بھابھی نے قربانی نہیں دی


یہ اُن دنوں کی بات ہے جب شباب نے میری دہلیز پہ اپنے قدم جمانے شروع کِئیے تھے۔ میرا قد سرو ایسا لمبا اور جسم کمان کی طرح تن گیا تھا۔ ایسے میں اب لڑکوں سے بھرے کالج میں بھی دل نہی لگتا تھا۔ کلاسیں چھوڑنے پہ حاضری کے پیشِ نظر پرنسپل نے مجھے کالج سے بھی نکال پھینکا۔ ابّا نے کالج کا یہ حال دیکھ کر مجھ پہ دوکان کے کام کی ذمہ داری ڈال دی۔ سارا دن دوکان کا سامان ڈھو ڈھو کے میرا جسم رات کو پھوڑے کی طرح دُکھتا۔ اپنی تفریح کا اور کوئی سامان میرے پاس تھا نہیں سوائے موبائل کہ جس پہ رات رات بھر ہندوستانی فلمیں دیکھنا میرا سب سے دیرینہ مشغلہ تھا۔

رات کی خاموشی میں جب نیم برہنہ ہیروئنوں کے بے باک مناظر دیکھتا تو میری رگوں میں دوڑتے خون کا فشار مجھے کہیں چین نا لینے دیتا۔ صبح اُٹھ کر وہی دوکان، وہی سامان۔ میرے وجود میں جوش مارتے خون اور جوانی کی حرارت کو راحت دینے کی میرے پاس کوئی سوغات نہ تھی۔ ایسے میں ایک دن میری نظر اپنے گھر میں موجود اُس صنفِ نازک پہ پڑی جس کے وجود کہ اس پہلو سے میَں اب تک بے بہرہ تھا۔

ایک شام جب سب گھر والے ایک دعوت میں جانے کو تیار کھڑے تھے، وہ زینے سے اُترتی ہوئی دکھائی دی۔ میں نے اسے پاؤں تک آتے گلابی فراک میں دیکھا جس میں اُسکا رنگ بھی گلاب کے پھول جیسا کِھل رہا تھا۔ وہ جوں جوں زینہ اترتی جاتی تھی میں ارد گرد سے بے گانہ ہوا جاتا تھا۔ بے اختیار میرے مُنہ سے نُکلا “بھابھی تو باربی ڈول لگ رہی ہیں۔ ”
وہ جھینپی اور جھٹ سے خود کو دوپٹے میں سمیٹ لِیا۔ اور یہاں میرے دل میں پُھلجڑیاں چل پڑیں۔

مجھے کہیں اور دیکھنے کی ضرورت کب تھی جب میری تسکین گھر پہ پڑے اُس بے وُقعت وجود سے پوری ہو سکتی تھی۔ میں جانتا تھا کہ اس گھر میں اُس کی حیثیت کیا ہے۔ اگلے دن جب وہ باورچی خانے میں کھڑی روٹیاں سینک رہی تھی تو میں چپکے سے اس کے پیچھے جا کھڑا ہوا۔ معاً اُسکا وجود بے خبری میں مجھ سے ٹکرایا اور وہ جھٹک کہ دور جا کھڑی ہوئی۔ میرے چہرے پہ موجود مکر کے جالے اسے سمجھ نہ آئے پر وہ گبھرا گئی اور جلدی سے باہر نکل کر پوچھنے لگی کہ کیا چاہئیے؟

میں نے ایک معنی خیز مسکان سے اس کو حیران پریشان چھوڑ کہ کمرے کی راہ لی۔ مگر میرے وجود میں جیسے کسی نے بجلی ایسی قوت بھر دی۔ میرے تنے ہوئے اعصاب جیسے لمحے بھر میں ڈھیلے پڑ گئے۔ اس پہلی پہل کاوش نے مجھے شاد کر دیا۔ اب میں موقعے کی تلاش میں رہتا کہ کیسے اُسے چھو نے کا بہانہ مل سکے۔

وہ بھی عورت تھی، میری نیت بھانپ گئی۔ وہ مجھ سے دور رہنے کے بہانے تلاشتی۔ تھی تو مجھ سے عمر میں بھی 3، 4 برس زیادہ مگر میرے لیے وہ کسی طور مفت کے تحفے سے کم نہ تھی۔
میرے رگ و پے میں جو لہو گردش کر رہا تھا اُسے فقط چند تسکین کے لمحے ہی تو درکار تھے۔ جن سے وہ کوئی خاطر خواہ اعتراض اُٹھانے کے قابل بھی نہ ہوتی اور میرا دانہ پانی بھی چلتا رہتا۔

اب مجھے محض چھونے کا مزہ کم لگنے لگا۔ میں اب آگے کو بڑھنا چاہتا تھا۔ اس کی بے چارگی کا مزہ لینا میرا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ وہ بے بسی سے میری طرف دیکھتی۔ اس کی التجائی نظریں مجھ سے پناہ مانگتی پر مجھے ترس نہ آتا تھا۔ ایک روز میں نے اس کے اکیلے ہونے پہ خود کو نیم برہنہ حالت میں اس کے روبرو کر دیا۔ وہ خود کو بچانے اپنے ٹھنڈے پڑتے جسم کو گھسیٹتے ہوئے کمرے میں جا کے بند ہو گئی۔ میں اور شیر ہوا۔ یہ بات تو ہم دونوں جانتے تھے کہ جب کبھی یہ بات منظرِ عام پہ آئے گی، اس کے کردار کی دھجیاں بکھیر دی جائیں گی۔ وہ اپنا دفاع نہی کر پائے گی۔ اور اسی بات کا میں بے دریغ فائدہ اُٹھاتا تھا!

میں نے بھائی کے آنے جانے کے اوقات پہ نظر رکھی ہوئی تھی۔ وہ رات کو گھر شاذو نادر ہی ہوتے تھے۔ ایک رات میں نے بھابھی کا کمرہ کھولنے کی کوشش کی جو بالائی منزل پہ واقع تھا۔ وہ روتے ہوئے میری منتیں کرنے لگی کہ میں اس کی جان چھوڑ دوں۔ مگر میں اپنی آپے میں تھا ہی کہاں۔ جب ہر کوشش کے بعد کمرہ نہ کُھلا تو میں غصے میں گھر سے باہر نکل پڑا۔ کیا تھا جو چند گھڑیاں میری آگ پہ پھوار بن کے مجھے سکون دے دیتی۔

اگلے دن میں نے وہی حربہ دن کے وقت استعمال کیا۔ اس کی کمزوری نے مجھے اتنا بے خوف کر دیا تھا کہ میں اپنی ماں کی گھر میں موجودگی سے بھی نہ گھبرایا۔ وہ کچن میں کام کر رہی تھی کہ میں اپنی جوانی کے جوبن کو عریاں کیے اُسکے سامنے آکھڑا ہوا۔ وہ مجھے دیکھ کے زور سے چِلّائی۔ میں پھر بھی سامنے سے نا ہٹا۔ اُسکی چیخوں پہ امّاں نے اندر سے آواز لگائی کہ کیا ہوا۔ میں نے اسے خونخوار نظروں سے دھمکی دی کہ اب بھی وہ میری بات نا مانی تو میں کچھ بھی کر گُزروں گا۔ میں آرام سے باہر چلا گیا کیونکہ میں جانتا تھا وہ میری ماں کو کچھ نہی بتائے گی۔

ساری رات میں نے اُسے زیر کرنے کہ طریقے سوچے۔ صبح میں دوکان پہ چلا گیا۔ دن چڑھے گھر سے فون آیا کہ بھابھی نے گھر میں سب کو یہ بات بتا دی ہے۔ میں آرام سے مکر گیا۔ اس کم حیثیت عورت کی سننی بھی کس نے تھی۔ البتہ اب ابا اماں نے مجھ پہ نظر رکھنی شروع کر دی۔ کُچھ دن اور گزرے اور بھابھی کو ایک معمولی سی بات پہ گھر سے نکال دیا گیا۔ بھائی تو ویسے بھی اس سے لا تعلق تھا۔ اُسکی زندگی پہ کوئی خاص فرق نہ پڑا۔

بقول اماں کہ وہ عورت کبھی بھی گھر کی لنکا ڈھا کے ہم پہ مصیبت ڈال سکتی تھی اس لئے اُس سے جلد از جلد چھٹکارا حاصل کرنا بہت ضروری تھا۔ پھر ہوا بھی وہی۔ جب یہاں سے کوئی سبب نہ بن سکا تو اُس نے اپنے گھر والوں کو میرے متعلق بتا دیا۔ اب جو بھی ہو بدکردار تو عورت ہی ہوا کرتی ہے۔ مرد نہیں!

سو اماں نے خدا رسول کی قسمیں کھا کے یہ بیان دیا کہ وہ خود کئی بار اسے میرے اوپر اپنا نسوانیت کا جادو چلاتے دیکھ چکی ہیں اور میں معصوم اس کے جال میں نا آیا تو اس نے یہ ڈرامہ رچا دیا۔ اماں تو محض اپنی بہو بیٹی سمجھ کے چپ رہیں چناچہ اب انہوں نےاس پہ بد چلنی کا الزام لگا کے اپنا نصب العین پورا کیا اور اُس کو حمل کے باوجود کبھی واپس نہ لانے کی قسم بھی کھائی۔ اس بد چلن کو گھر میں رکھ کہ ناجانے کس کا گناہ سر لینا پڑتا۔

سنا ہے اس کے یہاں بیٹی ہوئی تھی۔ خیر ہم نے تو نا دیکھی۔ پر میں سوچتا ہوں کیسی ہی بد نصیب اور نا خلف عورت تھی۔ کیا تھا جو بھائی کہ ساتھ کبھی کبھی میری بھی ضرورت پورا کر دیتی۔ گھر بسا رہتا اس کم ظرف کا۔ آخر کو گھر بسانے کے لئے قربانی تو عورت کو ہی دینی پڑتی ہے نا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).