ساتویں بیٹی کی آخری چیخ


اس وقت میری عمر کچھ زیادہ نہ رہی ہو گی۔ یہی کوئی سات آٹھ برس مگر لگتا ہے، جیسے بیتے ہوئے کل کا واقعہ ہو۔ کراچی کی چلچلاتی گرمیوں کی تپتی دُپہر اور حیدر چچا کے مکان کا نیم پختہ آنگن کہ جس کی سفید چونے سے لپی دیواروں سے تقریباً ہم آغوش کچی کیریوں سے لدھا آم کا گھنا درخت۔ قریب ہی دیوار پہ چڑھی لجائی، چنبیلی کی نازک بیل جس کی دھیمی خوش بو میں ضم ہوتی کیریوں کی شریر تیز مہک۔ باورچی خانے کے آنگن میں کھلنے والی کھڑکی کے عین نیچے پانی کا نلکا اور کھانے کے جھوٹے برتنوں کے ڈھیر پہ مکھیوں کی نہ ختم ہونے والی بھنبھناہٹ۔

پچھواڑے کی گلی میں کھلنے والے دروازے کے ایک جانب پڑوس کے درخت سے گرنے والی پکی جامنوں کی کلونج کی بد صورتی اور آنگن کے بیچوں بیچ دو معصوم بچوں کو روئی کی طرح دھنکتی حشمت پھپھو۔ یہی تو ہم سب بچے انھیں پکارتے تھے۔ اور پٹنے والے یہ بچے کوئی غیر نہیں بلکہ اپنے جگر کے گوشے پانچ سالہ رباب اور چار سالہ شبر تھے۔ جو بے چارے ماں باپ کی آئے دن کی لڑائیوں کے کارن دھوبی کے کتے کتوں کے مانند نہ گھر کے رہے اور نہ گھاٹ کے۔ کبھی باپ کے سنگ ایک کمرے کے کوارٹر میں تو کبھی اماں کے میکے کی چوکھٹ پہ۔ مجرموں کی طرح سہمے سہمے، حشمت پھپھو کی اوڑھنی کے کونے پکڑے، ان کے ساتھ ساتھ۔ ’ پچھل پیروں دور ہٹ کے چلو مجھے سانس تو آنے دو۔ ‘ وہ بچوں کو جتنا دھکیلتیں وہ اتنا ہی قریب آ جاتے۔

حشمت پھپھو اکثر ہی یہاں سے لڑ بھڑ کے اپنے تایا زاد حیدر بھائی (جو ہمارے رشتے کے چچا لگتے تھے) کے گھر بڑی مان سے آ جاتیں۔ کبھی بچوں کو ساتھ لے کر اور کبھی اکیلی ہی بس میں بیٹھ کر۔ سنا ہے شروع میں انور پھوپھا بیوی کو منانے آ جاتے تھے مگر بعد میں ہفتہ ہفتہ بھر بعد آنے لگے۔ ان کا کہنا بھی بجا تھا کہ ساتھ چل کر گھر اور بچے سنبھالو۔ ورنہ الگ ہو جاو۔ مجھے عورتوں کی کمی نہیں۔ اب بھلا حشمت پھپھو طیش میں کیوں نہ آتیں۔ سانپ کے بچے سنپولیے۔ بچوں کی طرف دیکھ کر ان کے منہ سے بار بار نکلتا۔ بھلا انور پھوپھا سانپ کیوں تھے۔ کچھ معلوم نہیں، ہمیں تو اکثر یہ نظر آتا کہ چار اور پانچ سالہ سنپولیے اکثر اپنی ماں کے ہاتھوں پٹ رہے ہوتے۔

یہ بھلا کن جنموں کا غصہ تھا جو ختم ہونے میں نہیں آتا تھا۔ بچوں کی معصوم چیخیں سن کر گھر کے مختلف کمروں سے، جن کے دروازے آنگن سے متصل راہ داری میں کھلتے تھے، لوگ یوں بلبلا کر نکل پڑتے جیسے سخت گرمیوں میں سانپ اپنے بلوں سے۔ ’’بس بھی کرو حشمت۔ کیا جان سے مار کر دم لو گی‘‘؟ آصفہ پھپھو کی آواز آتی۔ ”اے اللہ، حشمت! چھوڑ بھی دو غریب بچوں کو‘‘۔ حیدر چچا کی بیوی کلثوم چچی کے لہجے میں درد مندی کے ساتھ ساتھ خوشامد بھی آ جاتی۔ جس پر حشمت پھپھو کا ہاتھ اور بھی زور سے چلنے لگتا۔ بچے اور دہائی دیتے تو ادھر سے کہا جان کی آواز آتی۔ ’’اے ہے کسی اور کا غصہ ان معصوموں پہ تو نہ نکالو‘‘۔

الغرض! منع کرنے والے کہہ کہہ کر تھک جاتے مگر پٹائی کرنے والے ہاتھ نہ تھکتے۔ حتی کہ حشمت پھپھو کی تائی اماں اپنے کمرے سے نکل کر رعشہ دار جھریوں سے لدے ہاتھ کو ان کے بازو پہ رکھتیں، ’’بس ہم کہہ رہے ہیں ہوش میں آ جاو۔ چلو ہمارے کمرے میں، تم بھی ہاتھ منہ دھو اور بچوں کو بھی چپ کراو۔ مار سے نڈھال ہوئے جا رہے ہیں‘‘۔ جانے کیسی مقناطیسی طاقت تھی ان کے بوڑھے جسم اور لہجے میں کہ حشمت پھپھو کے ہاتھ وہیں رُک جاتے ’’تائی اماں ہم کیا کریں‘‘۔ حشمت پھپھو اپنے سینے پر دو ہتڑ مارتیں۔ ’’پہلے ہی ہماری قسمت خراب تھی اور اب سب نے مل کر ہمیں اور بھی آگ میں جھونک دیا‘‘۔ طیش زدہ حشمت پھپھو اپنی تائی کے سینے میں اس طرح گھس جاتیں جیسے وہ معصوم بچی ہوں جو ابھی اپنی ماں کے پیٹ سے نکلی ہوں۔ بالکل ایسے ہی پینتیس سال ادھر تائی اماں نے پیدا ہونے کے بعد اسی طرح تو سینے سے لگا لیا تھا۔

سنا ہے حشمت پھپھو اپنے گھر کی ساتویں بیٹی تھیں۔ جب ابا کی پہلی بیوی سے لگاتار چار بیٹیاں ہو چکیں تو انھوں نے بڑے زعم سے بیوی پہ سوت بٹھائی اور ایک بار پھر نسلِ انسانی کی بقا کا فریضہ عبادت کی طرح انجام دینا شروع کر دیا۔ مگر دوسری بیوی نے بھی پے درپے دو بیٹیاں پیدا کر کے ناک کٹوا دی۔ کہتے ہیں جب ان کی دوسری بیوی نے تیسری بار میاں کی کھیتی اگائی اور دردِ زہ میں مبتلا ہوئیں تو دائی کو اندر بھیجنے کے بعد میاں نے کہا ’اب کی بار بھی بیٹی جنی تو میں دیکھ لوں گا۔’ دائی کے جانے کے ڈیڑھ گھنٹے بعد خون میں لتھری چیختی چلاتی صحت مند بچی کی سواری بڑی شان سے دائی کے مشاق ہاتھوں میں نازل ہوئی۔ اس کی پہلی چیخ میں احتجاج زیادہ تھا یا بھوک یہ تو معلوم نہیں مگر جب باہر بے چینی سے ٹہلتے ابا کو ساتویں بار بھی ناک کٹنے کی خبر ملی تو طیش سے چہرہ سرخ ہو گیا۔

ان کا خیال تھا کہ سوائے خود ان کی ذات کے اس سانحے میں ہر ایک کا قصور تھا۔ بیوی، دائی اور گلا پھاڑ کر چلاتی ساتویں بیٹی کا۔ آو دیکھا نہ تاؤ گھر میں رکھا سب سے بڑا تالا لے کر اس کمرے کے دروازے کو قفل لگا دیا۔ ’مر جانے دو، کوئی نہیں کھولے گا۔ اس دروازے کو۔’ یہ ان کا حتمی فیصلہ تھا۔ نوکر چاکر اور گھر والوں کو سانپ سونگھ گیا۔ لیکن اس سناٹے میں کچھ معصوم چیخیں ایسی تھیں جو قفل زدہ کمرے سے نکل کر اس رویے پر احتجاج کر رہی تھیں۔ ایسے میں حشمت پھپھو کی تائی غصے میں بل کھاتے دیور کے سامنے آئیں جو ان سے سات برس چھوٹے تھے اور ماموں زاد بھائی بھی تھے۔ بھاوج نے رعب سے کہا۔ ‘احمد رضا ہم کہتے ہیں دروازے کا قفل کھول دو۔ مت پالو تم۔ بچی ہم پالیں گے۔‘ کچھ توقف کے بعد احمد رضا (یعنی حشمت پھپھو کے ابا) کو دروازہ کھولتے ہی بن پڑی۔

پس گود لینے کا فیصلہ اسی دن ہو گیا۔ ساتویں بیٹی کو تائی نے سینے سے لگا کر ہمیشہ کے لیے گود لے لیا۔ احمد رضا نے دودھ پیتی بیٹی کی ماں کو میکہ پہلے بھیجا طلاق کا پروانہ اس کے بعد۔ تو یہ تھا قصہ حشمت پھپھو کی دنیا میں آمد کا اور ہوش سنبھالنے کے بعد نہ جانے کتنی بار حقارت کی اس کہانی نے ان کی حشمت کتنی زک پہنچائی۔ اندر کے زخم نظر نہیں آتے لیکن پھلتے پھولتے خوب ہیں۔ شاید اسی کا نتیجہ ہو کہ تیرہ چودہ سال کی عمر میں جسم کے بالکل اندر ہڈیوں کی ٹی بی ہو گئی۔ کپڑے، برتن تو کیا اب تو وہ بالکل ہی اچھوت ہوئیں۔ ان کی ساتھی تنہائی تھی۔ حالات ایسے نہ تھے کہ بیماری اور اس سے وابستہ نخرے اٹھائے جاتے۔ سنا ہے الگ تھلگ ایک بسترپہ اکثر الٹی پڑی رہتیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ صحت یابی کے بعد حشمت پھپھو زندگی بھر کو کبڑی ہو گئیں۔

معمولی شکل صورت، چھوٹا سا قد اور اب کوبڑ کے اضافے نے خود انھیں اپنی نظروں میں حقیر بنا دیا۔ زبان کی تیزی، مزاج کی ترسی کی وجہ سے شادی کا معاملہ پہلے ہی ٹیڑھی کھیر نظر آ رہا تھا، اب تو ناکوں چنے چبانے والا معاملہ بن گیا تھا۔ بھلا آنکھوں دیکھی مکھی کون نگلتا۔ خاندان سے معاملہ ٹپتا نظر نہیں آتا تھا۔ باہر والوں سے میل جول نہ تھا۔ حشمت پھپھو لاکھ زبان دراز، ضدی اور بدمزاج سہی مگر دو لوگوں کے سامنے ان کی بولتی بند ہو جاتی۔ ایک تو تایا کے بیٹے یعنی حیدر چچا اور دوسری تائی اماں۔ ’میرے بھیا بڑے سرکاری افسر ہیں۔ اتنی ڈگریاں ہیں۔‘ پھر ان کی ڈگریوں اور عہدے کی تفصیل بتاتے ہوئے شاید انھیں لگتا ہو کہ ان کے عیب چھپ گئے ہیں وہ اپنی نظر میں خود ہی معتبر ہو جاتی ہوں گی۔ یہ بات بھی سچ ہے کہ حیدر چچا نے اپنی بہن کا ہمیشہ مان رکھا۔

حشمت پھپھو کے مزاج کی دو انتہائیں تھیں۔ ایک میں وہ کچھ لوگوں کی محبت اور تعریف میں بے حال تو دوسری جانب کچھ لوگوں کی نفرت میں بد حال۔ کچھ کے لیے وہ جاں نثار سپاہی کی تیغ بن جائیں گی۔ کیا مجال کہ آپ نے ان کے محبوب کو بھولے سے بھی کچھ کہہ دیا۔ وہ آپ کی جان کو آ جائیں گی۔ اور وہ بے پر کی سنائیں گی کہ آپ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں۔ سب کہتے حشمت کے منہ مت لگنا۔ لڑنے کے علاوہ جو ذمہ داری پھپھو نے اپنے سر لی ہوئی تھی وہ برتن دھونے کی تھی۔ مزاج ٹھیک ہے تو کام ہو رہا ہے۔ لیکن اگر خفگی ہے تو صبح سے رات تک اور کبھی دوسرے دن بھی برتنوں پہ مکھیاں بھنبھناتی رہیں گی۔ نہ کسی کو دھونے دیں گی نہ ہی خود دھوئیں گی۔ ‘ہمارا کام ہے کر ڈالیں گے۔’

کوئی ان کے منہ نہ لگتا۔ لیکن ایک آواز ایسی کہ جس پر ان کے ہاتھ پیر تھرا جاتے۔ حیدر بھائی کی آواز ’:حشو کیا بات ہے۔ طبیعت کیسی ہے؟ ٹھیک ہے بھیا۔ وہ دھیمی آواز میں نظر جھکا کر کہتیں۔ ہم سمجھے کچھ ٹھیک نہیں۔ ‘ حیدر چچا یہ کہتے ہوئے گزر جاتے۔ بس پھر ان کی سستی اور ضد سب کافور ہو جاتی۔ جلدی جلدی دھلے ہوئے صاف برتنوں کا ڈھیر لگ جاتا۔ سب زیرِ لب مسکرانے لگتے۔ لیکن حشمت پھپھو کو کسی کی پروا نہیں ہوتی۔ ’میرے بھیا کو میری پروا ہے’، یہی ان کے لیے کافی تھا۔ برتنوں کی دھلائی پہ کیا موقوف۔ مزاج اچھا ہے تو پیار پیار میں فرمائش کر کے آپ ان سے مزیدار کھانے پکوا سکتے تھے۔ اور آپ کو اس بات کا قائل ہونا پڑے گا کہ میٹھے بول میں جادو ہے۔

ان کے مزاج کا موسم جلد ہی بدلی کے چاند کی طرح کہیں چھپ جاتا مگر اچھے برے ہر موسم میں گرم چائے کا کھولتا پیالہ ان کے ساتھ رہتا۔ ’اے حشمت کچھ ساتھ کھا لو۔ کیوں خالی پیٹ گرم چائے پیتی رہتی ہو السر ہو جائے گا۔ لوگ ہم دردی میں تنبیہا کہتے گزر جاتے۔ ’ہماری مرضی۔ ہمیں نہیں کچھ کھانا کسی کو کیا۔ اور ہم اتنی جلدی مرنے والے نہیں۔‘ مجھے اکثر لگتا کہ جیسے وہ ہم دردی کے چند جملے سننے کے لیے کھولتی چائے کے پیالے پیتی رہی تھیں۔ اور خود اذیتی کا عذاب سہتی رہیں۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2