۔۔۔۔ اور نظر لگ گئی!


سنتے آئے ہیں کہ ہونسنے والوں کی نظروں سے بڑے بڑے بادشاہ تاج وتخت سے محروم ہو گئے۔ جلنے والوں کا یہ ہے کہ بس جلے جاتے ہیں بے وجہ۔ میڈیا والوں ہی کی بات کر رہی ہوں، کتنا سمجھایا کہ دیکھو، انقلاب آ گیا ہے، اب سب ٹھیک ہونے والا ہے وہ دن آگیا جس کا وعدہ تھا۔ دو سو ارب روپے خزانے میں جمع ہو چکے ہیں مودی کا یار، سلاخوں کے پیچھے جا چکا ہے۔ راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔

نئی حکومت کی 30 روزہ کارکردگی دکھائی، گورنر ہاؤس کی سیر کرائی، وزیر اعظم ہاؤس کے باتھ ٹب جھنکوائے، سرکاری گاڑیاں نیلام کیں، بھینسیں بیچ ڈالیں، لیکن ان تشکیک پسندوں کے چہروں پہ مسکراہٹ نہ آئی۔ نہ ڈیم کے لئے ہمارا جوش و خروش انہیں راضی کر سکا، نہ ہی فیض الحسن چوہان اور فواد چودھری صاحب کی من موہنی صورتوں سے ان کے دل نرم ہوئے۔

ایک ساں، بری بری باتیں کیے جارہے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں، ہیلی کاپٹر کیوں استعمال ہوا، کبھی کہتے ہیں جہاز کیوں استعمال ہوا، کبھی کچھ تو کبھی کچھ۔ حلف اٹھانے سے لے کر، وزیرِ اعظم صاحب کے سعودیہ عرب جانے تک ان کو ہر ہر بات پہ اعتراض رہا۔ یہ بھی سنتے آئے ہیں کہ کسی کو ہر وقت برا برا کہے جاو تو ٹوک لگتی ہے، بنتے کام بگڑ جاتے ہیں۔ بڑے کہہ گئے ہیں، شکل اچھی نہ ہو تو بات ہی اچھی کر لو مگر بھئی ، یہاں تو حد ہی ہو گئی۔

حسد اور بد زبانی کا یہ طوفان اس وقت تھما جب ، ادھر تو خان صاحب ایک ’ضروری کام‘ سے سعودیہ عرب گئے اور ادھر، سابق وزیرِ اعظم، رہا ہو گئے۔ رہائی کا یہ معاملہ، چل ہی رہا تھا کہ ہندوستان سے ملاقات کا سلسلہ، چل نکلا۔ بدنظروں کی کالی نظریں ایسی لگیں کہ ہندوستان نے ملاقات سے انکار کر دیا۔

وزیرِ اعظم صاحب، نے جواب میں ٹوئیٹر پہ ایسا کرارا جواب دیا کہ اش اش کر اٹھیے۔ دو پڑوسنوں کی لڑائی کا بہت شہرہ سنا تھا ان میں سے جو جیتا کرتی تھیں، ان کے بارے میں مشہور تھا کہ باتوں باتوں میں ایسی چٹکی لیتی تھیں کہ سامنے والا نہ دکھانے جوگا رہتا تھا نہ سہلانے جوگا۔ کچھ ایسی ہی ٹوئیٹ ہم نے کی۔ ایک جملے ہی میں اگلے پچھلے توم کے رکھ دئیے۔

اب قسمت کی خرابی کہیے یا وہی بد نظر دانشوروں کی گندی نظر، جواب میں ان کی فوج نے دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ جب لڑائی، ٹوئیٹر پہ ہو رہی تھی تو بات یہیں تک رکھتے، مگر ہیں نا باؤلے، بات بڑھا کہ مردوں کے منہ میں ڈال دی۔ اب یہاں سے بھی فوج نے تگڑا جواب دیا۔ 24 گھنٹے کے اندر اندر، دونوں ملک ایک بار پھر تاریخ کے نازک موڑ پہ آ کھڑے ہوئے۔ سوشل میڈیا پہ تلواریں سونت لی گئیں اور توپوں کے رخ بدل کے سرحد کی طرف کر دئیے گئے۔

نیلامی

خزاں کا موسم، جنگ کے لیے بڑا اچھا ہے۔ جی بھر کے ٹویٹس کریں گے۔ یوں بھی سردیاں آ تے ہی، سوشل میڈیا پہ شاعروں کا اجارہ ہو جاتا ہے یہ موسم، عشقیہ اور ڈیڑھ عشقیہ غزلوں نظموں کا موسم ہوتا ہے۔ اس موسم میں دونوں ملکوں سے میٹھی میٹھی شاعری کی جاتی ہے۔ اس لیے اس زمانے میں جنگ بندی کر لی جائے گی۔

حقیقی جنگ کا ایسا ہے کہ ہمیں شوق تو بہت ہے لیکن ہم لڑ نہیں پائیں گے۔ کیونکہ عین وہ موسم، جس میں ہم جنگ کرنا چاہتے ہیں، ان دنوں دونوں ملک، شدید آ لودگی کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ دھندھواں بڑھ کے دونوں ملکوں کے کئی علاقوں کو ڈھانپ لیتا ہے۔ یہ ایسا ڈھیٹ موسمی تغیر ہے کہ واہگے، اٹاری کی تمیز نہیں کرتا نہ ہی اسے لاہور، دہلی کی پہچان ہے۔ اسے بس اپنے بھورے پنجے پھیلا کے سورج کے سامنے کھڑا ہونا ہے۔

دیہاتی علاقوں میں جب کوئی شخص بھینسیں بیچنے پہ اتر آتا ہے تو سب کو بغیر کہے سنے اندازہ ہو جاتا ہے کہ اب اس کی مالی حالت بہت پتلی ہے۔ اس لیے، وضع دار دیہاتی، حتی الامکان کوشش کرتے ہیں کہ مال مویشی نہ ہی بکیں اور اگر کبھی ایسا وقت آ جاتا ہے تو اسے منحوس خیال کیا جاتا ہے۔

اب ایسا ہے کہ، مریم نواز کے اسمبلی میں آنے اور اپوزیشن لیڈر بننے کے امکانات اور جنگ کے کالے کوے اکٹھے اڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔ نئی حکومت کو چاہیے کہ فورأ ہی کالے بکرے ذبح کرائے، گندی نظروں سے بچنے کو گنڈے پڑھوائے اور سات مرچیں وار کے چولہے میں جلائے اگر دھانس نہ اٹھے تو سو فیصد نظر ہے اور ایسا ہی ہو گا ورنہ، اس ٹوئیٹ کے بعد ان کی یہ مجال تھی کہ سر اٹھاتے ؟ نظر ہے، کہے دیتے ہیں، گندی نظر!

پنجاب


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).