کراچی کی سندھی بستیوں کا درد


کراچی میں اتفاقاّ اگر کہیں آپ کا گزر ایسی جگہ سے ہوجہاں پر راستہ تنگ ہو، روڈ ٹوٹی ہوئی ہو یا سرے سے اس کا کوئی وجود ہی نہ ہو، آسپاس کی گلیوں میں میلے کچیلے بچے کھیلتے نظر آئیں یا ہاتھ میں کولر، بوتل یا دیگچی لئے پانی کی تلاش میں سرگرداں نظرآئیں، نوجواں اور پکی عمر کے لوگ ٹولیوں کی شکل میں ہوٹلوں کے باہر، کسی ڈیڑھ فٹ کی دیوار یا زیر تعمیر عمارت کے سامان کے پاس کھڑے گپ شپ کرتے نظر آئیں تو امکان ہے کہ آپ کسی سندھی بستی میں آ گئے ہیں۔

چلیں تھوڑی زحمت اور کریں دیواروں کا جائزہ لیں، کیا آپ کو سندھی میں لکھے نعرے نظر آئے؟ پ پ کا جھنڈا تو آپ نے دیکھا ہوا ہے، کوئی لال، نیلا یا اس قسم کا کوئی اور جھنڈا دیکھا؟ ( میں مذہبی جماعتوں کے پوسٹرز کی بات نہیں کررہا نا ہی جھنڈوں کی، کیونکہ وہ تو ہر جگہ ملیں گے) اگر مندرجہ بالا علامات نظر آچکی ہیں تو آپ کا شک درست ہے، یہ کوئی سندھیوں کی بستی ہے اب مناسب یہی ہے کہ آپ پہلی فرصت میں اپنی گاڑی کسی گلی کی نکڑ سے واپس موڑ لیجیے کیونکہ آگے یا تو راستہ بند ہوگا یا گلی تنگ ہوجائے گی یا پھر گٹر ٹوٹنے کی وجہ سے ایسی کیچڑ اور تعفن ہوگا کہ آپ کا نا صرف موڈ خراب ہوجائے گا بلکہ چمچماتی گاڑی کا بھی برا حشر ہوجائے گا۔ کیا کہا، یہاں پر رہنے والے؟ اجی ان کی چھوڑیئے وہ اس ماحول میں رہنے کے عادی ہوگئے ہیں، آپ واپسی کی راہ لیجیے۔

اور ہاں جو لوگ یہاں بیٹھے ہوئے ہیں ان سے کوئی بات نا ہی کریں تو بہتر ہے، کیونکہ ان کی باتیں سن کر خواہ مخواہ آپکا بلڈ پریشر ہائی ہو سکتا ہے۔ آپ نے بات کی تو گو کہ مہذب انداز میں جواب دیں گے اور آپ نے کچھ توجہ دی تو چائے آفر کریں گے، تو کیا آپ اس غلیظ ماحول میں بھنبھناتی مکھیوں کے بیچ ٹوٹی ہوئی بینچ پر بیٹھ کے چائے پیئیں گے؟ چھوڑیئے جناب ان سے بات کرنا فضول ہے۔

چلیں اگرآپ ان سے بات بھی کرنا چاہیں گے تو کیا؟ ان کی صفائی کی حالت تو آپ جگہ جگہ موجود کچرے کے ڈھیروں کی صورت میں دیکھ ہی چکے ہیں، صحت بھی ایسی ہی ہوگی۔ پھر بھی اگر آپ ان سے ہسپتال کا پوچھ بیٹھے تو سینہ ٹھوک کے بتائیں گے ’سائیں اسپتال آہے‘ وہ جو دکھائیں گے ایک کرائے کی دکان میں شفا بیچنے والا شخص بیٹھا ملے گا، دوائی دینے کے ساتھ ’ٹیکا‘ بھی لگادے گا، وہ بھی سستے میں، بلکہ اگر مریض کی جیب خالی ہوگی تو ’ادھار‘ بھی ہو جائے گا مگر ایک سوال مت کیجیئے گا کہ ’کیا آپ کے پاس ڈگری بھی ہے؟ ‘ بھلا اس سے آپ کو کیا غرض جب اس سے علاج کروانے والوں کو کوئی فکر نہیں۔

اگر تعلیم کا پوچھیں گے تو بتائیں گے ’جی بلکل سائیں اسکول ہے‘۔ خبردار ان کے بتائے ہوئے اسکول نہیں جانا صاحب، غلاضت سے بھرے ماحول میں ایک آدھ ماسٹر میلے کچیلے بچوں کے ساتھ مل بھی گیا تو غنیمت ہوگی، اس سے سلیبس یا مضامین کی تفصیل پوچھ کر اپنی صحت خراب نہیں کرنا، انہوں نے کیا پڑھایا ہوگا جو بتائیں گے؟

پارکس یا بچوں کے لئے کھیل کے میدان کے بارے میں تو آپ پوچھنے کا ارادہ پہلے ہی ترک کر چکے ہوں گے، غذا کیسی ملتی ہے، یہ بھی آپکے سرکا درد نہیں رہا ہوگا، اب آپ واپسی کی راہ لیجیے تو بہتر ہے، اور واپسی میں خیال رکھنا کہ کہیں کسی اور ایسی بستی میں نا چلے جائیں، کیونکہ اس بین الاقوامی شہر میں ایسی کئی بستیاں موجود ہیں جن کے آباد ہونے کی بنیادی وجہ تو سندھ کے دیگر شہروں میں روزگار کے مواقع کم ہونا ہے مگر یہ ساری بستیاں ان لوگوں نے نہیں بسائیں جو کھیتوں کے لئے پانی نہ ملنے کی وجہ سے آئے یا خاندانی جھگڑوں اور پولیس سے بچ کر آئے۔

یہاں پر آباد لوگوں میں کئی ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنی اکلوتی بھینس بیچ کریہاں رکشا خریدا اور گھر کی روزی کمانے لگا یا بکری بیچ کر ایک ٹھیلا لگالیا، اگر کسی کی جمع پونجی کچھ زیادہ تھی تو پلاٹ لے کر آدھے میں گھر بنا لیا اور آدھے میں ہوٹل لگالیا۔ اور جو ٹولیوں میں بیٹھے لوگ آپ دیکھ چکے ہیں یہ تاحال بے روزگار ہیں جو ’ٹیم پاس‘ کرنے گھروں سے نکل آتے ہیں۔ کچھ نوجوان تو کسی فیکٹری یا کسی ادارے میں ملازمت حاصل کرکے گزر بسر کرلیتے ہیں باقی ایسے ہی رہ جاتے ہیں، بھلا کم تعلیم یافتہ لوگوں کو کراچی میں سکیورٹی گارڈ کے علاوہ دیہاڑی کی مزدوری ہی مل سکتی ہے نا۔

کراچی میں آباد سندھیوں کی کل تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق 40 لاکھ سے زیادہ ہے، جن میں سے نصف آبادی ان بستیوں میں ہی رہائش پذیر ہے، ان بستیوں کے مکینوں میں کوئی چیز مشترک ہے تو وہ ہے ان کا درد، ایک ایسا درد جو نہ صرف کسمپرسی کی وجہ سے پروان چڑھا ہے بلکہ مختلف ادوار میں حکومتی رویے کی وجہ سے بڑھتا ہی رہا ہے، المیہ یہ ہے کہ ان کے درد کو آج تک کسی نے سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ نہ کسی سیاسی جماعت نے، نہ کسی ادارے نے۔

ایک سندھی کا المیہ یہ ہے کہ وہ چاہے کیسے بھی خیالات کا حامل ہو، چاہے کسی بھی جماعت کو ووٹ دے کر آیا ہو، بدقسمتی سے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر منصوبہ بندی کرنے والے ان کو پ پ کا ہی سمجھتے ہیں، حالانکہ اس مفروضے کا حقیقت سے تعلق ہے تو اتنا کہ جنتی منصوبہ سازوں کی سوچ، اب آپ ہی بتلائیے جب کسی قوم کو کوئی اور جماعت اپنا سمجھے ہی نہیں تو وہ آخر کدھر جائیں؟ یا واپس اس پ پ کی طرف یا پھر پورے نظام سے متنفر ہی ہوںگے نا۔

آپ یقین کریں آج تک ان بستیوں کے لئے متحدہ یا مسلم لیگ نواز کے دل میں کوئی نرم گوشہ نہیں رہا۔ مشرف کے دور میں صرف سٹی ناظم مصطفےٰ کمال نے ہی ان بستیوں کو نظر انداز نہیں کیا بلکہ اس سے پہلے نعمت اللہ خان کی روش بھی یہی تھی۔ 2008 میں پ پ اقتدار میں آئی تو یہاں کے بھولے بھالے لوگوں نے بڑی امیدیں لگائیں مگر تاحال اس جماعت نے بھی ان کو اپنا نہیں سمجھا، ایسے میں ایسی بستیوں میں بسنے والے کچھ لوگوں نے کوئی تعلق ڈھونڈ کر پ پ والوں سے مراسم استوار کرنے کی کوشش بھی کی تو محض اس حد تک کہ جب جلسہ ہو تو گاڑی بھر کے لے جانی ہے، بدلے میں ایک یا دو اشخاص کی جیب گرم ہوگی، اللہ اللہ خیر صلا۔

کراچی میں موجود سندھی بستیوں کے محلِ وقوع کے بحث میں الجھے بغیر اگر حقیقت یہ ہے کہ ایسی بستیوں کی بڑی تعداد ملیر، شرقی، غربی، کورنگی اضلاع میں ہے مگر وسطی اور جنوبی اضلاع میں بھی ایسی بستیاں موجود ہیں، جنوبی ضلع میں موجود گزری، چانڈیو ولیج اور بخشن ولیج جیسی بستیاں تو قیامِ پاکستان سے پہلے کی ہیں مگر آج تک بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔

آپ کو جان کر شاید حیرت ہو کہ چانڈیو ولیج کے مشرق میں پنجاب کالونی ہے، جہاں پنجاب کے میانوالی اور یگر علاقوں سے آئے لوگوں کی اکثریت ہے، شمال میں دہلی کالونی اور مغرب میں نئی بستی جہاں ایم کیو ایم کا اثر رہا ہے، ا اطراف کی تینوں بستیوں میں پانی میسر ہے، جبکہ چانڈیو ولیج اس نعمت سے محروم ہے، یہی حال بخشن ولیج اور گزری کے سندھی آبادی والے علائقے کا ہے۔ یہ آبادیاں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور گورنر سندھ عمران اسماعیل کے حلقہ انتخاب میں آتی ہیں۔ سندھ کے وزیر بلدیات سعید غنی کے حلقہ انتخاب میں چنیسر گوٹھ بھی ایسی ہی ایک بدنصیب بستی ہے۔

وزیراعظم جناب عمران خان بنگالیوں، برمیوں اور افغانیوں کے مسائل کو تو انسانی ہمدردی سے دیکھ رہے ہیں، کاش ان کی انسانی ہمدردی کی نظر کراچی کی ان سندھی بستیوں پر بھی پڑجائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).