عمران کے راج میں کافر کافر کیوں ہو رہی ہے؟


ابھی عمران خان کی حکومت آئے کوئی چار دن ہی ہوئے ہیں لیکن یار لوگوں نے سیاپا کچھ زیادہ ہی ڈال دیا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ خان صاحب دفتر ہیلی کاپٹر پر بیٹھ کر کیوں جاتے ہیں، کسی کو یہ تکلیف ہے کہ یہ دفتر جا کر چائے کے ساتھ بسکٹ کتنے کھاتے ہیں، کوئی کہتا ہے کہ خان صاحب نے جو ٹیم بنائی ہے وہ بہت تھکی ہوئی ہے، ان سے کچھ نہیں ہونا۔

خان صاحب خود بھی فرماتے تھے کہ مجھے کوئی دوسرا کام آئے نہ آئے مجھے ٹیم بنانی آتی ہے۔ اگر میں حکومت میں آیا تو اس طرح کی ٹیم بناؤں گا جس طرح کی ٹیم بنا کر میں ورلڈ کپ جیتا تھا۔

ایک دن جلسے میں اعلان کر دیا کہ امریکہ میں ایک پاکستانی لڑکا ہے، ساری دنیا اسے بہت جانا مانا اکانومسٹ مانتی ہے، تو میں اسے واپس بلا کر اپنا وزیر خزانہ بناؤں گا۔ لڑکے کا نام تھا عاطف میاں۔ پاکستان میں کسی نے اس کا نام ہی نہیں تھا سنا۔

خان صاحب تقریر کر رہے تھے تو کسی نے ان کے کان میں اس کا نام بولا تو خان صاحب نے بھی تقریر میں بول ڈالا۔ اگلے دن کسی بھائی نے جا کر خان صاحب کو بتایا کہ بھئی وہ لڑکا تو مرزئی ہے۔

اب چالیس برس ہو چکے ہیں کہ ہم احمدیوں کو کافر قرار دے چکے ہیں۔ انہیں سیدھا رکھنے کے لئے، ان کا مکو ٹھپنے کے لئے، اور بھی بہت قانون موجود ہیں۔ احمدیوں کو یہ بھی پسند نہیں کہ کوئی ان کو مرزئی یا قادیانی کہے۔ لیکن خان صاحب کو بات فوراً سمجھ آ گئی۔

انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں پتہ تھا کہ لڑکا کافر ہے۔ اسے بالکل نہیں بنانا۔ ہمارے پاس ایک اور لڑکا ہے، اسد عمر۔ مسلمان بھی ہے، اینگرو کا ہیڈ بھی رہا ہے، باپ بھی جرنیل تھا، اسے بنا دیں گے۔

خان صاحب کی حکومت آ گئی۔ انہوں نے خزانے کی کنجیاں اسد عمر صاحب کو پکڑا دیں۔ انہوں نے خزانہ کھولا تو پتہ لگا کہ میاں یہ تو خالی ہے۔ انہوں نے سیانوں کی ایک منڈلی بنائی، کوئی نوکری نہیں دی، کوئی عہدہ نہیں دیا، بس ایسے ہی کہ کوئی صلاح مشورہ دے دیا کرو کہ ہم پیسہ کہاں سے لے کر آئیں۔

اب اس ٹیم میں بھی عاطف میاں کا نام ڈال دیا۔ ایک بار پھر رولا پڑ گیا۔ حکومت ڈٹ گئی، پر کوئی چوبیس گھنٹے کے واسطے۔ عمران خان نے اپنا ایک ترجمان رکھا فواد چوہدری، وہ گرجا ”ہم مدینے کی ریاست بنانے آئے ہیں، اور مدینے کی ریاست میں مائنارٹیز کو تو سارے حقوق حاصل ہوتے تھے، تو اب ہم کیا کریں، مائنارٹیز کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیں؟ “

پھر کچھ مولویوں نے للکارا، کچھ خان صاحب کے اپنے آدمیوں نے کافر کافر کا رولا ڈالا، تو خان صاحب کو لگا کہ سمندر میں پھِینکنے والا آئیڈیا کوئی اتنا برا نہیں۔ عاطف میاں کو کہا گیا کہ جا کاکا تیری کوئی ضرورت نہیں۔

مسلمانوں پر ایک الزام ہمیشہ سے لگتا رہا ہے کہ بھئی ہم عربی فارسی اچھی بول لیتے ہیں، ہمارے سے غزلیں لکھوا لو، مرثیے پڑھوا لو، ہمارے سے یہ مت پوچھو کہ جی ڈی پی کیا ہوتا ہے۔

پرانے مسلمان بادشاہوں نے بھی اپنے خزانے کے حساب کتاب کے لئے کبھی کوئی یہودی کبھِی کوئی ہندو رکھا ہوتا تھا۔ حکم یہ تھا کہ ہمارے بہی کھاتے تم سنبھالو، ہم کوٹھے پر جا کر بائی جی سے ذرا تہذیب سیکھ آئیں۔

ہماری مدینے والی ریاست نے عاطف میاں کو تو کافر کہہ کر گھر بھیج دیا لیکن ہمارے سعودی عرب کے بھائیوں نے اپنی مکے والی ریاست میں اسے بلا کر اسے خوب عزت دی۔ میاں نے بھی کوئی حسابی کتابی باتیں کیں۔ انہوں نے صلاح مشورہ کر کے منہ چوما اور واپس گھر بھیج دیا۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ خان صاحب سعودی عرب کے شہزادے تو ہیں کوئی نہیں، پاکستان کے شہزادے ہیں جہاں بادشاہ عوام ہے۔ اب عوام ہی نہیں چاہتے تو خان صاحب کیا کریں۔

ہمارا خزانہ چاہے خالی ہو لیکن ہمارے دلوں میں ایمان ضرور بھرا ہوا ہے۔ پچھلے چالیس برسوں میں دماغ میں بھی مذہب کی اتنی برکت ہوئی ہے کہ اب کسی اور شے کی جگہ بچی بھی کوئی نہیں۔

جن لڑکوں کو ابھی اپنے بوٹوں کے تسمے بھی باندھنے نہیں آتے، وہ بھی اپنے آپ کو امیر الشریعت سمجھتے ہیں۔ میں بھی یہیں کا جم پل ہوں اور میں بھی کوئی آدھا مولوی ہو چکا ہوں۔ ایک پرانے مولوی صاحب سے واقعہ سنا تھا آپ بھی سن لیں۔

حضرت موسیٰ کو ایک مسافر ملا اور کہنے لگا کہ بھوک لگی ہے۔ حضرت موسیٰ نے کہا کہ آؤ بیٹھ جاؤ روٹی کھاؤ۔ روٹی کھانے لگا تو حضرت موسیٰ نے کہا کہ پہلے اللہ کا نام تو لے لو۔ مسافر نے کہا کہ میں تو اللہ کو مانتا ہی نہیں۔ حضرت موسیٰ نے کہا کہ اوئے کافر تیرے لئے کوئی روٹی نہیں، چل دفعان ہو جا۔

اللہ میاں حضرت موسیٰ سے ڈائریکٹ ہو گئے اور فرمایا کہ تیرے خیال میں اس بھوکے مسافر کی عمر کتنی ہو گی؟ حضرت موسیٰ نے کہا کہ کوئی پچاس کے قریب تو ہو گا۔ اللہ میاں نے فرمایا کہ بھئی یہ بندہ مجھے نہیں مانتا، پھر بھی میں اسے پچاس برس سے رزق دیتا آ رہا ہوں، تو تجھے ایک وقت کی روٹی کھلانی پڑ گئی ہے تو اتنی تکلیف؟ اتنا آیا تو میرا ٹھیکیدار۔

حضرت موسیٰ کو بات سمجھ آ گئی۔ دعا کرو کہ ہمیں بھی سمجھ آ جائے۔ اللہ ہمارے دلوں میں رحم ڈالے۔ خدا حافظ۔
بی بی سی پنجابی کے ویڈیو بلاگ سے۔ ترجمہ ہم سب۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).