وہیل چیئر والوں کی نظر سے جڑواں شہروں کا منظر


مسائل کبھی بھی نئے نہیں ہوتے، بلکہ ہمیں ان کا ادراک صرف اسی وقت ہوتا ہے، جب ہمیں ان مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بار بار ان مسائل کا تذکرہ بظاہر تو قارئین کی غیر دل چسپی کا باعث بنتا ہے لیکن بعض اوقات بہت سے لوگوں کے لیے سوچ کے نئے در کھول دیتا ہے۔ شاید اب یہ ان کے اپنے گھر کا مسئلہ ہو۔

پاکستان کے دار الحکومت اسلام آباد اور جڑواں شہر راولپنڈی میں ایک ایسا انسان جو کسی جسمانی معذوری کے باعث وہیل چیئر پر اپنی زندگی گزارتا ہے، زرا اس کی نظر سے شہر کو دیکھتے ہیں۔

اسلام آباد، خوب صورت گہرے سبز مارگلہ کے پہاڑوں کے درمیان بسا یہ شہر، یونان کے ایک مشہور فن تعمیر کے ماہر کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ راولپنڈی کے مقابلے میں یہ ایک نیا نویلا شہر ہے۔ 1960 میں خاص طور پر دار الحکومت کی ضروریات اور خصوصیات کو ذہن میں رکھتے ہوئے، اس شہر کی بنیاد رکھی گئی۔ جب کہ راولپنڈی کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے، اس شہر نے بہت سے سرد گرم سہے اور آج بھی تاریخ کے عظیم شواہد سینے میں چھپائے پاکستانی افواج کے ہیڈکوارٹرز کی نسبت سے اقوام عالم میں نمایاں ہے۔

کہنے کو دونوں الگ الگ شہر ہیں لیکن روزانہ ہزاروں کی تعداد میں طالب علم اور دیگر ملازمت پیشہ افراد ایک سے دوسرے شہر کا سفر کرتے ہیں۔ ذرائع آمد و رفت میں عام بسیں، میٹرو بس، ٹیکسی یا ذاتی کار وغیرہ شامل ہیں۔ چلیں زرا راولپنڈی سے اسلام آباد کا چکر لگا کر آتے ہیں۔

اب ایک وہیل چیئر استعمال کرنے والا شخص گھر سے نکلتا ہے تو شہر کی بے ہنگم ٹریفک اس کا استقبال کرتی ہے۔ ارے بابا سائیڈ پر ہو کر چلو۔ کوئی تیز رفتار گاڑی ٹکر نہ مار دے۔ اب سڑک کی سائیڈ جسے عرف عام میں ”فٹ پاتھ“ کہا جاتا ہے، کا اس شہر میں کوئی رواج نہیں ہے؛ کیوں کہ عرصہ دراز ہوا ”فٹ پاتھ” نامی جگہ خوانچہ فروشوں کی خود ساختہ ملکیت میں ہے۔ جو جگہ بچ رہتی ہے، وہ گاڑیوں، موٹر سائیکلوں کی پارکنگ کے لیے مخصوص سمجھی جاتی ہے۔ لہذا کسی گاڑی کی ٹکر سے بچنا ہے تو فوری طور پر کسی بس میں بیٹھ جاو۔ بس؟ لیکن شہر میں تو کوئی ایسی بس یا ویگن نہیں چلتی جس میں میں وہیل چیئر کے ساتھ سوار ہو سکوں۔ اچھا! تو وہ جو اربوں روپے خرچ کر کے حکومت نے ”میٹرو بس” چلائی ہے، اس میں تو سنا ہے وہیل چیئر والے بھی سفر کر سکتے ہیں۔

ہاں اچھا آئیڈیا ہے۔ لیکن میٹرو اسٹیشن تو یہاں سے بہت دور ہے۔ اسٹیشن تک جانے کے لیے کوئی ٹیکسی بک کروانی پڑے گی۔ اب ٹیکسی پر بیٹھنا، وہیل چیئر ساتھ لے جانے کے لیے ڈرائیور سے بحث اور مناسب کرایہ طے کرنا بھی ایک اعصاب شکن مرحلہ ہے۔ خیر اب میٹرو اسٹیشن پر پہنچ کر دوبارہ وہیل چیئر اتارو۔ اس پر بیٹھ کر اسٹیشن کے اندر جاو؛ لیکن ٹھہرو بھائی، یہ لفٹ تو کام نہیں کر رہی۔ اوپر کیسے جاو گے؟ زرا بات سننا بھائی۔ میری وہیل چیئر اوپر تک چھوڑ آو۔ بہت مہربانی ہو گی۔ تین اور لوگوں کو بھی بلا لیں۔ ویسے داد دینی پڑے گی، پاکستانیوں کے خلوص کی آپ کو کوئی نہ کوئی مدد کے لے مل ہی جاتا ہے۔ بس دعا یہ کرنی ہے کہ آپ بخیریت اوپر پہنچ جائیں۔ کیوں کہ کسی ایک بندے کے پاوں پھسل جانے کی صورت میں آپ کے ”بہت اوپر” جانے کے صد فی صد چانسز ہیں۔ قصہ مختصر میٹرو کے مختصر سفر کے بعد آپ اپنے مطلوبہ اسٹیشن پر اتر کر دوبارہ ٹیکسی کرائے پر لیں اور اپنی منزل پر پہنچ جائیں۔ دوسری صورت میں آپ اپنے گھر سے لے کر اپنی منزل تک ٹیکسی پر سفر کریں۔ جو کے روزانہ کی بنیاد پر استعمال کی صورت میں آپ کی جیب پر بہت بھاری پڑے گی۔ تیسری صورت یہ کہ آپ اپنی ذاتی کار مع ڈرائیور رکھنے کی استطاعت رکھتے ہوں۔

بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ اب اپنے خدا کو حاضر ناظر جان کر بتائیں کہ کتنے اسکول، کالج، بازار یا دیگر عمارتیں وہیل چیئر استعمال کرنے والوں کے لیے قابل رسائی ہیں؟ کہاں کہاں ان کی ضرورت کے مد نظر سیڑھیوں کے ساتھ ریمپ بنائے گئے ہیں؟ لہذا پھر چار بندوں کی منت کر کے آپ سیڑھیوں سے اوپر جاتے ہیں۔

اگر آپ غور کریں تو زیادہ تر کمرشل عمارتیں یا تو بیسمنٹ میں ہوتی ہیں یا فرسٹ فلور پر۔ گراونڈ لیول پر طرف سیڑھیاں ہی نظر آتی ہیں۔ خاصی مشکل ہے ناں، ایک وہیل چیئر استعمال کرنے والے انسان کے لیے روزانہ کی بنیاد پر سفر کرنا اور زندگی کے دیگر اہم کام سرانجام دینا۔ ایک منٹ کے لیے سوچیں، اگر آپ کی بہن یا بیٹی کو روزانہ ان تمام مراحل سے گزر کر اپنے اسکول، کالج، یونیورسٹی یا ملازمت کی غرض سے جانا پڑے تو آپ کیسا محسوس کریں گے؟ اگر آپ غور کریں تو ہم سب کے گھر میں ہمارے بزرگ، ماں، باپ، دادا، دادی بڑھاپے کی وجہ سے چلنے پھرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔ سننے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بعض اوقات یادداشت کے بیماری کی وجہ سے بچوں کی برتاو کرنے لگتے ہیں۔

یہ سب معذوری کی مختلف اقسام ہیں۔ ہم سب کے گھر میں معذور افراد بستے ہیں۔ اور ایک دن ہم سب جوان اور صحت مند اجسام رکھنے والے افراد بھی عمر کے ہاتھوں معذور ہو جائیں گے۔ تو آئیں معذور افراد کے لیے نہ سہی اپنے مستقبل کے لیے عمارتوں کو، شہروں کو، ذرائع آمد و رفت کو قابل رسائی بنانے کا عزم کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).