میں کس سے سیکھوں، اپنی سوچوں کو بڑا کرنا


یہ باتیں بالکل ٹھیک ہیں کہ سوچ چھوٹی نہیں ہونی چاہیے، ذہن پے ہر وقت جنس سوار نہیں ہونی چاہیے، ہمیں چھوٹے ذہنوں کا مالک نہیں ہونا چاہیے، ہر کسی کی اپنی ذاتی زندگی ہے وہ جو مرضی کھاے، پیے، پہنے کسی دوسرے کو اس سے سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ یہ سب اور ان جیسی تمام باتیں ٹھیک ہیں مگر جناب مجھے صرف یہ پوچھنے کی جسارت کرنی ہے کہ یہ سب عملی طور پر کر کے کون بتائے گا دکھائے گا، کون سکھائے گا۔ چلو مان لیا کہ ایسی اچھی باتوں سے کتابیں بھری پڑیں ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی سامنے سے گزرتی ہیں۔ مگر سچے دل سے بتائیے کہ کیا یہ سب کافی ہیں؟

کیا جتنا ہمیں منفی سکھایا اور دکھلایا جا رہا ہے کیا اس حساب سے مثبت تربیت کی ترغیب دی جا رہی ہے؟ بالکل نہیں سر، بالکل بھی نہیں۔ جس بات سے ہمیں روکا جاتا ہے، بتایا جاتا ہے یہ بری بات ہوتی تو اس کے عملی نمونے ہمارے بہت قریب دیکھے جا سکتے ہیں، سگرٹ نوشی سے مے نوشی تک، ٹھرک پن سے ریپ تک۔ مگر مثبت عملی نمونے کتنے کے ہیں ہمارے پاس۔ اجنبیوں کو چھوڑیں، جانے دیں ذرا قسم سے ہمیں سکھانے والے اساتذہ، فیملی کے لوگ، کولیگ وغیرہ میں سے ایسے گھناونے چہرے نظر آ جاتے جنہوں نے شرافت کا لبادہ اصلیت چھپانے کے لئے اوڑھ رکھا ہوتا ہے۔ تو سر جب ہمارے بڑے ہی، ہمارے سکھانے والے ہی ہوس زدہ نکل آئیں تو پھر کہاں سے سیکھیں ہم سوچ بڑی رکھنا، کیسے اپنے ذہن کو بڑا کریں۔

یقین مانیں ہم اور ہماری سوسائٹی حد درجہ تک منافقت کا شکار ہو چکی ہے۔ ہم بتاتے و سکھلاتے کچھ اور ہیں مگر عملی طور پر کچھ اور۔ پتا بھی ہے، بتاتے بھی ہیں کہ تمباکو نوشی کینسر اور دل کی بیماریوں کا باعث ہے مگر پھر بھی کیا زبردست مارکیٹنگ کی جاتی ہے۔ ہمارے اپنے بڑے کیا سٹائل سے پیتے ہیں۔ سر جہاں پر مشروب مغرب کی بوتلوں کو اتنی عزت افزائی ملے کہ اس میں شہد و زیتون جیسی اعلیٰ چیزوں کو پناہ ملے تو سر میرے اندر یہ سب چکھنے کی خواہش کیسے رکے؟

انسان تو پہلے ہی لاچار و مجبور پیدا ہوا، آزمائش کی چکی میں پستا ہے۔ جب ہر منفی کام اور برائی کی رسائی آسان ہو، ہر کوئی اس کا غلط استعمال بتائے اور ٹھیک استعمال کا عملی نمونہ ناپید ہو رہا ہو تو سر میں کیسے قابو پاؤں اپنی منفی سوچوں پر میں کیسے براوڈ مینڈڈ بنوں؟ جو برائی میں رضامندی سے کروں وہ ٹھیک ہو چھپ جائے اور جس میں زبردستی شامل ہو وہ جرم و گناہ ٹھہرے۔ میں کہاں سے سیکھوں اتنی ذہنی مضبوطی کہ برائی ہر حال میں بری لگے۔ کوئی منافقت نہ ہو۔

یقین مانیں اچھے سے اچھا ماحول دیکھا، کارپوریٹ کلچر سے لے کر مدارس تک کے لوگوں کو قریب سے دیکھا۔ مگر حیرت ہوتی کہ اتنا زیادہ اور اچھا پڑھ کر بھی انسان نفس کا مارا کیوں ہے؟ جب ایسے لوگوں کو جنس کا پیاسا دیکھا تو خود پر ہی ترس آ گیا کہ مجھ جیسے طالب علم کہاں سے اچھا سیکھیں۔ کیسے مے نوشی، گالیوں، لپٹا لپٹی، جنسی مذاق، ادھورے لباس کے ماحول میں خود کی سوچ بڑی کریں۔ کیا افسانے، کیا ڈرامہ، کیا فلم، کیا گانا، کیا اشتہارات، کیا نجی محفلیں، سب میں جب جیسا پڑھایا جاتا اس سے الٹ ملے تو میں کس سے سیکھوں اپنی سوچوں کو بڑا کرنا، اپنے ذہن کو کھلا رکھنا۔ کیا یہ سب کھلا تضاد نہیں؟

حرف آخر میری اپنے آپ سے اور باقی سب سے یہی التماس ہے کہ سوچوں کو بڑا رکھنا، ذہن کو کھلا رکھنا صرف بتائیں ہی نہیں بلکہ عملی ویسا کر کے بھی دکھائیں۔ برائی کی جڑ کو ختم کرنے پر کام کریں نہ کہ آنکھیں بند کر لیں۔ تنہائی اور موقع ملنے پر بھی اپنی سوچوں کو بڑا رکھیں۔ منافقت نہ کریں۔ رول ماڈل بنائیں خود کو۔ یہ بہت بڑی و اہم ذمہ داری ہے۔ صرف مجھ جیسے لکھنے والے ہی نہیں چاہیں بلکہ عمل کرنے والے چاہیں تبھی ہم باشعور معاشرے کی تشکیل کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).