خان صاحب کھلونے دینا چھوڑیں


تبدیلی بہت ہی آسانی سے بکنے والا ساز و سامان ہے، اور اس کے خریدار پوری دُنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس نعرے پر جہاں فیصل آباد، اور سیالکوٹ کے لوگ لٹو ہو جاتے ہیں، وہیں حال نیویارک اور واشنگٹن جیسے شہروں میں بسنے والے پڑھے لکھوں کا بھی ہے۔ خان صاحب نے جب یہ نعرہ لگایا، تب لوگوں کی طرف سے تو جو پذیرائی ملنی تھی ملی، پر خان صاحب کے سب سے بڑا حامی، میڈیا بن کے سامنے آیا؛ جتنے تبصرے، تجزیے، تعریفیں اور تقابلی جائزے خان صاحب کو ایک پاپولر لیڈر بنانے کے لیے پیش کیے گئے، میڈیا کے اتنے پرائم آورز اگر میرے جیسے نالائق کو بھی ملتے تو شاید خان صاحب سے بڑا لیڈر بن چکا ہوتا۔ کچھ چینلز اور ٹاک شوز کو تو اتنی جلدی تھی کہ اُن کو یہ خیال بھی نہ رہا، اُن کو اپنی غیر جانب داری کا بھرم بھی رکھنا ہوتا ہے۔ اب تو یہ حالت ہے کے کسی گلی کے بچے سے پوچھ لیں کہ کون سا نیوز چینل اور کون سا صحافی، خان صاحب کو لیڈر بنانے کی دوڑ میں آگے ہے، تو شاید بغیر توقف کے بتا دے گا۔

ہماری اور آپ کی لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہم ایک ایسی پارٹی اور لیڈر سے کچھ ایسی اُمیدیں وابستہ کر بیٹھے ہیں، جو میدان میں وہی پرانے گھسے پٹے اور آزمائے ہوئے مہروں کے ساتھ انقلابی باتیں کر رہی ہے اور خواب دکھا رہی ہے۔ جو پورے کرنا شاید ان کے بس کی بات نہیں۔ ملکی حالات کاسمیٹک تبدیلیوں کی جگہ بنیادی ادارہ جاتی تشکیل کے متقاضی ہیں اور موجودہ حکمران جماعت اب بھی میڈیائی ہتھ کنڈوں کے ذریعے پیالی میں طوفان اُٹھانے کے درپے ہے۔ 22 کروڑ نفوس پہ مشتمل اور قرضوں میں ڈوبے ہوئے ایٹمی قوت کے حامل ملک کی معاشی، معاشرتی اور عمرانی ضروریات از سر نو تشکیل کی متقاضی ہیں۔

برآمدات اور درآمدات کے تناسب کو دُرست کرنے کے لیے کل وقتی پروگرام کی شدید ضرورت ہے، خارجہ پالیسی میں دوستوں اور دشمنوں کے تعین میں پرانے اُصولوں اور فلسفوں سے ہٹ کر ملکی مفادات کے وسیع تر تناظر میں فیصلے اب نہیں، تو کب کی بنیاد پر ہونا ضروری ہیں۔ مصنوعات کا تعین اور اُس کے لیے منڈیوں کا حصول ہماری ترجیحات میں کس نمبر پر ہے، اس پر بہت بڑے سوالیہ نشان موجود ہیں۔ ہمارے مسلم اُمّہ کے سگے بھائی ہمارے بجائے ہندوستانی اور بنگالی لیبر کو لینا پسند کرتے ہیں اس پر کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ زراعت سے پاکستان کا کوئی ستر فی صد طبقہ وابستہ ہے، لیکن زراعت کوئی بڑا زرِ مبادلہ کما کے نہیں دیتی؛ یہ غور طلب اُمور ہیں۔ سی پیک کیا ہے؟ کیسے ہے؟ کن شرائط پے ہے؟ اس سے کتنی ملازمتیں پیدا ہوئیں؟ کتنی ہوں گی؟ کب ہوں گی؟ قوم کا کیا داو پر لگا ہے؟ اور ملنا کیا ہے؟ یہ چیزیں اب بھی صیغۂ راز میں ہیں۔ بلوچوں اور سندھیوں کی ان معاملات میں بد گمانیاں بڑھ رہی ہیں کئی چیزیں وضاحت طلب ہیں اور اوپن فورمز پر لائے جانے کی احتیاج رکھتی ہیں۔

چلیں کچھ چیزیں تو ایسی ہیں کہ ہر پڑھا لکھا جانتا ہے کہ انتخابی بڑھکیں تھیں، پیٹرول پچاس روپے لیٹر بیچ پانا، امریکا کو اپنی مرضی پے چلا پانا، پوری دُنیا کی ذہانت اور سرمائے کو اس دوڑ میں لگا دینا کہ اُن کو بس پاکستان کے علاوہ دُنیا میں کچھ نظر نہ آئے، یہ ابھی زرا دور کی باتیں ہیں، لیکن وقت کا تقاضا ہے کہ مستقبل کو نظر میں رکھتے ہوئے پالیسیوں کی بنیاد رکھ دینی چاہیے۔

خان صاحب کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ خوش نصیب ضرور ہیں کہ کچھ گنوائے بنا انھوں نے سب کجھ حاصل کر لیا، لیکن خان صاحب کے ساتھ ایک المیہ بھی ہے، کہ اُن کا ووٹر ایسا ہے جو اپنے ابا و اجداد کی پارٹیاں چھوڑ کر تبدیلی کے خواب کے پیچھے آیا ہے۔ جو طبقاتی نظام سے نالاں ہے۔ جو وی آئی پی کلچر کی لعنت سے بیزار ہے، جو بہت بے صبرا ہے، جو وعدوں سے اکتایا ہوا ہے، جو کچھ ہوتا دیکھنا چاہتا ہے، جس کی ترجیحات بالکل واضح ہیں اور یاد رکھنا چاہیے جو اپنے آبا و اجداد کے جیوے جیوے کے نعروں کو بھلا کے آپ ساتھ آیا ہے۔ اُسے جیسے ہی گُمان ہوا کہ اب کے والے وعدے بھی پرانے وعدوں کی نئی شکل ہے، تو وہ خان صاحب سے اُمیدیں ختم کرنے میں زرا وقت نہیں لے گا۔

ایسی حالت میں خان صاحب اور اُن کے رفقا کو خان صاحب کی چپل، خان صاحب کے کتوں، خان صاحب کی کفایت شعاری اور سادگی، خان صاحب کی اُدھار کی شیروانی، خان صاحب کا چائے میں بسکٹ ڈبو کر کھانا، خان صاحب کے سستے ہیلی کاپٹر، خان صاحب کے سچے دوستوں، اور خاتون۔ اوّل کے حجاب سے نکل کر جلد حقیقی مسائل کی طرف رجوع کرنا ہو گا۔ جھنجنے اب زیادہ عرصے تک لوگوں کو بہلا نہیں سکتے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).