ساتویں بیٹی کی آخری چیخ


حیدر بھائی کی شادی ہوئی تو پہلے ہی دن شوہر اور ساس نے آنے والی دلھن کو باور کرا دیا کہ ’حشمت بے چاری کو برداشت کرنا ہے۔‘ ادھر بھاوج کے ایک کے بعد دوسرے بچے ہوتے جا رہے تھے دوسری جانب حشمت پھپھو کو کوئی کھونٹا نصیب نہیں ہو رہا تھا۔ بڑی مشکل سے بالکل غیر خاندان کے انور پھوپھا ہاتھ لگے۔ پولیس کی وردی پہنے معمولی عہدے پر فائز۔ جو شکل صورت میں حشمت پھپھو سے بھی گئے گزرے تھے۔ چیچک زدہ چہرہ۔ پولیس کی نوکری نے آواز میں سختی، لہجے میں کھردرا پن اور مفت سیگرٹ پینے کی عادت ڈال دی تھی۔ بہت سوں کا خیال تھا کہ یہ کھونٹا گھاٹے کا سودا ہے۔ لیکن لڑکیاں تو ہوتی ہی پرایا دھن ہیں۔ انھیں تو اپنے نصیب خود بنانے ہوتے ہیں۔

پانچ جماعتوں کے بعد پڑھائی کا زمانہ بیماری کی نذر ہوا۔ جس کی دَین غصہ، ضد اور بد مزاجی تھی۔ معمولی جہیز کے ساتھ بھائی کی ڈگریوں اور اعلی عہدے کا زعم بھی تھا۔ جس کے آگے پولیس کی دو ٹکے کی حقیر نوکری کو بھلا حشمت پھپھو کہاں خاطر میں لاتیں۔ ٹھیلے والوں سے مانگی مفت سبزیاں اور پھل کچھ اس رشتے کو پنپنے میں راس نہ آئے۔ ادھر حشمت پھپھو کے چائے کے بڑے پیالے سپاہی کی جیب پر بھاری پڑنے لگے۔

ہر روز بھائی کے گھر اور اس کے عہدے کے گن سن سن کر شوہر کے کان پکنے لگے۔ بہنوئی کم حیثیت بھی ہو تو سالا تو اس کے گھر کا کتا ہی ٹھہرا۔ ادھر حشمت پھپھو نے بھائی کے عہدے اور میکے کی تعریف میں حدیں پار کر لیں ادھر میاں نے ہاتھ چھوڑ کر اپنی حدیں بھی لانگ لیں۔ ’اگر بھائی کے گھر کے عیش نہیں چھوڑنے تھے مجھ سے شادی کیوں کی تھی؟’ اور یوں دو بچوں کے بعد بھی جھگڑوں کا نہ ختم ہونے والا چکر جاری رہا۔ بچے رہتے اور پٹتے رہے۔ اور وہ ایسی ہی کسی پٹائی کا دن تھا جو میری یاد داشت کا حصہ بن گیا تھا۔ آخر روز روز کی لڑائیوں کا انجام میاں اور بچوں سے علیحدگی تھا۔ حشمت پھپھو میاں کا کھونٹا چھرا کر حیدر بھائی کے گھر دوبارہ آن بیٹھیں۔

اب دوبارہ انھیں فرصت ہی فرصت تھی۔ گاہے بگاہے لوگوں کی محبت میں ان پہ مرنے کے شوق نے انھیں زندہ کر دیا۔ یہ ٹوٹ کر مرنے کا شوق ہی نہیں تھا بلکہ خاندان کے افراد کی تصاویر جمع کرنے کا شوق بھی تھا۔ جو انھیں لوگوں میں ممتاز بنا رہا تھا۔ خاندان بھر کے افراد کی نایاب تاریخی تصاویر جانے کیسے اور کب ان کی خفیہ البم کی زینت بن جاتیں۔ یہ البم وہ کسی قیمتی شے کی طرح صندوق میں تالا لگا کر رکھتیں۔ یہ وہ شوق تھا جس میں انھوں نے حدیں پار کر لی تھیں۔ سالوں کی تضحیک کے بعد ان کے اس شوق نے انھیں اہم شخصیت بنا دیا تھا۔

کسی کو اپنے مرحوم والدین کی شادی کی تاریخی تصویر دیکھنی ہو تو حشمت پھپھو کے صندوق کو کھلوائیں اور ماضی میں پہنچ جائیں۔ لوگ پوچھتے ’ مگر یہ آپ کو ملی کہاں سے؟ وہ فتح مندی کا احساس لیے ہنستیں ’ایک ہی تو ہمارا شوق ہے۔ اب ہم سے یہ سب مت پوچھو۔’ پھر وہ ہل ہل کر ہنسنے لگیں۔ سب کو پتا تھا کہ پرانی تصویروں کا شوق انھیں تر و تازہ کر دیتا ہے۔ ان کی البم میں بسنے والے لوگ ان کے دل میں یادوں کے ستارے بن کے جھلملاتے۔ مگر یہ بات اور ہے کہ شاید ہی کسی کے دل میں حشمت پھپھو کی یاد کا کوئی جگنو بھی ٹمٹمایا ہو۔ بھلا وہ گز بھر لمبی زبان رکھنے والی حشمت جو شوہر کی قدر نہ کر سکی، جس نے بچوں کو کلیجے سے لگاکے نہ رکھا۔ وہ جس نے کچھ لوگوں کو محبوب بنا کر پوجنا شروع کر دیا۔ اور باقی دنیا سے جھگڑا رکھا وہ بھلا یاد رکھنے کی ہستی ہے؟

ہاں یہ ضرور ہے کہ اگر ان کا جھگڑا کسی سے نہیں تھا تو وہ شہدائے کربلا تھے۔ ابھی حدیث خوان نے مصائب بیان کرنے شروع بھی نہیں کیے اور ادھر حشمت پھپھو نے چیخیں مار مار کر رونا شروع کر دیا۔ کبھی مجھے لگتا جیسے ان مصائب پہ نکلتی چیخوں میں خود ان کے کتنے دکھ اور المیے تھے جو کربلا کی داستان کے درد کے بہانے نکلے۔ ساتویں بیٹی کی دربدری کا غم، ماں باپ کے ہوتے ہوئے یتیمی و یسیری کا دکھ، شوہر کے ہوتے ہوئے بیوگی اور بچوں کے ہوتے ہوئے کوکھ جلی ہونے کا صدمہ۔ خود کو سن کر لینے سے درد مرتے نہیں۔ وہ تو مار دیتے ہیں۔ یہ راز شاید مرتے دم تک ان پہ منکشف نہ ہو سکا۔

انھیں اپنے حلیے کو بدترین رکھنے کا شوق تھا۔ لیکن باہر جانے کا شوق بھی تھا کوئی کسی بھی کام سے باہر نکل رہا ہوتا ادھر سے حشمت پھپھو کی آواز آتی، ’اے بھیا رک جاو، ہم زرا کپڑے بدل لیں۔‘ کچھ سال قبل ایک دن جب ان کی بھتیجیاں بازار خریداری کو نکل رہی تھیں۔ تو حشمت پھپھو بھی ساتھ ہو لیں۔ بھتیجیاں جوان یہ ادھیڑ عمر اور آہستہ خرام۔ وہ تیزی سے سڑک پار کر چکیں تو کسی نے بتایا کہ وہ جو آپ کے ساتھ پیچھے تھیں ان کو کسی گاڑی نے مار دیا ہے۔ پلٹ کے دیکھا تو ڈھیروں اجنبیوں کے درمیان تن تنہا، اکیلی، بے بس اور نا چار حشمت پھپھو کی لاش پڑی تھی اور ان کی سانسوں پہ واقعی قفل پڑ چکا تھا۔ ہمیشہ کے لیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2