ایک بے ٹکٹے سے ملاقات


ریل گاڑی کا سفر میرا بچپن کا شوق ہے اسی لیے جب گرین لائن ٹرین راولپنڈی جنکشن کا پلیٹ فارم چھوڑ رہی تھی تو میں کھڑکی کے شیشے سے ناک ٹکائے محو نظارہ تھا۔ اس کیبن میں میرے علاوہ اور کوئی مسافر موجود نہ تھا اور یہ بات میرے لیے خوشی کے ساتھ ساتھ باعث تعجب بھی تھی کیونکہ مجھے تو یہ بتایا گیا تھا کہ ریل گاڑی میں کوئی سیٹ میسر ہی نہیں ہے۔

پچھلے کالم میں ذکر کیا تھا کہ کیسے ریلوے نے 830 روپے کا جبری عطیہ وصول کر کے غالباً ڈیم فنڈ کے حوالے کیا تھا۔ ذہن اسی ادھیڑ بن میں مصروف تھا اور نظریں بلا مقصد پٹڑیوں پر بھٹک رہی تھیں۔ احساس ہی نہ ہوا کہ کب ریل گاڑی چکلالہ ریلوے اسٹیشن پر پہنچی اور کب وہاں سے نکلی۔ بے وجہ کے ارتکاز میں خلل تب پڑا جب کوئی کیبن میں دراتا چلا آیا۔ میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ وہ ایک باریش اور شکل سے مسکین دکھنے والا نوجوان تھا۔

اس کے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار نمایاں تھے۔ ایک چھوٹا سا سفری بیگ اس نے کیبن کے فرش پر رکھا اور لڑھکا کر اس سیٹ کے نیچے کر دیا جس پر میں تشریف کو رکھے ہوئے تھا۔ نوجوان کے انداز میں عجیب سی ہچکچاہٹ اور اعصاب پر بے چینی کے آثار نمایاں تھے۔ میں اس کی حرکات و سکنات کو خاموشی سے دیکھتا رہا۔ جب اس نے دیکھا کہ میری توجہ اسی پر مرکوز ہے تو وہ پھیکے پھیکے انداز میں مسکرایا اور مجھ سے میری منزل کی بابت دریافت کیا۔ میں نے روکھے لہجے میں اسے بتایا کہ منزل کراچی ہے۔ وہ نوجوان بھی کراچی ہی جانا چاہ رہا تھا۔

اس کی بے چینی اور گھبراہٹ نے میرے ذہن میں پاکستان میں ہوئے خود کش حملوں کو تازہ کر دیا۔ میں دل ہی دل میں یاد کرنے لگا کہ اب تک پاکستان میں ریل گاڑیوں پر کتنے خود کش حملے ہو چکے ہیں۔ باوجود ذہن پر انتہائی زور دینے کے، ایسا کوئی خود کش حملہ مجھے یاد نہ آیا البتہ ریل گاڑیوں کی ٹکریں اور پٹڑیوں سے اترنا یاد آنا شروع ہو گیا۔ پھر یاد آیا کہ ایک ریل کار سوہاوہ کے نزدیک کھائی میں جا گری تھی۔ کھڑکی سے باہر نظر پڑی تو ریل گاڑی کی رفتار دیکھ کر میں نے دل ہی دل میں استغفار پڑھنا شروع کر دیا۔ میری اس کیفیت کو نوجوان نے بھی محسوس کر لیا۔ وہ اداس انداز میں مسکرایا اور جھک کر اپنے جوتوں کے تسمے کھولنے شروع کر دیے۔

ابھی وہ تسمے کھول کر سیدھا ہی ہوا تھا کہ کیبن کے دروازے پر ٹکٹ چیکر اور ایک ریزرویشن گارڈ نمودار ہوئے۔ انہیں دیکھ کر کچھ ڈھارس بندھی۔ انہوں نے بد حواس نوجوان سے ٹکٹ طلب کیا تو نوجوان نے مسکین سی آواز میں بتایا کہ اس کے پاس ٹکٹ نہیں ہے اور وہ کراچی جانا چاہتا ہے۔ اس کے پاس ٹکٹ نا ہونے کا سن کر میرے کان کھڑے ہو گئے۔ غصہ بھی آیا کہ میں خوامخواہ ایک بے ٹکٹے سے سہما بیٹھا تھا۔

جب گارڈ نے ٹکٹ کی رقم اس نوجوان کو بتائی تو اس کے چہرے پر مایوسی کے تاثرات ابھرے اور پھر اس نے بتایا کہ اس کے پاس اس قدر رقم موجود نہیں ہے اس لیے اسے اکانومی کلاس کے ڈبے میں کوئی سیٹ دے دی جائے۔ یہ سن کر ٹکٹ چیکر اور گارڈ نے آپس میں کچھ مشورہ کرنا شروع کر دیا۔ اسی وقت ریل گاڑی کی رفتار آہستہ ہونی شروع ہوئی اور جلد ہی ایک دھچکے سے ریل گاڑی رک گئی۔ ٹکٹ چیکر اور گارڈ نے بے ٹکٹے کو کچھ دیر وہیں بیٹھے رہنے کی ہدایت کی اور وہاں سے چل دیے۔ ان کے جاتے ہی نوجوان فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور مجھ سے درخواست کی کہ اس کے جملہ سامان کا خیال رکھا جائے اور وہ اکانومی کلاس کے ڈبے کا جائزہ لے کر واپس آتا ہے۔

ایک تو ریل گاڑی سنسان علاقے میں رکی ہوئی تھی اور دوسرا میں جان چکا تھا کہ وہ ایک عدد بے ٹکٹا ہے لہٰذا میں نے نہ صرف یہ کہ اس کی درخواست کو مسترد کر دیا بلکہ احتیاطاً اس سے پوچھ بھی لیا کہ کہیں اس کے سامان میں کوئی بم وغیرہ تو نہیں ہے۔ نوجوان نے بے چارگی سے میری طرف دیکھا اور پھر جھجھکتے ہوئے بتایا کہ وہ ایک سرکاری ملازم ہے اور بہ امر مجبوری اس ریل گاڑی میں چڑھ آیا ہے کیونکہ اس کا کراچی پہنچنا بے حد ضروری تھا۔

ایک بے ٹکٹے کی بات پر میں کیسے یقین کر سکتا تھا۔ میں نے اسے وہاں سے بغیر سامان نہیں جانے دیا۔ کچھ ہی دیر میں ٹکٹ چیکر اور سیٹ گارڈ واپس لوٹے اور اس نوجوان کا اکانومی کا ٹکٹ کاٹ دیا۔ راولپنڈی سے کراچی اکانومی کلاس کا ٹکٹ 2060 روپے کا تھا مگر ٹکٹ 2380 روپے کا کاٹا گیا۔ میں نے دل ہی دل میں ڈیم فنڈ کا نعرہ لگایا۔ گارڈ نے نوجوان کو اکانومی کے واحد ڈبے میں جانے اور وہاں ٹوائلٹ کے ساتھ پڑے ہوئے ایک ڈرم پر بیٹھنے کی ہدایت کی اور پھر وہ نوجوان اپنا سامان اٹھا کر مجھے دیکھتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔ ایک بار پھر کیبن میں میرا راج تھا۔

زیادہ دیر نہیں گزری کہ ٹکٹ چیکر اور سیٹ گارڈ اسی کیبن میں آ گئے اور بیٹھ گئے۔ ان سے گپ شپ شروع ہوئی تو ایک دلچسپ انکشاف ہوا کہ اس دن ریلوے کا ریزرویشن کا سارا کمپیوٹر سسٹم بیٹھ گیا تھا اور گارڈ کو راولپنڈی سے کسی قسم کا کوئی ریکارڈ مہیا نہیں کیا گیا تھا۔ اس صورت حال کا حل انہوں نے یہ نکالا تھا کہ پوری ریل گاڑی میں سفر کرنے والوں کے ٹکٹوں (ریزرویشن، ایس ایم ایس، آن لائن اور یو بی ایل اومنی وغیرہ) کی اپنے موبائل فون سے تصویریں اتار کر محفوظ کر لی تھیں اور اب میرے والے کیبن میں بیٹھ کر ان کی تفصیلات کو کاغذ پر منتقل کرنے والے تھے۔

یہ ایک دلچسپ صورت حال تھی۔ ٹکٹ چیکر اور گارڈز کو یہ علم ہی نہیں تھا کہ کون سی سیٹ پر کون سا مسافر سفر کر رہا ہے۔ انہوں نے تفصیلات کو کاغذ پر اتارنا شروع کر دیا۔ میں بھی اس کام میں ان کے ساتھ شریک ہو گیا اور ایک کاغذ سنبھال لیا۔ ساتھ ساتھ گپ شپ چلتی رہی۔ اس دن مجھے ریل گاڑی کے گارڈز کے بارے میں دلچسپ معلومات حاصل ہوئیں۔ جب آخری مسافر کی تفصیلات بھی کاغذ پر درج کر دی گئیں تو میں نے کھڑکی سے باہر نظر ڈالی۔
گرین لائن ٹرین لاہور ریلوے اسٹیشن میں داخل ہو رہی تھی۔

ڈیم فنڈ کو 830 روپے کا جبری عطیہ

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad