بنگلہ دیش میں حالیہ مظاہرے اور سیاسی بے چینی


بنگلہ دیش میں چند دنوں قبل دس یوم پر محیط طلبہ کی جانب سے کیے گئے ہنگاموں کو ریاستی طاقت کے زور پر دبا لیا گیا۔ لیکن خیال یہ ہے کہ یہ اشتعال اس حد تک بنگلہ دیش کے معاشرے میں اس وقت موجود ہے کہ جو دوبارہ بہت جلد کسی وقت پھٹ پڑ سکتا ہے۔ ان مظاہروں کا آغاز تو اس بے چینی سے شروع ہوا جو دو نوجوان طلبہ کی بس کے حادثے میں انتقال سے ہوا تھا۔ دیا اور کریم ڈھاکہ ایئر پورٹ کے نزدیک بس اسٹینڈ پر اپنی بسوں کا انتظار کر رہے تھے کہ دو تیز رفتار بسیں ریس لگاتے ہوئے آئی اور ان میں سے ایک بے قابو ہو کر بس اسٹینڈ میں بس کا انتظار کرتے طلبہ پر چڑھ دوڑی ۔ دو طلبہ موقع پر ہی جان کی بازی ہار گئے۔ بعض طلبہ اس المناک واقعے میں شدید زخمی بھی ہو گئے طلبہ میں اس واقعہ کے بعد اضطراب بڑھنا شروع ہو گیا اور انہوں نے ٹرانسپورٹ کے ناقص نظام اور سڑکوں کی حالت زار کو اس کا ذمہ دار قرار دے دیا۔

حسینہ واجد حکومت برسوں سے یہ راز الاپ رہی ہے کہ وہ بنگلہ دیش میں بہت معاشی خوشحالی کا دور لے آئی ہے اب یہ نعرہ وہاں کی نوجوان نسل کے لئے ایک ذہنی تشدد کا باعث بن چکا ہے۔ اس اضطراب کو بس ایک چنگاری کی ضرورت تھی اور وہ اس حادثے نے فراہم کر دی۔ حادثے کے ایک ماہ بعد طلبہ پورے ملک میں سڑکوں پر آ گئے اور بڑے پیمانے پر حکومت کے خلاف مظاہرے برپا ہونا شروع ہو گئے۔ اور حکومتی نظام لڑ کھڑانے لگ گیا۔ بنگلہ دیش میں یہ عام انتخابات کا سال ہے۔ 2014ء کے عام انتخابات کا حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے بائیکاٹ کیا تھا اور عوامی لیگ تن تنہا ہی انتخابات میں اتری تھی۔ مگر اس دفعہ بی این پی انتخابات کی جانب بڑھ رہی ہے۔ ان حالات میں مظاہروں کے کود پڑنے سے حکومتی ہاتھ پاﺅں پھول جانا ایک قابل فہم حالت ہے۔ ان مظاہروں کی جہاں سیاسی وجوہات تھیں وہیں پر نہایت مضبوط معاشی وجوہات بھی موجود ہیں۔

عوامی لیگ حکومت بڑی شدو مد سے دعویٰ کرتی ہے کہ اسے بنگلہ دیش کی معیشت کو دوبارہ درست ٹریک پر لا ڈالا۔ اس سال کا اس کا جی ڈی پی گروتھ ریٹ 7.5% رہا مگر عوام اس صورتحال سے بہت تیزی سے نالاں ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کی ایک تہائی تعداد ملازمتوں سے محروم ہے جبکہ باقی میں سے بھی اکثریت کو ملازمتیں ان کی قابلیت اور ضرورت سے کم اجرت پر مہیا کی جاتی ہیں۔ خواتین اور کم اجرت پر کام کرنے والے افراد کے مسائل مزید بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ عوام ایسی معاشی ترقی سے بیزار ہو رہی ہے کہ جن میں یا تو ملازمتوں کی موجودگی کا ہی قحط ہے اور یا ان ملازمتوں سے حاصل کردہ آمدنی اتنی محدود ہے کہ وہ ضروریات زندگی کو مہیا کرنے سے قاصر ہے۔ معاشی ترقی 7.5% اعشاریوں کے باوجود عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے والی خدمات میں سرمایہ کاری عوامی خواہشات کے برعکس ہے۔

ٹرانسپورٹ اور سڑکوں کا بہتر نظام عوام کی بنیادی ضروریات میں شامل ہو تا ہے۔ مگر ان کی حالت عوامی لیگ کی حکومت کے دونوں ادوار میں بد سے بدترین ہوتی چلی جا رہی ہے۔ برسبیل تذکرہ بیان کرتا چلوں کہ ٹرانسپورٹ کے نظام میں بہتری اور سڑکوں کی تعمیر کی افادیت کی دنیا قائل ہے۔ صرف پاکستان میں ہی اس پر غیر ذمہ دارانہ تنقید ابھی ماضی قریب میں کی جاتی رہی ہے۔ بہرحال یہ وہ معاشی حالات ہیں کہ جن کے سبب سے اب بنگلہ دیش کی نوجوان نسل کے ہاتھوں صبر کا دامن چھوٹا جا رہا ہے۔ 2006ء میں کیے گئے فوجی اقتدار اعلیٰ کے ساتھ سویلین کے شراکت اقتدار کے تجربے کے بعد 2009ء میں حسینہ واجد اقتدار میں آ گئی اور وہ تجربہ ناکام ہو گیا۔ اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی حسینہ واجد نے سیاسی عدم برداشت کی ایک نئی مثال قائم کر دی۔ ان کو بھارت کی کھلم کھلا مدد حاصل ہے اور وہ اس مدد کے سہارے تیسری بار اقتدار کی مدت حاصل کرنا چاہتی ہے۔ جس کے لئے انتخابات کو مینج کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس مینج کو ہماری عوامی زبان میں دھاندلی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اس سے قبل جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنماﺅں کو 1971ء کے واقعات کا مجرم قرار دیتے ہوئے تختہ دار پر بھی لٹکا دیا اور اب بی این پی کی سربراہ اور بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم خالدہ ضیاء کو بد عنوانی کے الزام میں 5 سال کے لئے قید کی سزا دلوا دی۔

مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ عوام بنگلہ دیش کے ہوں یا پاکستان کے، وہ غیر شفاف عدالتی عمل کے ذریعے دی گئی سزاﺅں کو جوتی کی نوک پر رکھتے ہیں۔ اور ان کے سیاسی خیالات اس ٹوپی ڈرامے سے تبدیل نہیں ہوتے۔ اس وقت ایک تصور بنگلہ دیش میں بہت سرعت سے عوامی حلقوں میں پھیل رہا ہے کہ حسینہ واجد خالدہ ضیاء  کو زہر یا کسی اور طرح جیل میں قتل کروا ڈالنا چاہتی ہے۔ یہ تصور مزید اشتعال کا باعث بن رہا ہے۔ کیونکہ حسینہ واجد کا ٹریک ریکارڈ سیاسی مخالفین کو مروانے کا موجود ہے۔ اس لئے اس تصور میں بہت جان بھی ہے۔ 2010ء  سے اب تک صرف بی این پی کے 500 کارکنان پولیس سے تصادم میں ہلاک کرائے جا چکے ہیں۔ جبکہ 519 افراد کو غائب کر دیا گیا تھا کہ جن میں سے 300 کے متعلق کچھ علم نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا تاریک راہوں میں مار دیئے گئے۔ میڈیا پر اتنا جبر ہے کہ معروف انسانی حقوق کے کارکن فوٹو گرافر شاہد العالم کو اس لئے گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ وہ الجزیرہ ٹی وی کو حالیہ ہنگاموں کی خبریں اور تصاویر ارسال کر رہا تھا۔

بنگلہ دیش میں انتخابات 31 اکتوبر سے دسمبر کے درمیان کسی وقت منعقد ہو گئے مگر اب عوامی لیگ کی جانب سے یہ اشارے مل رہے ہیں کہ امن و امان کی صورتحال کو بنیاد بنا کر عوام انتخابات کو غیر معینہ مدت تک کے لئے ملتوی یا کچھ وقت کے لئے ٹالنے کا فیصلہ سنایا جا سکتا ہے۔ لیکن رائے عامہ اب اس عمل کو برداشت کرنے کے لئے بالکل تیار نظر نہیں آتی۔ ان حالات میں 2006ء کے اواخر کی مانند فوجی مداخلت کا امکان بڑھ گیا ہے۔ اس وقت بھی فوجی مداخلت کا یہی جواز تراشا گیا تھا کہ عام انتخابات کے انعقاد کی صورت میں خون خرابے کا اندیشہ ہے۔ فوجی مداخلت سے بنگلہ دیش کی اس وقت تک صورتحال پر نظر رکھنے والوں کے مطابق صرف اس لئے محفوظ ہے کہ امریکہ فوجی حکومت کی بجائے قومی حکومت قائم کرنے کے حق میں ہے اور اس نے بنگلہ دیشی فوج کو دباﺅ میں رکھنے کی غرض سے انڈیا پیسفک کمانڈ کو بنگلہ دیش کے اتنا قریب کر دیا ہے کہ وہ صرف ایک گھنٹے کے نوٹس پر بنگلہ دیش کی حدود میں داخل ہو سکتے ہیں۔ بات بالکل واضح ہے کہ صاف شفاف انتخابات کے انعقاد کے نہ ہونے کی صورت میں صرف داخلی نظم و نسق ہی تباہ نہیں ہوتا بلکہ بین الاقوامی سرحدیں بھی خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔ سبق ہمارے لئے بھی اس میں موجود ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).