چین کے صوبہ سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں کے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں


برما میں مسلمان اقلیت روہنگیا کے خلاف ریاستی بربریت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی المناک صورتحال پر مسلم دنیا میں عوامی اور حکومتی سطح پر بھرپور احتجاج ہوا، تاہم برما کے ایک چھوٹے ملک ہونے کے باوجود مسلمان ممالک کا احتجاج موثر اور عملی اقدام کی شکل اختیار نہ کرسکا۔

چین کی شمال مغربی ریاست سنکیانگ میں آباد مسلم قومیت ایغور کا بھی روہنگیا مسلمانوں کی طرح استحصال کیا جارہا ہے، تاہم اس معاملہ پر مسلم دنیا کا میڈیا اور حکومتیں بالکل خاموش ہے۔ ایغور مسلمانوں کی اکثریت مشرقی ترکستان (سنکیانگ) میں آباد ہیں، یہ بنیادی طور پر ترک ہےں اور صدیوں سے اس خطہ میں آباد ہے۔ مشرقی ترکستان (سنکیانگ) کا رقعہ 16لاکھ کلومیٹر مربع ہے، یہاں کی زمین معدنی ذخائر سے مالامال ہے، سنکیانگ میں چالیس نہریں، 12دریا اور تین پہاڑی سلسلہ واقع ہے، جغرافیائی طور پر سنکیانگ کی پاکستان اور ہندوستان سمیت 8ممالک سے سرحد ملتی ہے۔

ایغور مسلمان مشرقی ترکستان کے روایتی حاکم ہیں، تاہم چین کے بڑھتے ہوئے نفوذ اور طاقت کی وجہ سے مشرقی ترکستان چین کے زیر تصرف ہوگیا۔ ایغور مسلمانوں نے چینی تسلط کے خلاف ایک سے زائد مرتبہ بغاوت کی، 1933 میں مسلمانوں نے باقاعدہ ایک علیحدہ آزادریاست قائم کی، جس کا علیحدہ دستور تھا اور خواجہ نیاز اس کے پہلے صدر تھے، تاہم کچھ ہی عرصہ بعد چینی حکومت نے جمہوریہ مشرقی ترکستان پر قبضہ کرلیا اور تاریخی روایات کے مطابق تمام حکومتی ارکان سمیت 10 ہزار مسلمانوں کو شہید کیا۔ 1949 میں سنکیانگ باقاعدہ طور پر چین میں شامل ہوگیا، چند سالوں بعد چینی حکومت نے سنکیانگ یعنی مشرقی ترکستان کو خود مختار ریاست کا درجہ دیں دیا، تاہم یہ خود مختاری محدود درجہ کی تھی، سنکیانگ پر چینی حکومت کا ہی کنٹرول رہا۔

اقوام متحدہ نے گزشتہ دنوں سنکیانگ میں وسیع وعریض رقبوں پر پھیلے تربیتی کیمپوں کی موجودگی اور اس میں موجود 10لاکھ سے زائد مسلمانوں کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کیا، اس کے ساتھ ہی عالمی جرائد و اخبارات نے سنکیانگ میں آباد مسلم اقلیت ایغور کے حالات معلوم کیے اور چینی حکومت کے رویہ پر تحقیق کی جس میں ہوشربا انکشافات سامنے آئیں۔

برطانوی نشریاتی ادارہ (بی بی سی) کی رپورٹ کے مطابق اپریل 2017میں منظور شدہ قوانین کے مطابق سنکیانگ میں عوامی مقامات (ہوائی اڈے، ٹرین اسٹیشن وغیرہ ) پر کام کرنے والے ملازمین مکمل لباس پہننے والی خواتین اور داڑھی والے مردوں کو سفر سے روکنے کے پابند ہوں گے۔ رپورٹس کے مطابق چینی حکومت کی جانب سے سنکیانگ میں مختلف مساجد ڈھادی گئی ہے اور بعض اسلامی ناموں پر بھی پابندی ہے۔

امریکی جریدے بزنس انسائیڈر کے آسٹریلوی شمارے کے مطابق ایغور مسلمانوں کی سخت نگرانی کی جاتی ہے، ہر جگہ پر سکیورٹی کیمرے نصب ہے۔ ناکوں اور محلوں میں تعینات سکیورٹی اہلکاروں کی بھاری نفری مقامی آبادی سے ہر قسم کی تفتیش کرنے کی مجاز ہے۔ ہرایغور مسلمان کی انگلیوں کے نشانات، آنکھوں اور چہروں کی علامات اور حتی کہ چلنے کے انداز اور خون کے نمونوںDNA سے شناخت کی جاتی ہے۔ مسلمان اپنے موبائیل و دیگر ذاتی آلات تفتیش کے لیے پیش کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

عالمی ادارہ انسانی حقوق (HRW) نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ چینی حکومت نے 200 سرکاری افسران کو ایغور مسلمانوں کے گھر جانے اور ان کے ساتھ وقت گزارنے کے مشن کے لیے مخصوص کیا ہے۔ چینی حکام مسلم گھرانوں کے ساتھ ایک دن یا اس سے زیادہ وقت گزارتے ہیں، اس دوران وہ گھریلو سرگرمیوں اور باہمی بات چیت میں شامل ہوکر گھروالوں کی سیاسی سوچ کا اندازہ لگاتے ہیں اور اس کے متعلق رپورٹ ترتیب دیتے ہیں۔ ایغورمسلمان چینی حکام کا دو ماہ میں پانچ مرتبہ استقبال کرنے اور ان کو تمام ذاتی معلومات دینے کے پابند ہوتے ہیں۔

برطانوی جریدے انڈیپنڈنٹ نے چینی حکومت کے ایغور مسلمانوں کے خلاف سلوک کو نسل کشی سے تعبیر کیا، جریدے نے چینی ریاستی جبر کو ایغور مسلمانوں کی ثقافت اور مذہب ختم کرنے کی کوشش قرار دیا۔ جریدے نے طرناک انکشاف کیا کہ چینی حکام مسلمانوں کو خنزیر کا گوشت کھانے اور شراب پینے پر مجبور کرتے ہیں! جریدے کا مزید کہنا تھا کہ مسلمانوں کو مرنے کے بعد بھی ان کے حقوق نہیں دیے جاتے، چنانچہ چینی حکومت تدفین کے مراسم سے دور رہنے کے لیے لاشوں کو جلادیتی ہے۔

چینی حکومت کا ظلم صرف چین تک محدود نہیں بلکہ چین سے باہر رہنے والے ایغور مسلمانوں کا بھی تعاقب کیا جاتا ہے، 2015 میں مصر کی حکومت نے جامعہ الازہر میں زیر تعلیم ایغور طلبا کو چینی حکومت کے حوالہ کیا۔ عالمی میڈیا کے مطابق چین ایغور مسلمانوں کے خلاف غیر انسانی اقدامات کو جائز قرار دلوانے کے لیے اقوام متحدہ اور سکیورٹی کونسل میں اپنے نفوذ کا استعمال کرتا ہے۔

چینی حکومت کا یہ جبر ”تربیتی کیمپوں ”سے باہر کی کہانی ہے، کیمپوں کے اندر الگ ہی دنیا آباد ہے۔ سنکیانگ میں قیام پذیر اگر کوئی ایغور مسلمان غیر ملکی ویب سائٹ دیکھتا ہے، چین سے باہر رہنے والے اپنے رشتہ داروں سے بات کرتا ہے، اسلامی شعائر کی پابندی کرتا ہے، یا صرف جمعہ کی نماز میں پابندی سے شریک ہوتا ہے تو ان میں سے کوئی بھی فعل جرم تصور کیا جاتا ہے اور اس جرم کے مرتکب کو تربیتی کیمپ میں گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ عالمی جرائد سے بات کرتے ہوئے کیمپ سے رہا ہونے والے مسلمانوں نے بتایا کہ کیمپ میں کھانا کمیونسٹ پارٹی کے نغمہ گانے اور چینی صدر کے حق میں نعرے لگانے کے عوض ملتا ہے، انکار کی صورت میں سخت سزا دی جاتی ہے۔ کیمپ میں گرفتار مسلمانوں پر شدید ذہنی دباؤ ڈالا جاتا ہے، ان کو اپنی ذات کی نفی کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، اور بالکل ایک روبوٹ کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے حتی کہ وہ واقعی روبوٹ کی مانند ہوجاتا ہے۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے مطابق ان کیمپوں میں 10 لاکھ مسلمان گرفتار ہیں، اور یہ پابندیاں صرف ایغور قومیت مسلمانوں کے اوپر ہیں، دیگر قومیتوں کے مسلمانوں کو مذہبی شعائر ادا کرنے کی آزادی ہے۔

چینی حکومت کی اس ریاستی دہشت گردی پر مسلم دنیا بالکل خاموش ہے، دس سال قبل سنکیانگ میں ہونے والے فسادات پر ملائیشیا نے چینی حکومت کے رویہ کی مذمت کی تھی اور ترکی نے ایغور مہاجرین کے لیے اپنے دروازے کھول دیے تھے، تاہم حالیہ واقعات پر کسی اسلامی ملک کی جانب سے کوئی رد عمل نہیں آیا۔ معروف جریدہ بلومبیرگ نے ترکی، سعودی عرب، پاکستان، ملایشیا اور ایران سمیت متعدد اسلامی ممالک سے رابطہ کیا لیکن کسی ملک نے مذمت تو دور کی بات تبصرہ کرنا بھی پسند نہیں کیا۔

برما، فلسطین، شام اور دیگر ممالک میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم سے احساس ہوتا ہے کہ مسلمان انتقام لینے سے عاجز ہے، صرف زبانی کلامی مذمتوں اور بیانات تک محدود ہے، لیکن چینی حکومت کے جبر وظلم کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے ایغور مسلمانوں کا کوئی ترجمان بھی نہیں جو ان کے حق میں صرف آواز ہی اٹھائے۔ حکومتوں سے قبل اہل فکر ودانش کی ذمہ داری ہے کہ اس معاملہ کی نشاندہی کریں، کیا بعید کہ ہمارے شور سے اس محیط میں تلاطم پیدا ہوجائے جس کی گہرائی سے پاک چین دوستی موسوم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).