مملکت خداداد پاکستان اور مقدس عدالتیں


پاکستان انیس سو سینتالیس میں معرضِ وجود میں آیا۔ ہم سبھی جانتے ہیں۔ جب سے لے کر آج تک یہاں اصولوں کو بنایا جاتا ہے، بلکہ نہیں اصولوں کو بنایا نہیں جاتا، بنے بنائے اصولوں کو چلایا جاتا ہے۔ یعنی وہی قوانین جو برٹش انڈیا کے دور میں گورے نے بنائے وہی رواں دواں ہیں۔ قوانین کا احترام ہر پاکستانی شہری پے فرض ہے۔ اگر وہ اصول اور قوانین توڑے تو اس پہ سزا کی حد لگے گی، رنگ، نسل، برادری، لسانی اور دولت کی بنیاد پر نہیں مساوات کی بنیاد پر، کیوں کہ یہ مملکت خدادا پاکستان ہے۔ مذہب کے نام پہ بننے والا پہلا ملک۔ نہ ہی پاکستان کمیونسٹ انقلاب کا نتیجہ ہے، نہ ہی کسی کیپٹلزم کا؛ یہ تو ان سب دنیاوی علوم سے اوپر مذہب کی بنیاد پر وجود میں آیا۔

پاکستان کے عوام با شعور آزاد اور خود مختار ہیں۔ اس ملک میں زکوٰۃ اور صدقات آج تک کسی سے حاصل نہیں کیے جاتے، اور اگر کوئی رئیس ملک امداد کرنا چاہے تو اسے سختی سے منع کر دیا جاتا ہے۔ بے شک اس کی وجہ سے تعلقات خراب ہو جائیں، لیکن قومی غیرت سب سے اہم ہوتی ہے۔

پاکستانی عوام باشعور ہیں، اچھے برے کی خود ہی تمیز کرتے ہیں۔ لڑائی جھگڑا تو یہاں ہوتا ہی نہیں۔ سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہیں۔ بچوں کو صاف کھانا، اچھی سکونت اور بہترین تعلیمی ادارے میسر ہیں۔ شہروں اور دیہاتوں میں وہ تمام سہولیات موجود ہیں جو ایک اچھی زندگی کے لیے ضروری ہیں۔ یہ ملک بے شک و شبہ ایک معجزہ ہے۔

یہ باتیں کم و بیش ویسی ہیں، جو ہم نے دوسری جماعت میں اردو کی دوسری کتاب (سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ) میں پڑھی تھیں۔ آئیں اصلی پاکستان کے صرف کسی ایک مسئلے پر روشنی ڈالتے ہیں۔
دو روز قبل محترم نواز شریف مع بیٹی داماد آزاد ہوئے۔ ان کی آزادی پے مجھے بہت غصہ آیا؛ اس لیے نہیں کہ مجھے میاں صاحب سے کوئی ذاتی پرخاش ہے، نہ ہی انہوں نے مجھے جنسی طور پے ہراساں کیا۔ مسئلہ کچھ اور ہی ہے۔

محترم قارئین! میری طرح آپ میں سے بھی کوئی کبھی جیل یا کورٹ گیا ہی ہو گا، کچھ نہیں تو جائیداد کی تقسیم کے لیے ہی۔ آپ نے وہاں رش دیکھا ہو گا، ہر طرف انسان پولیس والے اور کالے کوٹ والے گدھ؛ اوہ معذرت! گدھ نہیں وکلا؛ اگر واقعی آپ آج تک کورٹ نہیں گئے، تو اب ایک وزٹ تو کر ہی آئیں، ایک چھوٹا سا رینڈم سروے کر آئیں، آپ کو میری بات سمجھ آ جائے گی۔

ہمارے پیارے وطن میں اصول صرف لوگوں کو ڈرانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، یعنی جو جتنا کم زور ہے، وہ اتنا ہی ذلیل ہے۔ اسے یہ حق ہی نہیں کہ وہ یہاں زندہ بھی رہے۔ آپ کی گاڑی جتنی بڑی ہو گی، آپ کی اتنی عزت؛ آپ کی جیب میں جتنے زیادہ پیسے ہیں، لوگ آپ کے ہم نوائی کے لیے تیار۔ پاکستان میں غریب عوام زومبی ہیں، انھیں خود یہ معلوم نہیں کہ وہ کون ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے ریوڑ میں چلنے والے بھیڑ کو کچھ معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہے اور کیوں ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں لوگ ابھی بنیادی ضروریات کو ترستے ہیں، وہاں اگر جرائم ہوئے تو اس میں جرم کرنے والے کا قصور ہے یا حاکم کا؟ اب چوں کہ گوروں کے بنائے ہوئے قوانین بنا کسی ترمیم کے لاگو ہیں، تو ملزم کو حراست میں لیا جانا بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کا فرض ٹھہرا، لیکن اس کے بعد؟

مقدس عدلیہ کی کارکردگی تقریباً صفر ہے؛ جج صاحباں بالعموم صرف حاضری لگوانے آتے ہیں۔ سرکاری مراعات حاصل کرتے ہیں کیوں؟ آج کے تیز رفتار دور میں تو ایک وِڈیو کال بھی خاصی ہے، گھر بیٹھے ایک وِڈیو کال اور چھٹی۔

مقدموں کی سماعت ہوتی ہی نہیں، کیس چلنے کے انتظار میں یا تو لوگ بوڑھے ہو جائیں یا مر جائیں، ایک ضمانت کی درخواست کی سماعت میں چار مہینے اور نتیجہ میں مزید پانچ ماہ، اب ان اذیت میں گزارے ہوئے وقت کا حساب کون دے گا؟ جج صاحب؟ نیب؟ ایف آئی اے؟ سیاسی کیس کی سماعت میں پھرتی پھر سزا کے ٹوٹنے میں اس سے بھی زیادہ پھرتی، یہ تو خندق کا انصاف ہے۔

آخر میں ایک گزارش! مملکت خدادا پاکستان چوں کہ اسلام کے نام پر بنی تھی، اس لیے یہاں اللہ کے نام پر سبھی کو چھوڑ دینا چاہیے، کہ روز قیامت خدا اپنے بندوں کا حساب خود ہی لے گا۔ بنا تفریق سیاسی ہے یا غیر سیاسی، امیر ہے یا غریب۔ اور جج صاحبان سے گزارش ہے کہ آپ نکڑ پر کھڑے ٹریفک کانسٹیبل سے ٹیوشن لیں، وہ تھوڑے پیسے لیتا ہے لیکن اپنی دُکان روز کی بنیاد پر چلاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).