فنکار تھے۔ جیسا کہ یہ فلمیں جانی بھی دیکھتا تو وہ انہی فلموں کے گانے بھی گایا کرتا۔ اپنے باپ کی گاڑی کی چابی اٹھا کے نخرے سے گاتا۔ سن سجنا سن میری چابی کی چھن۔ ایسی حرکتوں پر تو ہم لوگ جانی پر نچھاور ہوئے جاتے تھے۔

جانی کی پیدائش سے پہلے میری دو بھتیجیاں ہوئی تھیں۔ اب کے امید ٹھہری تو میں نے خواب دیکھا کہ بھائی کو لڑکا ہوا ہے جس کے پیٹ کے دائیں جانب کتھئی سا نشان بنا ہوا ہے پھر تو باقی خواب میری سمجھ سے بالا تر تھا کہ ایک ٹرک اور اس کے قریب خون کا دھبہ تھا۔

میں نے خواب کا پہلا حصہ اپنی بھابھی کو سنایا۔ وہ بہت ہی خوش ہوئی کہ بھائی بھابھی کے علاوہ سب گھر والے ہی یہی چاہتے تھے کہ اب کے لڑکا ہی پیدا ہونا چاہیے جانی پیدا ہوچکا تھا۔ ہم لوگ ہسپتال پہنچے تو بھا بھی نے مسکرا کے کہا تمہارا خواب تو بالکل ہی سچا نکلا بچے کے پیٹ کے دائیں جانب ایک نشان سا بنا ہوا ہے۔

میں تو خواب کو بھول بھال ہی گئی تھی پر بھابھی نے یاد رکھا ہوا تھا۔ اس طرح سندھ کے بڑے لیڈر رئیس غلام محمد بھرگڑی کا نام بچے پر رکھا گیا جو میرے بابا نے رکھا تھا۔ پر گھر میں بچے کا کوئی نہ کوئی ہلکا پھلکا نام بھی ہوتا ہے جو بھا بھی نے جانی رکھ دیا۔ جانی بہت خوبصورت تھا بہت ہی جلد بولنا سیکھ گیا تھا۔ سب سے بڑی بات اس کا پیار تھا جو ہر ایک کے ساتھ ہی بے انتہا تھا۔ اس طرح رفتہ رفتہ جانی سب کے دلوں کا سرور اور آنکھوں کا نور ہوچلا۔ ایک دفعہ ہم کالج سے گھر پہنچے تو جانی حسب دستور کھڑکی میں ہی کھڑا تھا جسے ہم میں سے کسی نے نیچے اتارا حسب معمول اس نے ہمارے شوز اتارے بدبو والے پیروں کو چوما۔ جب میں کپڑے بدلنے لگی تو جانی دروازے پر دستک دیے جا رہا تھا۔

معلوم کیا کہ کیا بات ہے جانی جواب آیا آنٹی دروازہ کھولو ٹافی لو۔ میں جب تک دروازہ کھولتی اس نے ہمارے پرانے طرز کے دروازے کے نیچے والی جگہ سے کچھ ٹافیاں کھسکادیں۔

کایج سے آجاتے تو وہ پھر مستقل ہمارے پیچھے ہی پھرتا رہتا۔ کھانا کھاتے ہی سامنے تایا کے گھر سے اطلاع آئی کہ ہماری کزنز گاؤں سے پہنچی ہوئی ہیں وی سی آر منگوا لیا ہے اچھی فلم چل رہی ہے جلد پہنچوں۔ جانی باری باری ہم دونوں کے پیچھے پھر رہا تھا۔ جانی کے سونے کا وقت ہو چلا تھا اس کو ساتھ لے جانا کسی طرح مناسب نہیں تھا۔

ہم نے کسی طرح جانی کو دھوکا دیا اور خاموشی سے نکل آئیں پیچھے بھا بھی نے گھر کا دروازہ بند کیا اور بچوں کو سلانے لگیں۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے کے بعد فلم دیکھتے ہوئے مجھے نیند آ گئی میں سوگئی گرمیوں کی دوپہر میں ویسے بھی کالج سے واپسی پر کھانا کھاکر سوجایا کرتے تھے۔ گہیری نیند سے مجھے لگا کسی نے مجھے کھینچ کے اٹھا دیا ہے۔ فلم چل رہی تھی سب لوگ فلم میں مگن تھے میں بغیر دوپٹے اور چپل کے بھاگتی ہوئی دروازے پر پہنچی تھی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا یہ سب کیا ہوا تھا۔ جیسے ہی میں دروازے پر پہنچی تو ہماری پڑوسن خالہ تیزی سے اندر داخل ہوئیں اور بتایا کہ جانی کا ایکسیڈینٹ ہوگیا ہے اس کو ٹرک کا پچھلا وہیل سر میں لگا تھا۔

پھر کیا تھا کسی پر سکتہ طار ی ہوگیا تو کوئی چیخنے لگا تھا۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ بھابھی نے بچوں کو سلادیا تھا۔ خود بھی سوگئیں تھیں پر بچے نہیں سوئے تھے اپنی امی سے چھپ کر ہماری طرف آرہے تھے۔ دروازے کا لاک نیچے تھا جو انہوں نے کوشش کرکے کھول لیا تھا۔ ہمارے اور تایا کہ گھر کے بیچ ایک سڑک تھی جہاں ہر وقت ٹریفک رہتی تھی۔ جب بچے سڑک پار کر رہے تھے تو اسی وقت ایک ٹرک بھی وہاں سے گزررہا تھا۔ پھر وہی کچھ ہوا جو ہم نے سنا کہ بچیاں تو بھاگ کے دور ہوگئی تھیں پر جانی کو سر میں پچھلا وہیل اتنی زور سے لگا تھا کہ وہیں پر ہی وہ ختم ہوگیا۔

غلام محمد عرف جانی جاتے جاتے گھر کی ساری خوشیاں بھی لے گیا۔ جہاں ہروقت ہنسی مذاق قہقہے گونجتے تھے وہاں اب کربلا کا سا سماں تھا ہم سنی تھے پر اب ماتم کررہے تھے۔ میر ے پاس تو لفظ ہی نہیں جو ہماری کیفیت کو بیان کرسکیں۔ ایک قیامت آچکی تھی۔ عذاب ایسا کہ ختم ہونے میں نہ آتا تھا۔ سورج پہ جو گیس آگ کے طوفان بناتی ہے ویسی ہی کیفیت ہمارے سینوں میں دھڑکتے دلوں کی تھی۔ کالج سے آتے جاتے ہوئے سڑک پر جانی کے خون کا دھبہ کئی دنوں تک دیکھتے اور روتے رہتے تھے۔

اب سب لوگوں نے رئیس غلام محمد بھرگڑی کی پینٹنگ کے ساتھ فوٹو بنوا لئے تھے اس لئے میٹرو کے سفر کے لئے آگے بڑھ گئے۔ میں وہاں رکی رہی۔ مجھے خیال آیا کہ اگر وہ خواب ادھورا رہتا تو کتنا اچھا ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).