آسٹریلیا کا ٹیگور اور ایٹمی جنگ


کریم آباد میں رکنے کا ارادہ نہیں تھا مگر رک گئے۔ ہنزہ میں سیاحوں کے غول اترے ہوئے تھے۔ ہوٹلوں میں جگہ نہیں تھی مگر نظیم اللہ بیگ موجود تھا۔ نظیم موجود ہو تو ہنزہ میں چھت ڈھونڈنا اپنے گھر جانے جیسا ہے۔ دور اندر گلیوں میں ایک سنسان سا مکان تھا جسے ابھی ہوٹل بنے بس چند ہی دن گزرے تھے۔ ہال میں داخل ہوئے تو ٹیبلیں بتا رہی تھیں وہی ڈائننگ ہال بھی ہے۔ فرش پر نیا نیا کارپٹ بچھا ہوا تھا۔ ہم تھکے ہارے داخل ہوئے تھے۔ رات کا پہلا پڑاؤ تھا۔

ہوٹل کے صحن سے کریم آباد کی روشنیوں پر کسی گھنے جنگل میں جگنووں کے رقص کا سا گمان ہوتا تھا۔ وقار ملک نے اپنا کیمرہ اٹھایا۔ اسے روشنیوں کوقید کرنا تھا۔ ذرا حواس بحال ہوئے تو دیکھا کہ ہال میں سامنے والی ٹیبل پر ایک نہایت چاق و چوبند مگر لمبی داڑھی والا سفید ریش شخص بیٹھا ہوا تھا۔ پہلی نظر میں وہ چہرہ بہت مانوس سا لگا۔ کہاں دیکھا تھا یہ یاد نہیں آ رہا تھا۔ بہت دیر تک اسے دیکھنے کے بعد یاد آیا کہ ان کا چہرہ ٹیگور سے ملتا ہے۔ کہیں دیکھا نہیں تھا بس ذہن نے ٹیگور کی شبیہ ملا دی تھی۔

اتنے میں وہ اٹھ کر میری ٹیبل پر آیا۔ ’میں بیٹھ سکتا ہوں؟ ‘اس نے بے تکلف انداز میں پوچھا، اور جواب کا انتظارکیے بغیر بیٹھ گیا۔ ’پاکستانی بہت اچھے لوگ ہیں۔ آپ کو کبھی منع نہیں کرتے کہ نا بیٹھیں۔ مجھے ان کا یہ روایتی تکلف بہت پسند ہے‘۔ اس نے گفتگو کی تمہید باندھی۔ ابھی میں نے کوئی جواب نہیں دیا تھاکہ اس نے مزید کہا ’مگر مجھے ان سے ایک شکایت بھی ہے۔ یہ صفائی کا بالکل بھی خیال نہیں رکھتے۔ دیکھو یہ ہوٹل چند دن پہلے کھلا ہے۔ نیا نیا کارپٹ بچھا ہے۔ اور وہ دیکھو سامنے چار پاکستانی جوتوں سمیت بیٹھے ہیں‘۔ میں نے اسے جواب دینے کی بجائے اپنے پاؤں کرسی کے نیچے کھسکا لئے۔

اس کا نام فرینک تھا۔ وہ اپنے نام جیسا فرینک ہی تھا۔ بے تکان بولنے والا۔ خود سے موضوع تلاش کرنے والا۔ اس نے بتایا وہ آسٹریلیا سے ہے اور ہر سال ہنزہ آتا ہے۔ اسے شکایت تھی کہ پاکستانی یہاں ہنزہ میں کچرا کیوں پھینکتے ہیں۔ شکایت تو شاید بہتر لفظ ہے، اصل میں اسے حیرت تھی۔ اس نے کہا ’ میں سوچتا ہوں جو لوگ اپنے گھر، دفتر، اور زندگی کی دیگر مصروفیات سے وقت نکال کر یہاں اس صاف شفاف فضا میں سانس لینے آتے ہیں۔ وہ یہاں آنے کے لئے اپنے پیسے بھی خرچ کرتے ہیں۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ وہ ایسی جگہ پر کچرا کیوں پھینکتے ہیں؟ کیا وہ نہیں سوچتے کہ اس سے یہاں کا ماحول گندا ہو جائے گا، ویسے ہی گندا جسے وہ پیچھے چھوڑ کر آئے تھے‘؟

میرا جواب سن کر فرینک مطمئن نہیں ہوا۔ میرا جواب بھی کیا تھا بس ایک سیاح کے سامنے اہل وطن کی جھوٹی عذر خواہی تھی۔ اس نے پھر گفتگو کا آغاز کیا۔ ’ میں نے دیکھا ہے کہ پاکستان کے دیگر علاقوں سے آنے سے والے لوگ کافی مذہبی ہوتے ہیں۔ ایک بار مجھے پھنڈر میں ایک کراچی کے کچھ لوگ ملے تھے۔ کافی دلچسپ لوگ تھے۔ انہوں نے مجھے پاکستانی کھانوں کے ایسے نام بتائے جو میں نے پہلے کہیں نہیں سنے تھے۔ میں نے پورا دن ان کے ساتھ گزارا۔ شام کو ان میں سے ایک آدمی نے دیگر کے ساتھ کچھ بحث شروع کی۔ اس آدمی سے میری کوئی بات نہیں ہو سکی تھی کیونکہ وہ انگریزی نہیں جانتا تھا۔

میں نے اس نوجوان لڑکے سے پوچھا، جس کے ساتھ میں باتیں کرتا رہا تھا، کہ کس بات بات پر بحث ہو رہی ہے؟ اس نے مجھے بتایا کہ اس کے چچا کو نماز پڑھنی ہے۔ میں نے پوچھا کہ اس میں بحث کی کیا بات ہے؟ ان کو کہیں کہ یہیں نماز پڑھ لے۔ میں نے بہت سے لوگوں کو راستوں، سڑکوں، میدانوں اور دریاؤں کے کنارے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ وہ نوجوان مسکرا دیا۔ اس نے کہا یہی تو مشکل ہے۔ چچا کو مسجد کی تلاش ہے۔

اوہ! میں نے ایک اونچا نعرہ لگایا۔ تم سوچتے ہو گے میں نے یہ نعرہ کیوں لگایا تھا؟ میں دراصل بہت خوش ہوا تھا۔ میں اس بات پر خوش ہوا تھا کہ میں پرتھ آسڑیلیا سے آیا ہوں اور یہ پاکستان ہی کے شہر کراچی سے آئے ہیں۔ مجھے معلوم تھا کہ جس جگہ ہم بیٹھے ہوئے ہیں وہاں سے مسجد کتنی دور ہے مگر ان کو نہیں معلوم تھا۔ میں نے انہیں کہا کہ چلو میں دکھاتا ہوں مسجد۔ وہ میرے ساتھ چلنے لگے۔ ہم مسجد کے قریب پہنچے تو میں نے یوں اشارہ کیا جیسے میرے ہاتھ کوئی ٹرافی لگی ہو۔ مگر میری حیرت کی انتہا تھی جب اس لڑکے کے چچا کے چہرے پر ناگواری کے اثرات ابھرے۔

میں نے پوچھا کیا ہوا؟ لڑکے نے بتایا کہ یہ مسجد نہیں ہے۔ میں نے انہیں یقین دلایا کہ یہ مسجد ہے۔ میں روز یہاں لوگوں کو عبادت کرنے کے لئے جاتا دیکھتا ہوں۔ مگر وہ واپس پلٹ آئے۔ میں نے اس نے نوجوان سے پوچھا کہ کیا واقعی مجھے غلط فہمی ہوئی ہے؟ کیا یہ مسجد نہیں ہے؟ اس نے کہا یہ مسجد تو ہے مگر کسی دوسرے فرقے کی مسجد ہے۔ میرے لئے یہ حیران کن تھا۔ میں نے پوچھا what‘s the diffrence؟ اس نے بہت ساری باتیں کیں مگر اس کے پاس کوئی جواب موجود نہیں تھا۔ اس کے چہرے پر وہی کیفیت تھی جو آپ کے چہرے پر جوتے کرسی کے نیچے چھپاتے ہوئے تھی‘۔ وہ مسکرا دیا۔

فرینک نے بتایا کہ وہ atheist ( ملحد) ہے۔ عموماً مجھے اس بات سے دلچسپی نہیں ہوتی کہ کسی شخص کا مذہب کیا ہے مگر میں اس آسڑیلوی ٹیگور کی باتیں سننا چاہتا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا تم کیا شروع سے ایک ملحد تھے؟ اس نے کہا، ’ نہیں نہیں! میں بڑا مذہبی تھا۔ میں ہر اتوار چرچ جاتا تھا۔ دراصل مجھے mountaineering ( پہاڑوں پر چڑھنا) کا شوق تھا۔ میں ایک دو بار بہت بری طرح گر کر زخمی ہوا تھا۔ میری ماں بہت سادہ خاتون تھیں۔ تمہیں معلوم ہے نا مائیں کیسی ہوتی ہیں۔ اس نے مجھے بہت منع کیا مگر یہ میرا شوق تھا۔ پھر میری ماں نے ہمارے چرچ کے پادری سے شاید کہا تھا کہ وہ مجھے ڈرائے۔

وہ پادری بھی پاگل تھا۔ اگلی اتوار کو اس نے مجھے سروس کے بعد بٹھا لیا۔ اس نے مجھے بتایا کہ مرنا کیا ہوتا ہے۔ مرنے کے بعد انسان کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ اس نے مجھے جہنم کے بہت سارے قصے سنائے۔ میں انہیں سن کر بہت پریشان ہوا۔ میں نے پہاڑ پر چڑھنا تو نہیں چھوڑا مگر پادری کی باتیں مجھے یاد رہیں۔ پھر میرا داخلہ سڈنی کی ایک یونیورسٹی میں ہوا۔ وہاں یونیورسٹی میں مجھے احساس ہوا کہ میں اب مذہب کو کچھ زیادہ پسند نہیں کرتا۔ میں نے چرچ جانا بھی چھوڑ دیا تھا۔ دو سال بعد جب میں واپس پرتھ آیا تو میری ماں مجھے زبردستی چرچ لے کر گئی۔ اس چرچ میں اب بھی وہی پادری تھا۔

میں سروس کے بعد اس کے پاس گیا۔ میں نے اسے یاد دلایا کہ اس نے مجھے دو سال پہلے کیا بتایا تھا۔ اسے سب یاد تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ کیا تم اب بھی ان باتوں پر یقین رکھتے ہو؟ یہ اس کے لئے ایک حیرت انگیز سوال تھا۔ اس نے جواب دینے کی بجائے الٹا مجھ سے سوال کیا کہ کیا تم نے ان باتوں پر یقین رکھنا چھوڑ دیا ہے؟ میں نے کہا جی مجھے اب ان باتوں پر یقین نہیں ہے۔ اس نے پوچھا کیوں؟ میں نے اسے بتایا کہ تمہارے جہنم کی سزائیں سن کر میں بہت ڈرا تھا۔ پھر میں نے اس پر تحقیق کی۔ مجھے محسوس ہوا کہ یہ سزائیں غیر انسانی ہیں۔ یہ غیر اخلاقی ہیں۔ خدا وند یسوع ایسا نہیں ہو سکتا۔ وہ انسان کو ایسی غیر انسانی اور غیر اخلاقی سزائیں کیوں دے سکتا ہے؟ اس کے پاس جواب نہیں تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ خداوند یسوع نے جنت بھی تو بنائی ہے۔ میں نے اسے کہا جی میں اس کے بارے میں پڑھ چکا ہوں۔ اس کے انعامات بھی غیر عقلی، غیر انسانی اور غیر اخلاقی ہیں۔ وہ پادری بڑا ناراض ہوا۔ اسے شدید غصہ آیا‘۔

فرینک نے پوچھا کیا آپ کے ہاں بھی پادری ایسے ہی غصہ کرتے ہیں؟ میں نے بات ٹالنے کو کہا ہمارے ہاں پادری نہیں ہوتے۔ فرینک کھڑا ہوا۔ اس نے ایک ٹانگ پر گول گول گھوم کر ناچنا شروع کیا۔ پھر میری طرف جھک کر شرارت بھری آنکھوں سے پوچھا

’what’s the difference? ‘۔

اس سے آگے کی کہانی پھرسہی۔ ہوا یوں کہ بھارتی آرمی چیف نے جنگ کی دھمکی۔ ہم نے ایک قدم آگے بڑھ کر ایٹمی جنگ کی دھمکی دے دی۔ ادھر زمین کا سچ یہ ہے کہ لکیر کے دونوں جانب بھوک، افلاس، غربت اور بیماریوں کا ننگا ناچ جاری ہے۔ ایسے میں بے طرح فرینک کا سوال یاد آیا کہ
what‘s the difference؟

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah