بھارت بچت چاہتا ہے تو وہ بھی بصارت والا وزیراعظم لائے


ہمارے وزیراعظم عمران خان نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو خط لکھ کر سمجھایا تھا کہ دونوں ممالک اسی وقت ترقی کر سکتے ہیں اگر وہ امن قائم کر لیں اور اس سلسلے میں پہلے دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ مل بیٹھیں اور اس کے بعد نریندر مودی کو اسلام آباد آنے کا موقع بھی دے دیا جائے گا۔ پہلے تو بھارت نے مودی کو اسلام آباد بھیجنے سے انکار کر دیا۔

اس کے بعد اس نے وزیر خارجہ کی ملاقات سے بھی انکار کرتے ہوئے کہا کہ ڈالا کہ اس نے پاکستان کے نئے وزیر اعظم عمران خان کا اصلی چہرہ دیکھ لیا ہے کیونکہ پاکستان ٹکٹ جاری کرتا ہے اور کشمیر میں جب بھارتی سینک گولیاں چلاتے ہیں تو پاکستانی فوج اس کے سینکوں کو مار ڈالتی ہے۔ ’اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان نہیں سدھرے گا‘۔

اس بھارتی کوتاہ اندیشی اور حماقت پر ہمارے وزیراعظم عمران خان نے اپنے شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے ٹویٹ کر ڈالی
مذکرات کی بحالی کی میری دعوت کے جواب میں بھارت کا منفی اور متکبر رویہ باعث افسوس ہے۔ اپنی پوری زندگی میں نے ادنیٰ لوگوں کو بڑے بڑے عہدوں پر قابض ہوتے دیکھا ہے۔ یہ لوگ بصارت سے عاری اور دوراندیشی سے یکسر محروم ہوتے ہیں۔ “

ہمارے وزیراعظم درست کہتے ہیں۔ بھارتی لیڈر شپ میں بصارت کی شدید کمی ہے۔ لیکن سیانے کہتے ہیں کہ دوست بدلے جا سکتے ہیں لیکن ہمسائے نہیں۔ تو کیا اس مسلسل پاک بھارت دشمنی کو ختم کرنا ممکن ہے یا یہ جنگ ہمیشہ چلتی رہے گی؟ مایوس مت ہوں، بھارتی جنتا چاہے تو مسئلہ حل کر سکتی ہے۔

اسے چاہیے کہ اپریل کے الیکشن میں نوجوت سدھو کو وزیراعظم بنوا دے۔ سدھو ہے بھی ہنس مکھ۔ بھارتی جنتا کو خوب خوش رکھے گا۔ بخدا ویسا قہقہہ پورے ہندوستان میں کسی دوسرے کا نہیں سنا۔ ہمارے لیے بھی سدھو بہتر رہے گا۔ ہم اس سے کوئی مناسب ڈیل کر سکتے ہیں جس سے وہ بھی خوش ہو کہ اسے کچھ مل گیا ہے اور ہمارا الو بھی سیدھا ہو جائے۔

مثلاً سدھو کو آفر کی جا سکتی ہے کہ تم ہمیں کشمیر دے دو اور ہم بدلے میں کرتار پور کا بارڈر کھول دیتے ہیں۔ یا سدھو زیادہ سودے بازی کی کوشش کرے تو ہمارا کپتان بھی دل بڑا کرے اور کرتار پور کے گردوارے کے بدلے کشمیر کا سودا ڈن کر دے۔

اگر ہندوستانی جنتا سدھو کو بڑا سردار ہونے کی وجہ سے وزیراعظم نہیں بنا سکتی تو اسے چاہیے کہ وہ سنیل گواسکر یا کپل دیو کو وزیراعظم بنا دے۔ ورلڈ کپ کھیلا ہوا ایک بھارتی کپتان ہی ہمارے کپتان جتنی ”بصارت“ دکھا سکتا ہے۔ کپل دیو نے 1983 کے ورلڈ کپ میں انڈیا کی کپتانی کر کے ورلڈ کپ جیتا ہوا ہے۔ دو ورلڈ کپ ونر کپتان کم و بیش ایک جتنی بصارت رکھتے ہیں گو کہ ہمارے کپتان کا پلڑا کم از کم دگنا بھاری ہے۔ گواسکر کی کپتانی میں انڈیا نے ورلڈ کپ تو نہیں جیتا مگر اس کی بصارت کی گواہی اس بات سے ملتی ہے کہ ہمارے کپتان نے اسے اپنی تقریب حلف برداری میں شمولیت کا دعوت نامہ دے کر اس کی عزت افزائی کی۔

بھارت کا وزیراعظم ان دو میں سے کوئی بھارتی کپتان بنتا ہے تو تمام تصفیہ طلب پاک بھارت معاملات کو دونوں ممالک کے کپتان مذاکرات کی میز پر حل کر لیں گے۔ سیاچین کو تو ٹاس کر کے بھی حل کرنا ممکن ہے۔ ہاں کشمیر ایک بڑا اور نہایت پیچیدہ مسئلہ ہے۔ اس کے حل کے لئے خاص تیاری کرنی پڑے گی اور بین الاقوامی مبصرین کی ضرورت بھی پڑے گی۔

ان بین الاقوامی مبصرین کی موجودگی میں دونوں کپتان سپر سکس اوور کھیل کر فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کشمیر کس کے حصے میں آئے گا۔ لیکن ہمارے کپتان کو پہلے کشمیری لیڈرشپ کو اعتماد میں لے کر اس حل کو قبول کرنے پر آمادہ کرنا پڑے گا کہ جنگ لڑنے کی بجائے سپر سکس اوور کھیل کر کشمیر کا مسئلہ حل کر لیا جائے۔ ہمیں یقین ہے کہ کشمیری لیڈرشپ مان جائے گی کیونکہ ہمارے کپتان کے ہارنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

بھارت نے ان تجاویز کو قبول نہ کیا تو پھر ہمارا کپتان اسے نہیں بخشے گا۔ پھر وہ بھاگا بھگا سلامتی کونسل میں جائے گا کہ عمران خان سے ہمیں معافی دلوا دو، مگر کپتان نے نواز شریف کو معاف نہیں کیا تو بھارتیوں کو کہاں کرے گا۔ کپتان صرف ایک موقع دیا کرتا ہے، اس کے بعد وہ سیدھا تختہ کر دیتا ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar