جان لیوا شجاعت، جنگوں اور معرکوں کا رومانس


ماضی کو بدلا نہیں جا سکتا، نہ ماضی کو حال کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔ کم سے کم تاریخ کے ادراک اور سمجھ سے ہم حال میں رہتے ہوئے مستقبل کو بہتر بنانے کی سعی کر سکتے ہیں۔ ہم آج جو کچھ ہیں وہ اس لئے کہ ہم کل کیا تھے۔

برطانیہ گریٹ گیم کی پوری منصوبہ بندی کر چکا تھا اور اس سارے منصوبے کے اطلاق کے لئے برطانیہ کو براہِ راست یہاں براجمان ہونا تھا۔ اس خطہ پر براہ راست تسلط کا فیصلہ پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا۔

1857 کی جنگ آزادی کے بعد بتدریج ایسٹ انڈیا کمپنی کا اثر رسوخ کم ہونے لگا۔ جیسا کہ پچھلے مضمون میں ذکر کیا گیا تھا کہ 1857 کی بغاوت کے بعد کہ ایسٹ انڈیا کمپنی سے کنارہ کشی اختیار کرنے والے سپاہیوں کی بیشتر تعداد برطانیہ کی فوج میں شامل ہوئی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج میں کثیر تعداد بنگال، بِہار، اُتر پردیش اور اودھ سے تعلق رکھنے والوں کی تھی۔ بغاوت میں حصہ لینے والے سپاہیوں میں نسبتاً مسلمانوں اور سکھوں کی تعداد زیادہ تھی۔ یہ جاننا اس لئے اہم ہے کہ بغاؤ تِ ہند کا بنیادی مقصد ایسٹ انڈیا کمپنی سے آزادی حاصل کرکے بہادر شاہ ظفر کو دوبارہ تحت پر براجمان کرانا تھا جو کہ اس وقت مغلوں کے حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے غیر یقینی تھا لیکن اس ایجنڈے پر مسلمان خاصی تعداد میں متحرک ہوئے۔

کمپنی کے خلاف برصغیر کے لوگوں میں ایسی جذباتی فضا پیدا ہوئی کہ انہیں تختِ مغلیہ بھی اپنا محسوس ہونے لگا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے رویہ اور کسانوں پر ٹیکس لگا کراپنے خلاف پہلے سے محاز کھول رکھا تھا۔ بہت سے زمینداروں کی ہمدردیاں ایسٹ انڈیا کے خلاف بغاوت میں حصہ لینے والے سپاہیوں کے ساتھ تھی۔ بغاوتِ ہند کے ضمن میں نانا صاحب، رانی لکشمی بائی (جھانسی کی رانی)، افتخار النسا (حضرت محل )، منگل پانڈے سمیت بہت سارے لوگوں کی جدوجہد قابلِ ذکر ہے۔ ان سب کا مقصد ایک ہونے کے باوجود یہ بغاوت دھڑوں میں رونما ہوئی۔ انگریز کے لئے یہ صورتحال سانپ مرنے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹنے جیسی تھی۔

انگریزوں نے براہ راست اقتدا ر سنبھالنے کے بعد لوگوں کو فوج کی طرف مائل کرنے کے لئے اس دور میں ”مارشل ریسز ” نامی اصطلاح متعارف کروائی۔ اس کا مقصد برصغیر کی روایتی برادریوں اور ذاتوں کو دو اکائیوں میں تقسیم کرنا تھا۔ اس اصطلاح سے مارشل اور نان مارشل ریسز کی تفریق پیدا ہوئی اور بہت سی برادریاں جوکہ اس وقت معاشی طور پر بھی مستحکم تھیں زعم ِ شجاعت کا شکار ہوئیں۔ مارشل ریسز کہلانے والی ذاتوں میں اعوان، راجپوت، جٹ، گکھڑ، ملک، گجر، نیر، ڈوگرا، پشتون اور بلوچوں کی برادریاں شامل تھیں۔ اور اس طرح گھر کو آگ لگانے کے لئے گھر کا چراغ ہی استعمال کیا گیا۔ انگریزوں کی مارشل ریسز کے علاوہ بھی کچھ مارشل ریسز وجود رکھتی تھیں۔ جنہوں نے انگریزوں سے بغاوت کی۔ ان مارشل ریسز کو جاگیروں، عورتوں اور ہر قسم کے مال و متاع سے محروم کر دیا گیا اور وہ جانگلی کہلائے۔

انگریز نے یہاں اپنا تسلط قائم کرنے کے لئے فوج اور جاگیرداروں سے کام لیا۔ لوگوں کو وفاداری کے عوض خان بہادر اور رائے بہادر کے القابات سمیت لمبی چوڑی جاگیروں سے نوازا گیا۔ جاگیرداروں کے ذریعے لوگوں کو قابو کیا گیا اور اس مقصد کے لئے بہت سے جاگیرداروں کو مجسٹریٹ کے اختیارات اور جیل قائم کرنے کی بھی اجازت تھی۔

برصغیر سے ہونے والی بھرتی کو انگریزوں نے اندرونی اور بیرونی مقاصد کے لئے استعما ل کیا۔ ہندوستانی فوج نے برصغیر میں انگریزوں کے خلاف ہونے والی بغاوتوں کا قلع قمع کیا اور انگریزوں کو ہندوستان میں پھیلاؤ کے لئے بھرپور معاونت بھی فراہم کی۔ انہیں دنوں میں انگریز نے فوجِ برطانیہ طرز پر یہاں کی فوج کا ڈھانچہ تشکیل دیا اور چھاؤنیوں ا ور فوجی عمارتوں کی تعمیرکی بنیاد رکھی۔ لارڈ کچنر نے 1903 میں ہندوستانی فوج کا قلمدان سنبھالا اور بڑے پیمانے پر اصلاحات کیں۔ تمام بڑے عہدے اس وقت انگریزوں کے پاس تھے۔ ہندوستان سے تعلق رکھنے والوں کو اچھی تنخواہوں پر انگریزوں کی سرپرستی میں کام دیا گیا۔ کسی بھی ہندوستانی کے پاس انگریزوں کے برابر کا کوئی عہدہ نہ تھا۔

1914 میں جنگ عظیم اول کا آغاز ہوا تو برصغیر سے ڈیڑھ لاکھ ہندوستانی فوجیوں نے جنگ میں شرکت کی۔ اس مقصد کے لئے فوجیوں کو مشرق وسطیٰ لے جایا گیا۔ جہاں فوج پہلے یپرس اور پھر ترکوں کے خلاف کمر بستہ ہوئی۔ ’خداد خان‘ وہ پہلا ہندوستانی فوجی تھا جسے جرات مندی سے لڑنے پر ’وکٹوریہ کراس‘ سے نوازا گیا۔ وکٹوریہ کراس سب سے افضل جنگی اعزاز تھا۔ اس جنگ میں ہندوستانی فوجیوں نے 13000 میڈلز جیتے، جن میں 12 وکٹوریہ کراس میڈل بھی شامل تھے۔ ہندوستانی فوج میں سے 47 ہزار فوجیوں نے جانیں گنوائیں اور 60 ہزار سے زائد فوجی ہسپتالوں کی زینت بنے۔

اس خطے کی فوج جنگ عظیم اول میں ترکوں کے خلاف لڑی اور اس خطے کے سیاست دانوں نے ترکش خلافت کے تحفظ کے لئے خلافت تحریک چلائی۔

1939 میں دوسری جنگِ عظیم کا آغاز ہوا۔ جنگِ عظیم دوم میں بھی ڈھائی لاکھ ہندوستانی فوجی جاپان اور جرمنی سمیت مختلف محاذوں پر مد مقابل فوجوں سے لڑنے کے لئے شریک ہوئے اور 87 ہزار فوجیوں نے جانیں گنوائیں۔ اس جنگ کے نتیجے میں بھی 30 وکٹوریہ کراس میڈل ہندوستانی فوج کے حصہ میں آئے۔ اس طرح سے اس خطے سے تعلق رکھنے والوں کو زعم ِ شجاعت میں کس بے دردی سے ان توپوں کے آگے جھونکا گیا جن سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں تھا

ایرک ماریہ ریمارک نے اپنے جنگ عظیم اول پر مبنی ناول ”آل کوائٹ آن ویسڑن فرنٹ ”کے ابتدائیہ میں لکھاہے کہ

” یہ کتاب الزام ہے نہ ہی کوئی اعتراف، اور قطعاً کوئی ایڈونچر نہیں، کیونکہ موت ایڈونچر نہیں۔ خاص طور پر جو موت کے روبرو ہوں موت ان کے لئے ایڈونچر نہیں ہوسکتی۔ یہ اس نسل کا قصہ ہے جو شاید میدان میں شیلوں سے تو بچ گئے لیکن جنگ کے ہاتھوں برباد ہوئے“

1947 کی تقسیم کے بعد ہندوستانی فوج کو بھی تقسیم کر دیا گیا۔ پاکستانی فوج میں تجربہ کار افسروں کی کمی کے پیشِ نظر انگریز 1950 تک بھاری تنخواہ کے عوض پاکستان آرمی میں اہم عہدوں پر تعینات رہے۔

26 اکتوبر 1947 کو کشمیر تنازعے پر پہلی جنگ ہوئی اور اس کے بعد سے آج تک ہم حالت ِ جنگ میں ہیں یا رکھے گئے ہیں۔

کسی بھی ملک کے لئے مضبوط فوج ہونا اس ملک کے استحکام اور دفاع کے لئے بہت ضروری ہے۔ شہدائے وطن کی قربانیوں کا پاس کرنا تمام شہریوں کا فرض ہے۔ یہ ملک مضبوط اداروں اور سیاسی استحکام سے ہی آگے بڑھ سکتا ہے لیکن جان لیوا شجاعت، جنگوں اور معرکوں کا رومانس یا ایسے کارناموں پر فخر قابلِ غور ہے۔ جنگ ضرورت اور حالات کی سنگینی میں کیا جانےوالا انتہائی فیصلہ ہوتا ہے کیونکہ جنگ کسی مسئلہ کا حل نہیں۔ آخرِ کار مسئلہ کا حل میز پر ہی نکلتا ہے۔ لیکن جانے ہم کب سمجھیں گےکہ ہم جیسا تیسری دنیا کاملک اگر دفاع میں سب کچھ خرچ کرے تو عوام کی فلاح دیوانے کا خواب ہی رہے گی۔ اور یہ مان بھی لیا جائے کہ بیرونی قوتیں ہمیں عدم استحکام کا شکار کرتی ہیں پھر بھی ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).