ہوش کے ناخن اب بھی نہ لئے تو کب؟


<

p dir=”rtl”>

بحران ایسا کہ سنبھالے نہیں سنبھل رہا۔ سیاسی انتشار ہو، معاشی ابتلا یا پھر ریاستی بندوبست سب بیک وقت الجھاؤ میں ہیں۔ اور سرا ہاتھ نہیں آ رہا کہ ماضی کی سب تدبیریں الٹ پلٹ ہو گئیں، نہ پرانے نسخے کسی کام کے رہے اور نہ ایسی کوئی سوجھ جو نئی راہ سجھا دے۔ غرض ہر کوئی اپنی اپنی دھن کی بے فکری میں مگن اور مارنے مرنے پہ تیار۔ اب اگر عمران خان دیواروں سے سر ٹکرانے کی بجائے ساتھ بیٹھنے پہ مائل ہو رہے ہیں تو وقت پہ انتخابات کی ضد کوئی کس برتے پہ کرے جب معیشت کی کوئی کل سیدھی ہونے کی امید نہیں۔

پی ڈی ایم کی جماعتوں کو عدم اعتماد کی کامیابی گلے پڑ گئی ہے اور وہ گلے پڑا ڈھول کب تک بجا پائیں گی۔ سیاسی حریف اپنی اپنی چالیں چلتے نڈھال ہوئے جاتے ہیں مگر سیاسی اناؤں کی اسیری میں بدحال مملکت کو درپیش بحران ایسا لاینحل ہے کہ سب کی سٹی گم ہوئی لگتی ہے۔ سیاسی سرکس کا تماشا ایسا لگا ہے کہ حقیقی وجودی بحران اور معاشی دیوالیہ سب کو لپیٹنے جا رہا ہے اور المیہ ہے کہ کسی کو فکر لاحق نہیں۔ سیاسی بحران تو کوئی بڑا معمہ نہیں، اگر عمران خان انا کی بلند ترین چوٹی سے نیچے اتر آئیں اور اتحادی حکومت کسی بڑے معجزے کی امید ترک کردے تو ایک عملی حل نکل سکتا ہے۔

انتخابات اکتوبر میں نہ سہی، کچھ پہلے کر لینے میں کیا حرج ہے۔ ویسے بھی اگلے برس جون میں بجٹ پیش کرنے کی اتحادی حکومت متحمل نہیں ہو سکتی، یہ بلا عبوری حکومت کے سر منڈھ دی جائے تو اسی میں سب کی عافیت ہے۔ کیا عمران خان مارچ /اپریل میں انتخابات کروا کر، کامیابی کی صورت میں اگلا بجٹ پیش کرنے کے متحمل ہوسکتے ہیں جو اتنا جلد انتخابات پہ اصرار کر رہے ہیں۔ میرا وجدان ہے کہ درمیانی مدت پہ اتفاق ہو سکتا ہے۔ مئی کے آخر تک سب اسمبلیاں اتفاق رائے سے تحلیل کر کے جون میں 90 روزہ عبوری حکومت پہ اتفاق کر لیا جائے جو اگست میں انتخابات کا انعقاد کروا دے۔

فقط انتخابات کی تاریخ پہ اتفاق کافی نہیں ہو گا۔ آزادانہ و منصفانہ انتخابات پہ سبھی جماعتوں میں اتفاق رائے ضروری ہو گا تاکہ انتخابات کے نتائج پہ نیا سیاسی جھگڑا نہ کھڑا ہو جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشی و سلامتی کی پالیسیوں پہ بھی کڑوی گولیاں کھانے پہ سب کو تیار ہونا ہو گا۔ جس معاشی ناپائیداری کی وارننگ ایک عرصہ سے ان کالموں میں دی جا رہی تھی، وہ بدقسمتی سے پورے کروفر کے ساتھ آ پہنچا ہے اور اس کا کوئی فوری حل نہیں۔ اس کے لئے ایمرجنسی اقدامات کے ساتھ ساتھ درمیانی اور لمبی مدت کے حقیقی اصلاحی اقدامات اور منصوبہ سازی کی ضرورت ہے۔ پھر بھی اگلی دوچار حکومتیں معاشی بحران کو سنبھالنے میں خرچ ہوتی نظر آ رہی ہیں۔

سوال اور چیلنجز بڑے ہیں اور حل دشوار اور پیچیدہ تر۔ پہلا بڑا چیلنج یہ ہے کہ پاکستان قومی سلامتی کی عسکریت پسند ریاست کے طور پر برقرار نہیں رہ سکتا۔ پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر 7 ارب ڈالرز ہیں اور بھارت کے 600 ارب ڈالرز سے اوپر ہیں۔ افغان جہاد اسٹرٹیجک گیرائی کی بجائے گہری کھائی بن گیا ہے۔ اب تو افغان طالبان نے پاکستان کے پورے شمال مغربی علاقے کے ساتھ ساتھ کشمیر تک افغان راجدھانی کے ابدالی خواب کا نقشہ بھی شائع کر دیا ہے اور تحریک طالبان پاکستان اور برصغیر کی داعش نے غزوہ ہند کا آغاز پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے جہاد سے شروع کر دیا ہے، جبکہ جاری دفاعی بجٹ کے لئے قرض ملنے کی امید کم ہی ہے اور اگر کچھ ملا بھی تو کن شرائط پر؟

سب سے پہلے تو دفاعی کمر کسنے کی ضرورت ہوگی اور طاقتور اس پر راضی ہوں گے بھی یا نہیں۔ ملک کے اندر جاری شورشوں کا سیاسی حل تلاش نہ کیا گیا تو پھر بیرونی طاقتوں کے کھل کھیلنے کے مواقع بڑھ جائیں گے۔ رہا ہائبرڈ سیاسی نظام تو اس کا خمیازہ اس کے موجد بھگت چکے، اس کی نوک پلک سنوارنے کی بجائے سیاست سے کنارہ کشی کا اداراتی تقاضا بڑا چیلنج ہو گا۔ شکر ہے کہ نئے آرمی چیف صفحہ اول سے غائب ہیں اور آئی ایس پی آر نئی تعیناتیوں پہ بھی خاموش ہے۔

فوج کو سول معاملات سے علیحدہ کرنے اور کارپوریٹ دائرہ عمل کو محدود تر کرنے میں ہی سول سوسائٹی کی عافیت ہے۔ دوسرا بڑا چیلنج پاور اسٹرکچر سیاسی معیشت کو بدلنے اور اسے آئین سے ہم آہنگ کرتے ہوئے ریاست کے اندر متوازی ریاست کو خیر باد کہنے کے لئے اداراتی اصلاحات کی ضرورت ہوگی جس کے لئے پہل افواج پاکستان ہی کو کرنی ہوگی۔ تیسرا بڑا چیلنج دست نگری، مفت خوری و کرایہ خوری اور قرض خواہی کو خیر باد کہتے ہوئے پیداواری معیشت کے ڈھانچے میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہوگی۔

ایسی برآمدات، جو درآمدات پہ انحصار کریں، کے ہوتے ہوئے اور اعلیٰ قدر کی برآمدات اور ان کا تنوع بڑھائے بنا کرنٹ اور بجٹ خسارہ کم نہ ہو گا اور نمو کے ساتھ خساروں کے چکر سے نکلنا محال ہو گا۔ ہماری زراعت فرسودہ جاگیردارانہ رشتوں اور دقیانوسی طرز پیداوار کے ہوتے ہوئے آگے نہیں بڑھ سکتی، نہ ہی کرایہ خوری معاشی کاروبار کو آگے بڑھنے دے گی۔ جدید سائنسی و تکنیکی بنیاد کے بغیر صنعتی ترقی بھی ماند رہے گی۔ جبکہ قرض خوری اور پبلک سیکٹر کی بدحالی سے جان خلاصی کے لئے بڑی سخت گیر پالیسی درکار ہوگی۔ اصل مرکز عوام کی ترقی اور سلامتی ہے جس کے لئے سماجی شعبہ جات کی ترقی کے ساتھ ساتھ تعلیم و ہنر مندی کے فروغ کے بغیر بے کار نوجوانوں کا جم غفیر طوائف الملوکی کا ایندھن تو بن سکتا ہے کار آمد نہیں ہو سکتا۔ غرض یہ کہ ہر شعبہ ریاست اور اس کے تینوں ستونوں کی اصلاح کی ضرورت ہے۔

آخری سوال اور چیلنج جو شاید پرنسپل تضاد ہے وہ ہے سول ملٹری تعلقات جس کا آئین کی روح کے مطابق از سر نو تعین ضروری ہے۔ اس میں پہلی شرط تو یہ ہے کہ افواج ماسوا دفاع کے تمام معاملات سے خود کو سختی سے علیحدہ کریں اور دوسری شرط یہ ہے کہ سیاستدان افواج کو سیاست میں ملوث کرنے کی بجائے اپنے معاملات آپس میں افہام و تفہیم سے حل کرنے کی نہ صرف کوشش کریں بلکہ تمام اسٹیک ہولڈرز اور سیاسی و سماجی قوتوں کے مابین ایک نئے میثاق کی بنیاد ڈالیں۔

پیپلز پارٹی اور نون لیگ میں جو میثاق جمہوریت ہوا اور جس جمہوری دور کا آغاز ہوا تھا، اسے ہائبرڈ سیاسی نظام سے الٹ دیا گیا۔ اب ہائبرڈ نظام کا تجربہ بری طرح سے فیل ہونے پر پھر سے جمہوری و آئینی راہ پہ پلٹنا ہو گا۔ ورنہ بحران در بحران ہمارا مقدر رہے گا اور جانے یہ کہاں جاکر ختم ہو۔ ہوش کے ناخن اب بھی نہ لئے تو کب؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

امتیاز عالم

بشکریہ: روزنامہ جنگ

imtiaz-alam has 58 posts and counting.See all posts by imtiaz-alam

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments