سنہری معبد کا شہر


فراق والے انقلاب کی طرح رفتار کتنی آہستہ اور کتنی تیز ہو سکتی ہے، یہ بھی اس ریل میں اندازہ ہوا۔

بلٹ ٹرین کا نام نہ جانے کب سے سُنا تھا۔ اس لیے اس کا اشتیاق بھی تھا۔ ساتھ ہی اندیشہ کہ گولی کی رفتار سے چلے گی تو اڑا کر رکھ دے گی۔

ریل میں کافی پینے کے دوران میں نے سویامانے سے پوچھا، کیا یہ بلٹ ٹرین نہیں ہے، یہی ہے بلٹ ٹرین ہے اور یہ اسی طرح چلتی ہے، انھوں نے بتایا۔ میں نے کافی کے پیالے پر نظر ڈالی۔ اس میں سے کافی چھلک بھی نہیں رہی تھی۔ میں بھی سکون سے بیٹھ گیا، اور کھڑکی کے باہر جھانکنے لگا جہاں دن ڈھل چکا تھا اور رات ہو رہی تھی۔ ٹوکیو ہو آیا، کیوٹو کی دھیّا چھو لی۔ اس سفرمیں بس ہیروشیما رہ گیا۔ اتنی عجلت میں ممکن بھی نہیں تھا۔

مگر پھر سویا مانے صاحب اس کے بارے میں بتانے لگے۔ ان کا خاندان اس صدمے سے کس طرح تباہ ہوا۔ ان کے والد اس شہر کے رہنے والے تھے مگر وہ وہاں دوبارہ نہ جاسکے۔ سویا مانے خود وہاں ہو کر آئے ہیں اور ان کے چہرے سے اندازہ ہورہا تھا کہ اس کے بارے میں بات کرنا بھی ان کے لیے کس قدر مشکل ہے۔

سو اس شہر کا ارادہ میں نے کسی اگلے سفر کے لیے چھوڑ دیا۔ آئندہ کے لیے بھی تو کچھ رہ جانا چاہیے۔

اور ابھی تو ٹوکیو میں دیکھنے کے لیے بہت کچھ باقی ہے۔

واپس آیا تو ٹوکیو بدلا بدلا سا نظر آیا۔ میں حیران کہ یا الٰہی میں اتنی مدت کے لیے تو نہیں گیا تھا، پھر یہ کیا ہو رہا ہے۔

شہر میں جابجا روشنیاں سجی ہوئی تھیں۔ قمقمے جل رہے تھے۔ ایک جشن ایسا لگتا تھا کہ امڈا پڑ رہا ہے۔

پروفیسر ہاگیتا اور یوری کالو کے ساتھ ٹوکیو کا ایک باقاعدہ ٹور کیا۔ پتّوں سے عاری خزاں رسیدہ درختوں کے درمیان ایک سڑک سے گزرے، جس کے ایک کنارے، ایک دھندلے فاصلے کی دوری پر شاہی محلّات تھے۔ ہم اس کی مخالف سمت میں گئے اور بے حد آرام دہ، کشادہ بس میں بیٹھ گئے جو ہمیں بہت باضابطہ طور پر شہر کے قابلِ دید مقامات میں گھماتی رہی۔ بتیّوں میں زرق برق جگمگاتا ہوا گنزا کا علاقہ جو شاید ساری دنیا میں مشہور ہے۔ دکانوں کی جگمگاہٹ ، خریداروں کا ہجوم مگر اس کے باوجود ہر چیز میں ایک سلیقہ، جو اگر نادیدہ نہ ہوتا تو اس قدر پُراسرار نہ لگتا۔

ہوا یوں کہ شام ہو رہی تھی اور ہم سڑک پر ٹہل رہے تھے۔ اچانک گھنٹی بجنے لگی۔ آواز پوری فضا میں تیر گئی، مگر اس نے نہ ڈرایا اور نہ چونکایا۔ بس جیسے موسیقی پیش کی جا رہی ہو۔

یہ بچّوں کے لیے ہے۔ ان کے گھر جانے کا وقت ہوگیا ہے، ہاگیتا صاحب نے مجھے بتایا۔ جاپان میں زلزلے کا خطرہ ہر وقت رہتا ہے اس لیے سائرن کی روزانہ جانچ پڑتال کے بجائے یہ طریقہ اختیار کیا گیا، یہ موسیقی بجتی ہے اور اس کا مطلب ہے کھیلنے گھومنے والے بچّے گھروں کو لوٹ جائیں۔ سائرن کی چیکنگ بھی ہو جاتی ہے۔

موسیقی فضا میں گونجتی رہی۔ ایک لمحے کے لیے میرا جی چاہا کہ میں بھی گھر لوٹ جائوں۔ سڑک نے پائوں پکڑ لیے۔ پھر خیال آیا، اب میں بچپن کو بہت پیچھے چھوڑ آیا۔ چاہوں تو بھی واپس نہیں جا سکتا۔ پھر میرا یہاں گھر بھی تو نہیں ہے۔

اس لیے میں چپ چاپ ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔

ہوش ٹھکانے آئے تو شہر کے ایک پرانے معبد میں پہنچ کر۔ روایتی طرز تعمیر، دھوئیں اور لوبان کے مرغولے جس میں اپنے میلے کچیلے گناہ دھلوائے جا سکتے ہیں۔ ترتیب سے کھلے ہوئے پھول اور ایک طرف ہینڈی کرافٹ کا بازار جہاں رنگ برنگ کی چیزیں، کھیل کھلونے اور روایتی مٹھائیاں جن کا الگ ہی مزہ تھا۔ پتّھر کے شیر اور دھات کے مجسموں کے درمیان میرا ذہن دیر تک بھٹکتا رہا۔ قدیم وضع کی کاغذی لالٹینوں، قندیلوں، بید مجنوں کی خشک ٹہنیوں کے درمیان گھومتا رہا۔

دن ڈھلنے لگا تو اچھے سیّاحوں کی طرح تصویریں کھنچوائیں اور واپسی کا رُخ کیا۔

گولڈن پیویلین کے چاروں طرف موجود باغ میں پھر وہی بے برگ وبار درخت نظر آیا اور اپنائیت کے احساس کے ساتھ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ایسے درخت میں نے دوچار جگہ دیکھے ہیں، شانگلہ کے قریب ایک وادی میں اور کٹھ منڈو میں باگیرتی ندی کے گھاٹ کے ساتھ۔ اس بار بھی لگا جیسے یہ درخت میرے اندر سے اگ رہا ہے۔

پھر مجھے خیال آیا کہ میں الٹا کھڑا ہوا ہوں۔ میرا رخ باقی تمام لوگوں کی طرح گولڈن پیویلین کی طرف ہونا چاہیے۔ مُنھ میرا سوکھے درخت کی طرف نہ ہو۔ میں وہاں سے آگے بڑھا اور پتھر کے اس نشان پر رک گیا جہاں درج تھا کہ یہ متبرک سفید سانپ کی قبر ہے۔

باغ میں دوچار بیبیاں روائتی کیمونو لباس پہنے نظر آئیں۔ میں خوشی سے زمین میں گڑ گیا۔ چاہا ان کے ساتھ تصویر کھنچوا لوں۔ وہ فوراً راضی بھی ہوگئیں۔ پروفیسر ہاگیتا نے یہ بتا کر مزہ کرکرا کر دیا کہ روائتی لباس یہ بتا رہا ہے کہ یہ کہیں باہر سے آئی ہیں۔ چین اور کوریا سے سیاحت کے لیے آنے والی لڑکیاں یہ لباس پہنچ کر یہاں آتی ہیں۔ مقامی لڑکیوں کا یہ لباس اب نہیں رہا۔ مجھے غیرت قومی کا خیال نہیں آیا۔

()


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2