ڈیانا کی خودکشی اور ہنزہ میں ان کی یاد میں بننے والا سکول


اس 85 سالہ امریکی خاتون نے پاکستان میں سکول تعمیر کروادیا کیونکہ اس کی بیٹی۔۔۔ اس کام کی اصل وجہ جان کر ہر پاکستانی کی آنکھوں سے آنسو نکل آئیں گے

پچیس سال قبل کی بات ہے کہ امریکا سے ایک نوجوان خاتون سیر کے لئے پاکستان آئیں اور شمالی علاقہ جات کے علاقے ہنزہ بھی گئیں۔ جنت نظیر وادی کی خوبصورتی نے 39سالہ الزبتھ شورسین کو اپنے حسن میں ایسا جکڑا کہ وہ یہیں کی ہو کر رہ گئیں۔ انہوں نے ہنزہ میں ہی قیام کر لیا اور وہاں ایک مقامی سکول میں بچوں کو پڑھانے لگیں۔ اگلے سال 1994ء میں انہیں ویزے کے کچھ مسائل کے باعث امریکا جانا پڑا مگر وہ جلد سے جلد واپس پاکستان آنا چاہتی تھیں۔ پھر نجانے اُن کے ساتھ کیا المیہ پیش آیا کہ ہنزہ کی وادی میں لوٹ کر آنے کی بجائے انہوں نے امریکا میں قیام کے دوران ہی خودکشی کر لی اور موت کی وادی میں جا پہنچیں۔

الزبتھ کی معمر والدہ ڈیانا میکارتھر کا کہناہے کہ ان کی بیٹی کو ڈپریشن کی بیماری کا سامنا تھا اور اسی بیماری کے سبب اس نے خود کشی کرکے اپنی زندگی ختم کرلی، مگر وہ کہتی ہیں کہ اُن کی بیٹی نے اپنی زندگی کا خوبصورت ترین وقت ہنزہ میں گزارا۔ ڈیانا اپنی بیٹی کی محبوب جگہ کو دیکھنے کے لئے 2007ء میں پاکستان آئیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جب ہنزہ گئیں تو انہیں فوری طور پر اس جگہ کے ساتھ ایک گہرا تعلق محسوس ہوا، جو یقیناًان کی بیٹی کی اس جگہ سے محبت کی وجہ سے تھا۔

ڈیانا نے اپنی بیٹی کی یاد میں ہنزہ کے لوگوں کیلئے کچھ کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ اس سکول میں گئیں جہاں ان کی بیٹی پڑھاتی رہی تھی۔ اس سکول کے پاس اپنی عمارت نہیں تھی لہٰذا انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ یہاں کے بچوں کیلئے ایک بہترین عمارت تعمیر کروائیں گی۔ انہوں نے اگلے 10سال کے دوران اپنی ذاتی توجہ اور دلچسپی کے ساتھ سکول کی شاندار عمارت تعمیر کروائی اور اس دوران 20دفعہ پاکستان کے دورے پر آئیں۔

یہ ایک خوبصورت اور جدید ترین سہولیات سے مزین عمارت ہے اور گلگت بلتستان کے علاقے میں پہلی عمارت ہے جو زلزلہ پروف ہے۔ اس سکول میں 400 طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں جبکہ ابھی مزید 300 کی گنجائش موجود ہے۔ سکول کی تعمیر اب ہر لحاظ سے مکمل ہوچکی ہے اور اسے آغا خان فاؤنڈیشن کے حوالے کیا جائے گا تاکہ اس کا اعلیٰ معیار ہمیشہ برقرار رکھا جا سکے۔ سکول کی نئی عمارت کا افتتاح ڈیانا نے کیا اور اس موقع پر ان کا کہنا تھا ’’مجھے یقین ہے میری بیٹی ہمیں دیکھ رہی ہو گی اور آج اُس کی روح بہت خوش ہو گی۔ ‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).