لیڈی ڈاکٹر پر مجرمانہ حملہ اور ہماری کریہہ معاشرتی سوچ


چار دن کی نو مولود بچی، چھے ماہ کی عائشہ، چند سال کہ زینب و عاصمہ، سپین سے آئی سیاح، ایک جواں سال یونیورسٹی کی طالبہ، ایک مدرسے میں مولوی صاحب سے تفسیر قرآن پڑھتی حافظہ قرآن، ایک ادھیڑ عمر مزدور عورت اور اسی سالہ بوڑھی ہڈیوں والی ناتواں اماں جی، ایک ماڈل گرل اور ڈیوٹی پہ موجود یہ ڈاکٹر ہماری اس بات کا ثبوت ہیں اور ہماری بے حسی کی سر بریدہ لاش پر بین کر رہی ہیں۔

روز ہم ایسا کوئی واقعہ سنتے ہیں۔ مگراس سب کے باوجود قصور کس کا نکلتا ہے؟ اور مورد الزام کون ٹھہرتا ہے؟ عورت! اور مرد کو یہ کہہ کر دودھ سے مکھی کی طرح نکال دیا جاتا ہے کہ عورت خود ہی دعوت نظارہ دے رہی تھی (مطلب اس معصوم مرد نما جنسی حیوان کا کیا قصور؟ اس بیچارے کی جنسی بتی تو عورت نے خود ہی جلا دی تھی) مرتا کیا نہ کرتا۔ کوئی مجھے بتائے گا کہ یہ ڈاکٹر کون سی بے حیائی کر رہی تھی اور کون سی دعوت نظارہ دے رہی رہی تھی؟ وہ تو پچھلے چھتیس گھنٹے سے ڈیوٹی پر تھی۔

اور یہ جو اس حوالے سے پردے کے احکام سناتے ہیں کہ عورت پردہ کرتی تو بچ جاتی وہ اس آیت کا اوپر والا حصہ کیوں گول کر جاتے ہیں؟ جس میں مرد کا پردہ اس کی نگاہ کو جھکا کر رکھنا ہے۔ اور پردے کے احکام دونوں (مرد اور عورت) کے لئے برابر ہیں۔ آپ عورت کو الزام دے کر خود اس سے چھوٹ کیسے سکتے ہیں۔ بھائیو اگلی پردہ نہیں کر رہی تو تم بھی تو نہیں کر رہے۔ مگر یہ سب تو بہانے ہیں۔ جیسا کہ اوپر کہ مثالوں سے واضع ہے۔ سچ یہ ہے کہ ہمارے اندر شیطان بس چکا ہے اور اس کو چھپانے کے سو بہانے ہم تراش لیتے ہیں۔

ہم یہ کیوں نہیں مان لیتے ہے کہ ہمیں عورت میں ایک ہی اٹریکشن محسوس ہوتی ہے۔ اور عورت کی تخلیق کا واحد مقصد ہمیں ایک ہی نظر آتا ہے۔ مگر ہم نے الزام عورت کو ہی دینا ہوتا ہے کسی نہ کسی طرح۔ مجھے ڈر ہے کہ کسی دن ہم عورت کو اپنے ہی گھر میں بھی کسی مرتبان میں نہ رہنے کا مشورہ نہ دے ڈالیں۔ جس سے وہ باہر نکلے گی تو اس کا ریپ ہو جائے گا اور جس کی ذمہ دار بھی وہ خود ہوگی۔

چونکہ اس معاشرے کے مرد عورتیں نہیں ہیں ناں تو کیسے سمجھیں گے عورت کے مسائل۔ اسی لیے میں قسم اٹھا کر کہتی ہوں اگر مجھے کبھی اس دنیا میں دوبارہ آنے کا چانس دے کر مجھ سے میری مرضی پوچھی جائے تو میں مردوں کہ اس معاشرے میں پیدا ہونے سے انکار کر دوں گی۔ یا اپنے رب سے کہوں گی مجھے عورت نہ بنائے بلکہ کسی بھی عورت کو عورت نا بنا کر بھیجے۔ اور اس معاشرے کے تمام مردوں کو ایک بار عورت بنا کے بھیجے۔

خیر چھوڑیے۔ اس موضوع پر پھر سہی۔ ظلم یہ ہوا تھا کہ پرنسپل کی بنائی گئی کمیٹی کے تین مرد ایک عورت سے پوچھیں کہ اس کا ریپ کرنے کی کوشش کیسے کی گئی۔ دل کرتا ہے معاشرے کا کوئی چہرہ ہوتا تو اس کے منہ پر زور سے ایک تھپڑ رسید کرتی۔ کبھی دل کرتا ہے کہ اس عورت کی جگہ کوئی مرد ہوتا اور کمیٹی عورتوں کی ہوتی۔ اس معاملے پر شدید رد عمل آنے پر صوبائی حکام کی طرف سے ایکشن لیتے ہوئے تین پروفیسر خواتین پر مشتمل کمیٹی قائم کی جا چکی ہے اور آخری اطلاعات آنے تک ہسپتال کے پرنسپل اور سپریٹینڈٹ کو معطل کیا جا چکا ہے کیونکہ وہ معاملے کو دبانے کے کیے انکوائری کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہے تھے اور متعلقہ ڈاکٹر کو پیچھے ہٹنے کے لیے ڈرا رہے تھے۔ مگر تاحال انکوائری رپورٹ نہیں موصول ہوئی۔

افسوس کی بات یہ ہے اپنے ارد گرد جنسی طور پر ہراساں کرنے اور عوامی مقامات پر سر عام فحش مواد دیکھنے کے واقعات روز دیکھتے ہیں۔ مگر ہم ایسے واقعات سے اور اپنے ارد گرد سے لاتعلق رہتے ہیں یا صرف افسوس کر کے گزر جاتے ہیں۔ ہم رک کر ایسے لوگوں کو منہ کیوں نہیں توڑتے؟ شاید ہم ان کو سبق اس لئے نہیں سکھاتے کہ دوسروں کی بہن بیٹی ہماری بہن بیٹی نہیں ہوتی۔ کاش ہم یہی سوچ لیں کہ وہ ہماری نہیں تو کسی اور کی بہن بیٹی تو ہے ناں۔ اگر ہم یہ سوچ لیں تو سب کی بہن بیٹیاں محفوظ ہو جائیں۔

اسی بارے میں

شیخ زید لیڈی ڈاکٹر ریپ کیس: پرنسپل اور ایم ایس کو معطل کر دیا گیا

لیڈی ڈاکٹر، نائٹ ڈیوٹی اور ریپ

شیخ زید اسپتال میں نائٹ ڈیوٹی والی لیڈی ڈاکٹر سے زیادتی کی کوشش


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments