اب مودی کی خیر نہیں


مودی سرکار نے توقع کے عین مطابق ہمارے کپتان کے پریم پتر کا جواب روایتی سرد مہری، بے اعتنائی اور بے رخی سے دے کر نئے پاکستان کے معماروں، مزدوروں اور ٹھیکیداروں کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ ہمارے ”سرفروش“قسم کے تجزیہ کار اس خط کے مثبت جواب کے حوالے سے یوں بھی امید سے تھے کہ یہ خط ہمارے کپتان نے امریکی وزیر خارجہ کے پاک بھارت دوروں کے بعد لکھا تھا۔ سب کا خیال تھا کہ امریکہ کی ثالثی اپنا رنگ دکھائے گی اور پاک بھارت مذاکرات جو صرف نواز شرف کی سیاسی عدم بلوغت اور بھارت میں ذاتی کاروباری مفادات کی بھینٹ چڑھ گئے تھے، عمرانی حکومت میں نہ صرف بحال ہو جائیں گے بلکہ مسئلہ کشمیر سمیت تمام دیرینہ تنازعات بھی پلک جھپکتے ہی حل ہو جائیں گے۔

مگر برا ہو بھارت سرکار کا کہ جنہوں نے ہماری نئی نویلی اور ناتجربہ کار حکومت کے مدارالمہام کی عزت نفس اور سفارتی آداب کی ذرا بھی لاج نہ رکھی اور بڑی ہی سنگدلی سے ہماری مخلصانہ پیشکش کو اپنی رعونت کے پیروں تلے کچل ڈالا۔ اس پر ہمیں اردو اورفارسی شاعری کا روایتی محبوب یاد آگیا جو بلا کا حسین و جمیل ہونے کے ساتھ ساتھ انتہا درجے کا سفاک، سنگدل، ہرجائی، جفا کار، بے وفا، بے رحم، عہد شکن اور طوطا چشم واقع ہوا ہے۔ بھارت نے ہمارے کپتان کے خط کا وہی حال کیا جو روایتی محبوب روایتی عاشق کی وصال کی خواہش کے جواب میں کرتا آیا ہے۔
لفافے میں پرزے میرے خط کے تھے
میرے خط کا آخر جواب آ گیا

ہمارے کپتان نے واقعی یہ نامہ خون دل میں انگلیاں ڈبو کر لکھا تھا۔ اس میں ہجر و فراق کی ظالم اور طویل راتوں کادرد و کرب سسکیاں لے رہاتھا۔ زمانے کی لعن طعن اور گردش دوراں کی کتنی کروٹوں کی الم انگیز داستان مچل رہی تھی۔ سہانے اور خواب آگیں ماضی کی دھندلی یادوں کی تشنہ خواہشوں کی تڑپتی بپتا تھی۔ بقول میر
کہنے کی بھی، لکھنے کی بھی ہم تو قسم کھا بیٹھے تھے
آخر دل کی بے تابی سے خط بھیجا، پیغام کیا

ہم نے بہت سوچا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں کپتان کو ٹویٹر، فیس بک، واٹس اپ، ٹیلی فون وغیرہ کے ہوتے ہوئے وصال مودی کے لیے خط جیسی پرانی اور از کار رفتہ چیز کا سہارا لینے کی کیا ضرورت پڑ گئی، مگر ہمیں کوئی معقول جواز نظر نہ آیا کیونکہ کپتان تو ماشا اللہ بلیک بیری مسیجز کے دریا کے شناور ہیں۔ شاید یہ وجہ ہوئی ہو کہ بلیک بیری کے معاملے پر ان کی ہمدم دیرینہ نے جس طرح گھر کا بھیدی بن کر لنکا ڈھائی تھی، اس کے بعد وہ محتاط ہو گئے ہوں۔ اور جے آئی ٹی کی تشکیل کے ہنگام جس طرح واٹس اپ کال کی بھد اڑی اس وجہ سے انہوں نے اسے بھی خطرے کی گھنٹی ہی سمجھا ہو۔

رہا ٹیلی فون تو فرانس کی حکومت اورامریکہ کے وزیرخارجہ سے ٹیلی فونک“ لیکس ” کے بعدشاید موا ٹیلی فون سیٹ دیکھتے ہی ان کا تراہ نکل جاتا ہو، اس لیے انہوں نے خط وکتابت کا سہارا لیا ہوگا۔ لیکن یہ مودی کی وضع داری، مروت اور لحاظ کو کیا ہوا۔ اس نے تو اردو و فارسی شاعری کے روایتی محبوب کی طرح نوازش نامے کا تماشاہی بنا دیا۔ ہنگامہ برپا کر کے کپتان کی عزت کو خاک میں ملانے کی کوشش کی۔ اس میں شاید پیام بر نے بھی گھناؤنی سازش کی اور کپتان کی ہدایت کے باوجود چپکے سے خط مکتوب الیہ کو دینے کے بجائے ڈھنڈورا پیٹ کر اس تک پہنچایا; حالانکہ کپتان نے اس کو دست بستہ عرض بھی کی تھی کہ

خط دیجیو چھپا کے ملیں وہ اگر کہیں
لینا نہ میرے نام کو اے نامہ بر کہیں

بھارت سرکار کا صاف جواب آنے پر کپتان اس سوچ میں گم ہیں کہ ایک ہی عمل کا ردعمل بعض اوقات باہم متضاد کیوں آتا ہے؟ یوسف رضا گیلانی خط نہ لکھنے کی پاداش میں عدالت سے معتوب ہو کر 5 سال کے لیے نا اھل ہو گئے تھے اور اب وہ مودی کو پریم پتر لکھ کر پوری دنیا میں بدنام ہو رہے ہیں۔ مجھے تو اس میں ناہنجار امریکی وزیرخارجہ کی سازش بھی دکھائی دے رہی ہے جس نے ہمارے سادہ لوح اور بھولے بھالے کپتان کو بہلا پھسلا کر خط لکھنے پر آمادہ کر لیا اور جاتے جاتے مودی کو تھپکی دے گیا کہ کپتان کے خط کا وہی حشر کرنا جو اس نے پاکستان میں نواز شریف کاکیا ہے۔ یہ بھی ممکن ہو کہ یہ اسکیم مودی نے اپنے یار نواز شریف سے مل کر بنائی ہو تاکہ کپتان کو خجل خوارکیا جائے۔

وجہ جو بھی ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ مودی نے ہمارے کپتان کی امن کی خواہش کو کمزوری سمجھ کر اپنی تباہی کو دعوت دی ہے۔ اس نے اپنی رعونت اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنے سے پہلے یہ کیوں نہ دیکھاکہ اب پاکستان میں مودی کا یار نہیں مرد آہن وزیر اعظم بن چکا ہے۔ مقدس نامے کی تحقیر کر کے اس نے ایک خوددار اور فولادی عزم کے حامل سرفروش کو للکارا ہے۔ ہمارے کپتان نے تو اتمام حجت کے لیے خط لکھا تھا تاکہ مودی کے انکارکے بعد اسے مزا چکھایا جائے۔

کیا اسے خبر نہیں کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے؟ ہمارا کپتان بھارت کے گلی کوچوں میں کشتوں کے پشتے لگادے گا۔ لال قلعے پر سبز ہلالی پرچم لہرا کر رہے گا۔ اب کپتان مودی اور اس کے یارنواز شریف کو بتائے گا کہ کشمیر کیسے بھارتی ظلم و جبر کی زنجیروں سے آزادی حاصل کرتا ہے؟ ہمارے کپتان کو روک سکتے ہو تو روک لو اب دھلی کی اینٹ سے اینٹ بجے گی۔ دیواریں ٹوٹ گریں گی، زندان تھر تھرا اٹھیں گے۔ کپتان ایسے گرجے اور برسے گا کہ مودی سرکار لرزیدہ ہاتھوں اور کانپتی ٹانگوں سے ہم سے معافی مانگے گی۔ کپتان نے اپنے سوشل میڈیائی مجاہدین اور سرفروشوں کو ہمہ وقت تیار رہنے کا حکم دے دیا ہے۔ وہ قاسم اور غزنوی کی تابندہ روایات کا احیاہ کیے بغیر چین سے نہیں بیٹھے گا۔ آخری خبریں آنے تک مودی ہمارے کپتان کے غیظ و غضب سے بچنے کے لیے محفوظ پناہ گاہ ڈھونڈ رہا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).