آنکھوں کی سوئیاں


\"ansarدنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی بہت شدید گرمی پڑتی ہے اور وہ اس کا علاج بھی ایسے طریقوں سے کرتے ہیں جن پر نہ تو کچھ زیادہ رقم خرچ ہوتی ہے اور نہ ہی اس میں کسی سُپر ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جاتا ہے جو ترقی پذیر یا پسماندہ ممالک میں دستیاب نہیں ہوسکتی۔ پاکستان بھی ایسے ممالک میں شامل ہے جہاں شدید گرمی پڑتی ہے اور آج سے نہیں بلکہ صدیوں سے ہمارا موسم ایسا ہی ہے اگرچہ اب، ذہنی، مذہبی اور سماجی آلودگی کے ساتھ ساتھ، ماحولیاتی آلودگی کے باعث اس میں اضافہ ہوچکا ہے۔ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ بیش قیمت ائیر کنڈیشنرز خریدنے کی عدم استطاعت اور بجلی کی قلّت کے پیش نظر ہم اس گرمی کی شدت میں کیسے کمی کرسکتے ہیں اور یہ کہ جب یہ آسائشیں میسر نہیں تھیں تب لوگ گرم دوپہر میں سکون کیسے حاصل کیا کرتے تھے۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ لاہور میں ہمارا آبائی گھر جو ہندوؤں کے چھوڑے ہوئے ایک محلّہ میں تھا، اس کی چھتیں چودہ فٹ اونچی تھیں جو لکڑی کے بالوں اور ایک شہتیر پر مبنی تھیں۔ اس کے اوپر دو فٹ مٹی پڑی ہوئی تھی جس کے اوپر پختہ اینٹوں کا فرش تھا۔ شدید گرمی کی دوپہر میں چھت سے لگا پنکھا وہ آرام و سکون پہنچاتا تھا جو آج ائیر کنڈیشنر میں بھی میسّر نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دیواریں کم از کم چھ انچ موٹی تھیں جن کی چنائی چونے اور مٹی سے کی گئی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ جب میرے والد صاحب نے اس مکان کا ایک حصہ گرا کر نیا تعمیر کیا تو مزدوروں کو دیواریں اور کھڑکیوں کی محرابیں جنہیں وہ ڈاٹ کہتے تھے توڑنے میں پورا پورا دن یا زیادہ لگ گیا تھا۔ گھر کے نئے حصہ میں دس فٹ کی چھت پر لوہے کا جال ڈالا گیا جسے لینٹر کہتے تھے۔ دیواروں کی موٹائی تین انچ کردی گئی۔مجھے یاد ہے گرمیوں میں ہم گھر کے نئے حصے کی نسبت پُرانے حصے میں زیادہ سکون محسوس کرتے تھے۔دن میں کمروں کے اندر جبکہ رات کو چھت پر پانی کاچھڑکاؤ کرکے چارپائیاں بچھا کر سونے کا عجب لطف ہوا کرتا تھا۔

آج سے بیس سال قبل جب میں پاکستان میں تھا تو کسی رسالہ یا اخبار میں پڑھا تھا کہ مشہور آرکیٹکٹ نیئر علی دادا صاحب نے غالبًا اپنا یا کسی کے لئے ایک گھر بنایا تھا جس کی تعمیر اسی پرانے سٹائل میں کی تھی اور وجہ یہی بیان کی گئی تھی کہ گرمیوں میں یہ گھر ائیرکنڈیشنر کے بغیر آرام دہ اور پُرسکون ماحول فراہم کرے گا۔ مجھے معلوم نہیں کہ ہم کم از کم تعمیرات میں گردش ایّام کو پیچھے کی طرف لوٹا سکتے ہیں یا نہیں لیکن اتنا معلوم ہے کہ پچھلی صدی کے لوگ ہم سے زیادہ ذہین تھے جو موسم کی شدت کا مقابلہ کرنا جانتے تھے۔

ہماری موجودہ نسل کی مزید حماقت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ایک تو ہم سر پر لوہے کا جال بچھا کر گرمی کی شدت کی شکایت کرتے ہیں اور دوسرے شجرکاری کی ہر مہم کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں۔ پورے ملک میں کینسر کی طرح سرایت کردہ کرپشن اس محکمہ میں بھی ہے جہاں ایک طرف تو شجرکاری کی کوئی زیادہ حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی بلکہ جو پودے لگائے بھی جاتے ہیں ان کی حفاظت نہیں کرتے اور دوسری طرف جنگلات کاٹ کاٹ کر پہلے سے پھولے ہوئے پیٹوں کو مزید پھلانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ اس طرح چند افراد کی جیبیں تو بھرجاتی ہیں لیکن ماحولیاتی آلودگی اور گرمی کی شدت میں جو اضافہ ہورا ہے اس کی بھلا کسے فکر ہے!

لیڈر کے انتظار میں فارغ بیٹھی اس قوم نے دیگر تمام کام بھی گویا لیڈروں پر ڈال دئیے ہیں جو آکر جادو کی چھڑی ہلا کر سب کام درست کردیں۔ ہمیں کچھ نہ کرنا پڑے۔ اگر کچھ کرنا بھی ہے تو صرف منفی اور تخریبی کام۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک بادشاہ کے محل کے باہر ایک بندہ آیا اور کہا کہ بادشاہ کو بتاؤ کہ خدا کا بھائی آیا ہے۔ بادشاہ نے متعجب ہو کر اسے بلایا اور کہا کہ اگر تم خدا کے بھائی ہو تو اس جیسی طاقتیں بھی تمہارے پاس ہوں گی۔ اس نے کہا کہ جی حضور بالکل ہیں۔ بادشاہ نے کہا کہ میرا ایک وزیر کانا ہے اس کی آنکھ ٹھیک کردو۔ اس نے کہا کہ جناب بات یہ ہے کہ ہم دونوں بھائیوں نے کام بانٹ رکھے ہیں۔ تعمیری کام وہ کرتا ہے اور تخریبی کام میں کرتا ہوں۔ اگر آنکھ ٹھیک کرانی ہے تو اسے کہیں اور اگر دوسری بھی نکلوانی ہے تو اس کے لئے میں حاضر ہوں۔ ہمارا یہی حال ہے۔ اگر کسی علاقے کا بیڑا غرق کرانا ہے تو پہلے اسے ہمارے حوالے کردیجئے ہم انشاءاللہ ایک صدی کے اندر اندر اس کا تیاپانچہ کرکے رکھ دیں گے۔ ویسے دو تہائی تو کرچکے ہیں اب بس آنکھوں کی سوئیاں نکالنا باقی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments