ہمارے بچوں کو ٹاٹ سکول والا ماحول واپس لوٹا دیں


محترم پرنسپل صاحب۔
آداب!

دو سال قبل بیٹے کو آپ کے سکول میں اس لیے داخل کروایا تھاکہ اس کے پھوپھی زاد اور خالہ زاد کزنز آپ کے سکول میں تھے۔ اب بیٹی کو بھی اس وجہ سے داخل کروایا کہ بھائی کے ہوتے اسے ایڈجسٹ ہونے میں آسانی ہو گی۔ ورنہ ہمارے شہر کے سارے سکول ایک جیسے ہیں۔ ہمہ وقت ایک خود کار مشین کی طرح پڑھائی اور صرف پڑھائی کروانے والے۔

بچے صبح سکول جاتے وقت عجیب طرح کا دباؤ محسوس کرتے ہیں۔ ان کے چہرے کمہلائے ہوتے ہیں۔ ان کا من بوجھل ہوتا ہے۔ ناشتہ اچھا لگتا ہے نا پسندیدہ کارٹون ٹام اینڈ جیری ان کو بھاتے ہیں۔ سکول میں کچھ ایسا ضرور ہے جس کا انہیں خوف رہتا ہے۔

بچوں کو سکول چھوڑنے جاتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ سب بچے بوجھل دل کے ساتھ سکول میں داخل ہو رہے ہوتے ہیں۔ ان کے پھول چہروں سے مسکراہٹ غائب ہوتی ہے۔ البتہ چھٹی کے وقت حالات الٹ ہوتے ہیں۔ ان کے تھکے چہروں سے خوشی چھلک رہی ہوتی ہے۔
آپ بہتر جانتے ہیں کہ بچوں کی بہتری کے لیے کیا کرنا ہے۔ بچوں کے والد ہونے کے ناتے سے میری چند گزارشات ہیں جو آپ کے گوش گزار کرنی ہیں۔

سکول میں باقاعدگی سے کھیلوں کا انعقاد ہونا چاہیے۔ انگریزی، اردو اور حساب کی طرح کھیل بھی سکول لائف کا اٹوٹ انگ ہونا چاہیے۔ کرکٹ، فٹ بال، ریس، جھولے، سلائیڈز وغیرہ بچوں میں نئی زندگی بھر دیتے ہیں۔ کھیل کے میدان میں بچے ہر قسم کے خوف، پریشانی، دباؤ اور بوریت کو بھول جاتے ہیں۔ بوجھل من ہلکے ہو جاتے ہیں۔ بچے تتلیوں کی مانند ڈال ڈال اڑتے پھرتے ہیں۔ جسمانی و ذہنی طور پہ مظبوط ہو جاتے ہیں۔ مقابلہ کرنے اور آگے بڑھنے کی آرزو پیدا ہوتی ہے۔ قوانین کے دائرے میں رہ کر کامیاب ہونا سیکھتے ہیں۔

نمبروں کی دوڑ میں بچوں کی خوشی اور بچپن قربان مت کیجیئے۔ انہیں آنکھ مچولی کھیلنے دیں۔ انہیں بچپن کے دل موہ لینے والے رنگوں میں ذرا سا بھیگ جانے دیں۔ آپ اپنا بچپن یاد کریں سر۔ کھیل سے زیادہ محبت کسی اور چیز سے نہیں ہوتی تھی۔ اب ان بچوں کے دن ہیں۔ ان کو جی بھر کے جی لینے دیں۔ یہ آپ کی بہت بڑی خدمت ہو گی۔

مجھے یاد ہے ہمارے گاؤں کے گورنمنٹ سکول کی عمارت ڈھنگ کی تھی نہ فرنیچر مہیا تھا۔ چاردیواری بھی نہیں تھی۔ درختوں کے سائے تلے کلاسز ہوتی تھیں۔ صرف دو اساتذہ پڑھانے کو تھے۔ ہم پھٹے پرانے مٹی سے اٹے ٹاٹ پہ بیٹھتے تھے یا پھر کھاد کی خالی بوری بیٹھنے کو ساتھ لے جاتے تھے۔ کپڑے سے سلے میلے سے بستے میں دو تین کتابیں، سیاہی کی دوات، قلم سلیٹ وغیرہ ہوتے تھے۔

لیکن اس سکول میں ہمیں کھیلنے کو کافی وقت مل جاتا تھا۔ استاد ہمیں تھوڑا بہت پڑھا کر آرام کرتے یا دوسری کلاسز کو دیکھتے۔ ہم لوگ پہیلیاں بوجھتے اور کہانیاں سنتے سناتے رہتے۔ دنیا جہان کی باتیں کرتے۔ سگریٹ کے خالی پیکٹ پھاڑ کے تاش بنا لاتے، ربڑ یا پلاسٹک کی گیند بستے میں چھپا رکھتے اور استاد سے آنکھ بچا کے نکال کر کھیلنے لگتے۔ چھوٹی موٹی گیمز بیٹھے بٹھائے کھیلتے رہتے۔

کبھی کبھار استاد ہمیں کرکٹ، فٹ بال یا شیر بکری کھیلنے کا موقع دیتے۔ وہ دن سکول لائف کا سب سے خوبصورت دن ہوتا۔ پسماندہ گاؤں کا پرائمری سکول تعلیمی سہولتوں سے اگرچہ لیس نہ تھا مگر اس نے ہمارے بچپن کو پڑھائی اور سختی کے بلڈوزر کے نیچے روندا نہیں تھا۔

سر آپ سے التجا ہے کہ بچوں کو کام تھوڑا کروائیں۔ سکول میں لگاتار چھ گھنٹے کی پڑھائی کے بعد ڈھیر سارا ہوم ورک کرنا مشکل کام ہے۔ بچوں کو ذرا سانس لینے دیجیئے۔ گھر میں والدین کے ساتھ بیٹھنے، بات چیت کرنے، گھومنے پھرنے کا وقت مل جائے تو اچھا ہے۔ گھر میں کارٹون دیکھیں گے، کھلونوں سے کھیلیں گے، موج مستی کریں گے تو سکول میں بھی اچھا پرفارم کریں گے۔
ان کے بیگز بہت وزنی ہیں۔ ان پہ اتنا بوجھ مت لادیں۔ معصوم سے بچے کتابوں کے بوجھ تلے جھکے جاتے ہیں۔ چھ گھنٹے سکول، پھر ہوم ورک کے لیے گھنٹوں ٹیوشن۔ رات کو سونا، صبح پھر یہی روٹین۔ بچے نہ ہوئے مشینیں ہوئیں جو تھکتی نہیں۔

سکول میں پانچ چھ گھنٹوں میں کھیل کھیل میں ان کو بنیادی باتیں سکھا دیں۔ اتنا بہت ہے۔ پلے گروپ کے بچوں کو رٹہ لگوانا نہایت غیر ضروری فعل ہے۔ ان کو مزے مزے کی سرگرمیوں میں لگا کر، کھیل کود ہی میں سکھانا چاہیے۔

سر عرض ہے کہ غیر نصابی سرگرمیاں زیادہ سے زیادہ متعارف کروائیں۔ بچوں کو تقریر کرنا سکھائیں۔ سٹیج پہ بولنے کا خوف ختم کریں۔ خوبصورت شعر یاد کروائیں۔ انہیں مختلف کہانیاں سنائیں تا کہ ان کے تخیل کے پنچھی اونچی اڑانیں بھر سکیں۔

موسیقی سے بھرپور نظمیں سُنائیں۔ بچے چھوٹے چھوٹے رول پلے کریں۔ پودوں کی دیکھ بھال کرنا سیکھیں۔ وردی پہننے اور صاف رکھنے کی مشق کروائیں۔ دانت صاف کرنے کا طریقہ سکھائیں۔ سائنس کے بنیادی خیالات سے آگاہ کریں۔ سادہ فقرے بولنے، بنانے کی ترغیب دیں۔ لنچ شیئر کرنے کا جذبہ پیدا کریں۔ حساب کتاب کے چھوٹے مسائل اُن کو حل کرنے کو دیں۔ مختلف گروپوں میں طرح طرح کے دلچسپ ٹاسک مکمل کرنے کو دیں۔ تا کہ بچے خوش بھی رہیں اور مختلف تصورات کی پہچان بھی کر سکیں۔

بچوں کی کردار سازی پہ خصوصی دھیان دیجیئے پلیز۔ استاد اور دوستوں کا احترام کرنا سکھائیں۔ اگر بچوں کی بات سُنی جائے، اُن کی بات کو اہمیت دی جائے، اُن کا احترام کیا جائے، اُن کی رائے کو رد نا کیا جائے تو وہ یقیناً استاد سے محبت کریں گے۔ بچوں کو بتایا جائے کہ تمام انسان قابل عزت ہوتے ہیں۔ ہر مذہب اور عقیدہ قابل احترام ہے۔ یہ رنگ رنگ کے پھول ہیں جن سے گلشن کی دلکشی جُڑی ہوئی ہے۔

نئے اساتذہ کی ٹریننگ بہت ضروری ہے اور تجربہ کار اساتذہ کے ریفریشر کورسز بھی اہم ہیں۔ اساتذہ کا رویہ سخت نہیں ہونا چاہئیے۔ اُن کا رویہ ایسا نہ ہو کہ بچوں کے دلوں میں سکول کا خوف بس جائے۔ خوف کی بجائے بچوں میں ہر خوف سے لڑنے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہیے۔ مار پیٹ ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔ بچوں پہ چِلانے سے یا مُنہ پہ تھپڑ مارنے سے اُن کے اعتماد کو مٹی میں مت ملائیے۔

اُن کے کام کی تعریف کیجیئے۔ اُن کے کام کو سراہیئے۔ اُن کے ادھورے کام پہ بھی اُن کی کمر تھپکائیے۔ اُن کی کمزور پرفارمنس پہ بھی تالیاں بجا کر حوصلہ دیجیئے۔ یوں اُن کے ڈگمگاتے قدم بھی سنبھل جائیں گے۔ اُن کی ادھوری صلاحیتوں میں بھی نکھار پیدا ہو گا۔

اُن کے کلاس ورک پہ سٹار بنائیں۔ شاباش لکھیں۔ گُڈ لکھ کر اس میں مُسکراتا چہرہ بنا دیں۔ اُن کے گالوں پہ سٹار بنا دیں۔ یقین کیجیئے اُن کی خوشی اور حوصلہ آسمانوں کو چھُونے لگے گا۔
سلیبس زیادہ پڑھانے، زیادہ نمبروں کی دوڑ، زیادہ کتابیں پڑھانے کے چکر میں نا پڑیں۔ رٹہ لگانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اُن کو پنجابی یا اُردو میں بات سمجھا دیں۔ اصل مقصد علم کا حصول ہے نا کہ زبانی یاد کرنا۔ ہمارے ایک اُستاد ہمیں رٹے کے نُقصان پہ ایک قصہ سُنایا کرتے تھے۔

”ایک شخص کی اپنے پڑوسی سے دُشمنی تھی۔ اُس نے اپنے طوطے کو سمجھا رکھا تھا کہ پڑوسی گھر نہیں جانا ورنہ جال میں پھنس جاؤ گے۔ پڑوسی نے طوطے کو پکڑنے کے لئے جال بچھا رکھا تھا۔ طوطا پنجرے میں بیٹھا روز یہ وِرد کرتا رہتا ’پڑوسی گھر نہیں جانا ورنہ جال میں پھنس جاؤ گے‘۔ اک روز پنجرے کا دروازہ کھلا رہ گیا۔ طوطا اڑا اور پڑوسی کے جال میں جا بیٹھا اور پھنس گیا۔ جال میں بیٹھا بھی یہی بول رہا تھا کہ پڑوسی گھر نہیں جانا ورنہ جال میں پھنس جاؤ گے“۔
رٹے سے صرف لفظ ازبر ہوتے ہیں۔ اُن کے معنی و مطالب سمجھ نہیں آتے۔

بچوں کو سرگرم اور پُرجوش رکھنے کے لئے Energizers متعارف کروائیں۔ بچے جب تھک جائیں تو اُن کو تفریح کا وقت دیں۔ اُن کو چھوٹے چھوٹے دلچسپ کھیل میں مصروف کریں، ہلکی ورزش کروائیں، ملی نغمہ یا گیت سُنائیں، تھوڑا ہلَہ گُلا کرنے دیں۔ تاکہ وہ تازہ دم ہو کر پڑھنے اور سیکھنے کے لئے تیار ہو جائیں۔

بچے جب بوریت محسوس کریں تو زبردستی نہ پڑھائیں۔ کتابوں کے علاوہ اُن کو ویڈیوز کے ذریعے بھی سیکھنے کا موقع دیں۔ چارٹس اور رنگ برنگی تصاویر سے اُن کو تعلیم دی جائے۔ چھٹی جلدی کر دیں۔ چھوٹی عمر کے بچوں کے لئے مسلسل پانچ چھ گھنٹے سبق دُہرانا ٹھیک نہیں۔ اگر درج بالا سہولیات بچوں کو مہیا کر دیں تو پھر شاید بچے پانچ گھنٹے خوش ہو کر گزار لیں۔
سر گزارش ہے کہ بچوں کو مادری زبان میں Reasoning سکھائیں۔ اُن کو سوچنے پہ مائل کیجیئے۔ سوچنا سکھا دیں۔

ایک باپ اپنے بچوں کے لئے کیا چاہتا ہے وہ فہرست بہت طویل ہے۔ یہ چند گزارشات اگر آپ قبول فرما لیں تو آپ کا احسان ہو گا۔ ان کے علاوہ آپ وہ سب کر دیں جو آپ بچوں کی بہتری کے لئے ضروری سمجھتے ہیں۔

سکول کی کامیابی یہ نہیں کہ بچوں کے سو فیصد نمبر آئیں۔ سکول کی اصل کامیابی یہ ہے کہ بچے ہنستے مسکراتے سکول جائیں۔ باقی بچوں سے دوستی ہو۔ ٹیچرز سے کھُل کر بات کر سکیں۔ موج مستی میں کتابوں کی باتیں سمجھیں۔

اگر آپ یہ نہیں کر سکتے تو کم از کم وہی ماحول دے دیں جو ہمارے گاؤں کے پرائمری سکول کا ہوتا تھا۔ ہماری فیس شاید دو روپے ہوتی تھی۔ آپ فیس پوری وصول کیجیے۔ ماحول ٹاٹ سکول والا فراہم کر دیجیے۔
شکریہ

احمد نعیم چشتی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد نعیم چشتی

احمد نعیم چشتی درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ سادہ اور چھوٹے جملوں میں بات کہتے ہیں۔ کائنات اور زندگی کو انگشت بدنداں تکتے رہتے ہیں۔ ذہن میں اتنے سوال ہیں جتنے کائنات میں ستارے۔ شومئی قسمت جواب کی تلاش میں خاک چھانتے مزید سوالوں سے دامن بھر لیا ہے۔

ahmad-naeem-chishti has 76 posts and counting.See all posts by ahmad-naeem-chishti