نریندر مودی کے لئے پاکستان دشمنی ایک نعمت ہے


The Prime Minister, Shri Narendra Modi being received by the President of France, Mr. Francois Hollande,  in Paris, France on November 30, 2015.

بھارت کے آرمی چیف کے اشتعال انگیز بیان پر پاکستان میں شدید رد عمل دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ رد عمل قابل فہم بھی ہے لیکن بھارتی بیان کو اگر بھارت میں رونما ہونے والے سیاسی طوفان اور مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی اور بھارتی سیکورٹی فورسز کی مجبوریوں کے پس منظر میں دیکھا جائے تو صورت حال کو آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے بھارت کے ساتھ مفاہمت کے لئے تحریک انصاف کی سفارتی کوششوں کو قبل از وقت اور نادانی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے ہمسایہ ملک کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لئے ہوم ورک نہیں کیاتھا۔ جس کی وجہ سے اسے ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت کے پاکستان کو سبق سکھانے اور تکلیف پہنچانے کے بیان کے بعد دونوں پارٹیوں نے جس طرح پاک فوج کے ساتھ اظہار یک جہتی کے نام پر مسلح افواج کی توصیف میں قلابے ملائے ہیں ، اس سے پاکستان کی سیاسی صورت حال کو سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔

پاکستان کے سیاسی مبصر ہفتہ گزشتہ کےدوران وزیر اعظم عمران خان کے دورہ سعودی عرب و متحدہ عرب امارات اور پاک فوج کےسربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورہ بیجنگ کے حوالے سے سول ملٹری تعلقات میں مثالی ہم آہنگی نام کی دور کی کوڑی بھی تلاش کرتے رہے تھے۔ لیکن بھارت کے ساتھ معاملات کے حوالے سے عمران خان کی پیش رفت اور بیانات کو ان کی نادانی اور ناتجربہ کاری قرار دینا بھی ایک دلچسپ پہلو لئے ہوئے ہے۔ پاکستانی سیاست میں یہ کھیل بہت پرانا ہے۔ کسی سیاسی، سفارتی یا مالیاتی غلطی کی ساری ذمہ داری سول حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے جبکہ کسی بہتر اور مثبت کوشش کا کریڈٹ فوج کی ہمت و شجاعت اور دور اندیشی کو دیا جاتا ہے۔

حکومت کی سب سے بڑی غلطی یہی ہے کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ جس پالیسی کا سہرا تبدیل شدہ قومی حکمت عملی کے نام پر وہ اپنے سر باندھنے کی کوشش کررہی ہے، اس کا تجربہ ماضی میں متعدد بار کیا جاچکا ہے۔ سول ملٹری تعلقات کا ہنی مون پیریڈ اسی وقت تک چلے گا جب تک عمران خان خارجہ اور سیکورٹی معاملات میں فوج کی غلطیوں کا بار اٹھاتے رہیں گے اور ان کی اصلاح کا کوئی ایجنڈا تیار کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ جب تک سول وزیر اعظم اہم قومی معاملات کو جی ایچ کیو سے پارلیمنٹ میں لانے کی بات نہیں کرے گا ، اس وقت تک کوئی اختلاف پیدا نہیں ہو گا اور سول حکومت کا سربراہ قوم کا نجات دہندہ قرار دیا جاتا رہے گا۔ لیکن مسائل کا بوجھ اور عوام کی پریشانیوں سے نڈھال ہوتی ہر حکومت بالآخر اس مقام تک پہنچتی ہے جہاں اسے فوج سے کچھ سپیس مانگنی پڑتی ہے۔ جب جنگ، فوجی مصارف اور دشمنی نبھانے کے لئے صرف کئے جانے والے وسائل میں سے کچھ حصہ قومی بہبود کے منصوبوں کے لئے درکار ہوتا ہے۔ لیکن ہر بار وہی پرانی تصویر سامنے آتی ہے جس میں کوئی بپن راوت کسی ولن کی طرح سرحدوں کو پامال کرنے کے لئے للکارتا ہے اور پاک فوج کو اس کا مقابلہ کرنے کے لئے ’ قوم کا پیٹ کاٹ کر‘ دشمن کا منہ کھٹا کرنے کے لئے تیار ہونا پڑتا ہے۔

جنرل بپن راوت کا جذباتی حماقت کی حدوں کو چھوتا ہؤا بیان دراصل بھارت کے سیاسی منظر نامہ کا پیش لفظ دکھائی دیتا ہے۔ اس بیان کے الفاظ خود ہی اپنی اصل کہانی بیان کرنے کے لئے کافی ہیں لیکن پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کے متوازن اور غیر جذباتی جوابی بیان نے اس بیان کے غبارے سے بڑی حد تک ہوا نکال دی ہے۔ جنرل بپن راوت نے کل وزیر اعظم عمران خان کے بھارتی قیادت کے بارے میں تلخ اور ہتک آمیز ٹویٹ پیغام کے بعد یہ دھمکی آمیز بیان جاری کیا تھا۔ وزیر اعظم نے پاک بھارت وزرائے خارجہ کی ملاقات منسوخ کرنے پر بھارتی قیادت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ اپنی پوری زندگی میں نے ادنیٰ لوگوں کو بڑے بڑے عہدوں پر قابض ہوتے دیکھا ہے۔ یہ لوگ بصارت سے عاری اور دور اندیشی سے یکسر محروم ہوتے ہیں‘۔

اس بیان کا جواب بھارتی حکومت کی بجائے بھارتی فوج کے سربراہ کو دینا پڑا کیوں کہ ایک تو مودی سرکار 2016 میں فرانس سے 36 رافیل طیارے خریدنےکے معاہدہ کے سوال پر سخت مشکل کا شکار ہے اور دفاعی پوزیشن میں ہے، دوسرے بھارتی فوج کے سربراہ نے طاقت ور وزیر اعظم نریندر مودی کے مشکل وقت میں ان کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لئے کمک فراہم کرنا ضروری سمجھا۔ گو کہ جنرل راوت کا کہنا ہے کہ وہ سیاسی معاملات میں نہیں بولنا چاہتے لیکن ان کے بیان کا ایک ایک لفظ سیاسی پیغام لئے ہوئے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ ہمیں دہشت گردوں اور پاکستان کی بربریت کا جواب دینے کے لئے سخت قدم اٹھانا ہوگا۔ وقت آگیا ہے کہ انہیں انہی کے طریقوں سے جواب دیا جائے ۔۔۔ اگرچہ ویسی بربریت سے نہیں۔ لیکن میرا کہنا ہے کہ فریق مخالف کو بھی درد محسوس ہونا چاہئے (جو وہ ہمیں پہنچاتے ہیں)۔ اس صورت میں بھارت کا واضح مؤقف ہے کہ دہشتگردی اور مذاکرات ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے‘۔ کوئی فور اسٹار جنرل کسی وزیر اعظم کی اس سے زیادہ کیا خوشامد کرسکتا ہے۔

اہل پاکستان کے لئے بھارتی دھمکی پر پریشانی سے زیادہ یہ امر خوشی کا سبب ہونا چاہئے کہ بھارتی فوج بھی سیاسی معاملات میں دلچسپی لےکر سرحد پار اپنے مد مقابل فورسز سےسبق سیکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ البتہ یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ بھارتی فوج کا سربراہ سیاسی حکومت کے سربراہ کے بارے میں ویسا ہی لب و لہجہ اختیار کررہا ہے جو پاکستان میں عام طور سے سیاست دان فوج کے بارے میں کرتے ہیں۔ جنرل بپن کے بیان پر لطف دو بالا کرنے کے لئے اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت اور اس وقت عسکری و عدالتی اداروں کے عتاب کا شکار مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کا جوابی ٹویٹ پڑھنا ضروری ہے۔ اس ٹویٹ سے دشمن کے مقابلے میں قومی یک جہتی کے اظہار کے علاوہ قومی امور میں سیاست دانوں کی حیثیت و ذہنی استعداد کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’بھارتی آرمی چیف کا جارحانہ اور غیر ذمہ دارانہ بیان بھارت کے عزائم کو کل عالم کے سامنے آشکارکرتا ہے۔ دنیا کو نئی دہلی کے دھمکی آمیز رویہ کا نوٹس لینا چاہئے۔ پاکستان کی نرمی کو اس کی کمزوری نہ سمجھا جائے۔ پاکستان کے تہ دل سے محب وطن فوجی جوان پوری قوت اور جوش سے کسی بھی بلا اشتعال جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار کھڑے ہیں۔ پوری قوم بزدلانہ دھمکیوں کے جواب میں اپنی نڈر فوج کے ساتھ متحد ہے‘۔

بیانات، جنگ، مقابلہ اور دندان شکن جواب کے اس ہنگام میں اگر نریندر مودی کو سیاسی میدان میں درپیش چیلنج اور مقبوضہ کشمیر میں جاری جد وجہد کے سامنے بھارتی افواج کی بے بسی کا جائزہ لیا جائے تو صورت حال مزید نکھر جاتی ہے۔ بھارتی سیاست میں فرانس کے سابق صدر کے ایک بیان طوفان بپا کردیاہے۔ فرانسس ہولاندے نے ایک بیان میں کہا تھا کہ 2016 میں بھارت کو فرانسیسی کمپنی ڈوسالٹ نے 36 رافیل جنگی طیاروں کی فروخت کے لئے معاہدہ میں بھارتی حکومت کے دباؤ کی وجہ سے سرکاری ہندوستان ایرو ناٹک لمیٹڈ کی بجائے سرمایہ دار انیل امبانی کی ملکیت میں چلنے والی ریلائینس کمپنی کے ساتھ شراکت کا معاہدہ کیا تھا۔ بھارتی قانون کے مطابق دفاعی خریداری میں کل رقم کا تیس فیصد کام متعلقہ کمپنی کو کسی بھارتی کمپنی کے ساتھ اشتراک میں کرنا پڑتا ہے۔ اس پابندی کا مقصد ہائی ٹیکنالوجی سے شناسائی اور بھارت میں روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے۔

جدید عسکری ٹیکنالوجی کی خریداری کے معاہدوں میں عام طور سے سرکاری کمپنی شراکت دار ہوتی ہے لیکن رافیل کے 8،7 ارب ڈالر کے معاہدہ کے لئے نریندر مودی نے بذات خود معاملات طے کرتے ہوئے انیل امبانی کی کمپنی کو شراکت دار بنانے پر زور دیا تھا۔ سابق فرانسیسی صدر کا کہنا کہ ان کے پاس اس مطالبے کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس انکشاف کی بنیاد پر کانگرس اور متعدد چھوٹی سیاسی پارٹیاں نریندر مودی کو ملکی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیتے ہوئے رافیل معاہدہ میں ملوث ہونے کی وجہ سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کررہی ہیں۔ ایک طرف بھارت کی سیاسی حکومت سخت مشکل کا شکار ہے تو دوسری طرف بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں امن بحال کرنے اور عوام کی تحریک کو دبانے میں ناکام رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے نوجوان سر پر کفن باندھ کر ہر قسم کے بھارتی ظلم کا مقابلہ کررہے ہیں۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد ابھرنے والی تحریک بھارتی فوج کی ناکام حکمت عملی اور سیاسی حکمرانوں کی ہٹ دھرمی کی کہانی ہے۔

اس پس منظر میں بھارتی حکومت کے پاس مسائل سے گلو خلاصی کے لئے پاکستان کو ٹارگٹ کرنے سے آسان کوئی راستہ نہیں ہے۔ بھارتی جنتا پارٹی کے بیان سے چونکہ یہ تاثر قوی ہو سکتا تھا کہ حکومت رافیل اسکینڈل سے بچنے کے لئے یہ ہتھکنڈہ اختیار کررہی ہے ، اس لئے اسے بہتر متبادل سمجھا گیا کہ فوج کا سربراہ پاکستان کے خلاف خطرناک اشتعال انگیز بیان دے تاکہ میڈیا ا ور لوگوں کو پاکستان دشمنی کے نعروں میں لگا کر اپوزیشن کو رافیل معاملہ کو اسکینڈل بنانے اور حکومت کو سیاسی نقصان پہنچانے سے روکا جاسکے۔ جنرل راوت کے بیان کو بھارتی سیاسی پس منظر اور ذہنیت کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے میجر جنرل آصف غفور کا بیان دوٹوک اور مناسب ہے کہ ’ہم حملہ آور کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن پاکستانی عوام کے علاوہ ہمسایہ ممالک اور پورے علاقے کی بھلائی کے لئے امن کا راستہ اختیار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں‘۔

سب جانتے ہیں جنگ برصغیر ہی نہیں دنیا میں کہیں بھی مسائل کا حل نہیں ہے۔ پاکستان اور بھارت نے اب جوہری صلاحیت حاصل کی ہوئی ہے اس لئے ان دونوں ملکوں سے تحمل اور ذمہ داری کی توقع کی جاتی ہے۔ اسی لئے سیاسی مقاصد کے لئے جنگی آپشن کی دھمکیوں کو مسترد کرنا اہم ہے ۔ اس کے ساتھ ہی بڑی جنگ کی تباہ کاری سے بچنے کے لئے چھوٹی اور بالواسطہ جنگوں سے نکلنا بھی ضروری ہے۔ تب ہی امن بھی قائم ہو سکے گا اور ملک خوشحالی کے راستے پر گامزن ہو سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali