عورت سے امتیازی سلوک ختم کیا جائے


\"zeffer05\"بھئی ان دنوں بہت شدت سے یہ احساس ہو رہا ہے، کہ ہمارے یہاں عورت سے امتیازی سلوک کی حد ہی کر دی گئی ہے. صرف یہ کہ دینا کہ عورت پہ کیا کیا ظلم ڈھاے جا رہے ہیں، ناکافی ہے. لہاذا بہت غور و فکر کرنے کے بعد، میں کچھ تجاویز لے کر حاضر ہوا ہوں، تا کہ مظلوم کی داد رسی ہو سکے۔

اگر آپ لوکل بس میں سفر کرتے ہیں، تو پہلے مرحلے میں فرنٹ ڈور سے داخل ہوں، اور ان نشستوں پر بیٹھ جائیں، جو عورتوں سے امتیازی سلوک روا رکھتے مخصوص کی گئی ہیں. عورت اور مرد برابر ہیں، مساوات تبھی قائم ہوگی، جب مرد اور عورت ایک ساتھ بیٹھ کر سفر کریں. اگر آپ کراچی کے شہری ہیں، تو خواتین کو بس کی چھت پر سفر کرنے میں شریک کریں. آخر کھلی ہوا کا مزا لینا، اکیلے مرد ہی کا تو حق نہیں. یہ ذہن نشین رہے، آپ پہلے سے بیٹھے ہوے ہیں، تو کسی عورت کے لیے جگہ خالی مت کریں، یہ ان کی توہین ہے، ایسا کر کے آپ لا شعوری طور پر یہ احساس دلاتے ہیں، کہ وہ آپ سے کم زور ہے.

خواتین کے لیے جہاں بھی الگ قطار کا انتظام کیا گیا ہے، اس کے خلاف احتجاج کریں. جیسا کہ بتایا گیا ہے، کہ خواتین اور مرد برابر ہیں، تو انھیں محمود و ایاز کی طرح ایک ہی صف لانا ہوگا. دیکھا گیا ہے، کہ وہ تیسرے درجے کی شہری کی طرح الگ قطار میں کھڑی کر دی جاتی ہیں. یہ نا انصافی ہے.

قدرت نے بھی عورت سے امتیازی سلوک ہی برتا ہے. کیا جاتا خدا کا، اگر وہ مرد سے بھی بچے پیدا کرنے کا نظام تخلیق کرتا. یوں عورت کو مباشرت کی اذیت سے بھی نجات مل جاتی. مباشرت کی اذیت اس لیے کہا، یہ مرد کی تسکین کا باعث ہے، عورت بے چاری تو بس فرض نبھا رہی ہے، ورنہ اس کے لیے یہ گناہ بے لذت کی طرح ہے. اگر آپ کو یقین نہیں تو فیس بک پہ ان خواتین کی تحریریں پڑھیں، جو خواتین کے حقوق کی جنگ لڑتی ہیں اور چکی کی مشقت بھی اٹھاتی ہیں. بے چاریاں.

دیکھیے خدا کیا کہتا ہے، مرد کما کر لاے، عورت کا فرض کما کر لانا نہیں ہے. کیوں بھئی عورت کے لیے یہ نفل کیوں؟ فرض کیوں نہیں؟… ہوتا یہ ہے کہ یہ کمینہ مرد کما کر لاتا ہے، اور کمائی میں بیوی کو حصے دار بناتا ہے. یوں اس کا آقا بن بیٹھتا ہے. اور دیکھیے، حق مہر عورت مقرر کرے. کیوں بھئی، عورت کو بکاو سمجھا ہے، کیا؟ تجویز یہ ہے کہ عورت مرد کو حق مہر دیا کرے. تاکہ مرد کو پتا چلے بکنا کیا ہوتا ہے. اسی طرح عورت طلاق دے تب تک مرد کو نان نفقہ ادا کرے. جب تک اسے کوئی دوسری عورت نہ خرید لے. مطلب اس سے شادی کرلے. عورت جس گھر میں اس مرد کو رہنے کی جگہ دے، اس کا کرایہ نہ وصول کرے.

یہ سب کچھ ہو جاے تو عورت کو نافرمان مرد کو ہلکی مار کی اجازت ملنی چاہیے. بیلنے، چمٹے کی ضرب لگانے کی اجازت ہو، لیکن چہرے پر نشان نہ پڑے. مرد عورت پہ ہاتھ نہیں اٹھا سکتا، لیکن وہ زبان سے جتنے چاہے چرکے لگا لے، یہ تشدد میں شمار نہیں ہوگا. ہوتا ہے کیا؟

..

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments