لڑکو پہلے روٹی بنانا سیکھ لو پھر گھر بسانا


میرے بچوں نے آنکھ کھولی تو مجھے جاب کرتے ہی دیکھا۔ دو سال کے ہوئے تو انہیں اسکول میں داخل کرا دیا۔ پیمپر کا بھی عادی نہیں بنا یا تھا۔ لیکن ضرورت محسوس ہونے پر خود ہی باتھ روم چلے جاتے تھے، اس لیے اسکول والوں کو اس حوالے سے بھی کبھی پریشانی نہیں ہوئی۔ جاب کرنے والی خواتین کے بچے وقت سے پہلے سمجھدار ہو جا تے ہیں۔ اگر کبھی مجھے رات کے وقت کہیں ضروری نکلنا ہوتا تو بچوں سے صرف اتنا کہتی کہ اسکول جا رہی ہوں پھر وہ میرے ساتھ چلنے کی ضد نہیں کرتے تھے۔

میاں کے آرام، بچوں کی زندگی میں کبھی میری جاب کی وجہ سے کو ئی دقت پیش آئی اورنہ ان کی تعلیم میں کبھی حرج ہوا۔ اب دونوں بڑے بیٹے ماشا اللہ بر سرِ روز گار ہیں، دونوں اپنے دل کی دنیا بسائے ہوئے ہیں۔ اب گھر بھی بسنے ہی کو ہے۔

میرے بیٹوں کی یہ ہی خواہش رہی کہ ان کی زندگی کی ساتھی بھی کی ماں کی طرح ورکنگ ہو، اور یہ ہی ہوا۔ میری ہونے والی ایک بہو میڈیکل کے دوسرے سال میں اور ایک سائکالوجی میں ایم ایس سی کے بعد اپنا کلینک کھولنے کا ارداہ رکھتی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ میری ہونے والی بہوؤں میں وہی صلاحیت اور آگے بڑھنے کی لگن ہے جو اگر میری بیٹیاں ہوتیں تو میں ان میں دیکھنا چاہتی۔

لیکن اب مرحلہ ہے بیٹوں کی تربیت کا۔ مائیں اپنے بچوں کے لیے بہت سی تکالیف اٹھاتی ہیں۔ محبت کے گھیرے میں خود کو یوں جکڑ لیتی ہیں کہ تھکن اور تکلیف کا احساس ہی نہیں ہو تا۔ بیٹے نکمے، بد لحاظ یا نافرمان ہوں تب بھی وہ ان سے بدگمان ہو تی ہے نہ انہیں چھوڑ کر جاتی ہے۔ لیکن میاں بیوی کا رشتہ برابری کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔

اگر مرد اپنی بیوی کا خیال رکھے اس کی عزت کرے تب ہی جواب میں اسے محبت اور عزت ملتی ہے ورنہ مصلحت اور مجبوری میں دکھا وے کی محبت اور احترام کا ڈھونگ کرتے عورت قبر میں جا لیٹتی ہے۔ اور شوہر کو گمان بھی نہیں گزرتا کہ اس کی حیثیت بچوں کے باپ، معاشی ضرورت پوری کرنے والے مرد اور گیٹ پر بیٹھے ہر اجنبی پر بھونکنے والے کتے سے زیادہ نہیں۔

دنیا بھر میں جہاں جہاں خواتین نے اپنے شوہروں کے ساتھ مصلحتاً پوری عمر گزار دی، وہاں مرد کو ایک لمحے کے لیے بھی یہ احساس نہ ہوا کہ یہ عورت اس جو اس کی بیوی ہے۔ اس گھر میں صرف اس کی غیر موجودگی ہی میں سکون اور خوشی سے ہمکنار ہوتی ہے۔ میری خواہش ہے کہ میری بہوئیں تا عمر میرے بیٹوں کے ساتھ خوش رہیں وہ ان کے ساتھ کسی مصلحت، مجبوری یا زمانے کے خوف سے نہیں بلکہ دل سے زندگی کا ہر لمحہ ان کے ساتھ گزاریں۔

میں نے اپنے بیٹوں سے کہا تم لوگوں کو انڈا، چائے بنانا، اپنے کپڑوں پر استری کرنا اور سالن گرم کرنا تو آگیا ہے لیکن اب میں تم لوگوں کو روٹی بنانا بھی سکھاؤں گی تاکہ بوقِتِ ضرورت اپنے لیے ہی نہیں اپنی بیوی کے لیے بھی روٹی بنا سکو۔

میرے بڑے اور سب سے چھوٹے بیٹے نے تو خوشی خوشی سر ہلا دیا۔ لیکن منجھلے کے چہرے پر صاف لکھا تھا کہ یہ ہمارا کام نہیں۔ لیکن اب وقت آگیا ہے، کہ اسے باور کرایا جائے کہ خواتین میں آگہی کی جو لہر آئی ہے اس میں گھر بچانے کی زیادہ ذمہ داری مرد پر آن پڑی ہے۔ وہ وقت دور نہیں جہاں مرد اور عورت برابری کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزاریں گے، گھر بسانا ہے تو، گھر بچانا ہے تو روٹی بنانا تو سیکھنا ہی ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).