پاک بھارت تعلقات کے نادیدہ کھلاڑی


پاکستان کی نئی کٹھ پتلی حکومت کے سربراہ عمران خان نے اپنی وکٹری اسپیچ میں غالباً اپنے حقیقی بالادست حلقوں سے پوچھے بغیر بہت سے ایسے اعلانات کئے تھے جن پر بعد میں ان کو یوٹرن لینا پڑا۔ ان اعلانات میں خطے میں امن کی خاطر بھارت کے ساتھ خوشگوار تعلقات اور بہتر ہمسائیوں کی حیثیت میں ٹیبل ٹاک کے ذریعے مسائل کو حل کرنے اور امن مذاکرات کو آگے بڑھانے کی امید ظاہر کی تھی۔ میں سمجھتی ہوں یہی وہ اہم مدعا تھا جو پاکستان کی مقتدر اشرافیہ کو ناگوار گزرا جنہوں عمران خان کو اقتدار کے دروازے تک پہنچایا تھا۔

کیونکہ ماضی قریب میں جب بھی پاکستان کی سول اشرافیہ نے پاک بھارت تعلقات کو بہتر کرنے کی کوشش کی ہے تو ان کو ناکام بنانے کے لئے خفیہ ہاتھوں کی جانب سے ہتھکنڈے اسعتمال کئے گئے۔ واہگہ سے بس روٹ چلنے اور تجارت پر کارگل وار ہو یا مودی اور نواز ملاقات کے بعد پٹھان کوٹ میں دہشتگردوں کا حملہ ہو۔ کوئی مانے یا نہ مانے ان سب باتوں کا آپسی تعلق ضرور ہے۔ اسی طرح اس مرتبہ بھی نئی حکومت کے سربراہ نے صاحبان ذی وقار سے پوچھے بغیر بھارت سے تعلقات استوار کرنے کے اعلان کیا تو ان کے مناسب علاج کا بندوبست کیا گیا۔

ایک ایسا ناٹک رچایا گیا جس پر شیکسپیئر اور ہنرک ابسن بھی دنگ رہ جاتے۔ نئی حکومت بننے کے کچھ ہی دن بعد وزیراعظم کو جی ایچ کیو میں آٹھ گھنٹے طویل بریفنگ دی گئی جس کے بعد وزیراعظم کی جانب سے بھارتی حکومت کو مذاکرات کے لئے خفیہ خط لکھا گیا۔ تین سال سے منقطع تعلقات پھر سے جڑنے لگے۔ بھارت نے مذکرات کی حامی بھرلی اور اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقعے پر وزراء خارجہ کی ملاقات پر راضی ہو گیا۔
خط کے فورً بعد دو ماہ پرانی کشمیر ملیٹنٹ گروپ کے کمانڈر شہید برہان وانی کے نام سے پاکستان پوسٹ کی جانب سے ڈاک والی خبر پاکستان ایسوسی ایٹ پریس اے پی پی پر شائع ہوئی۔ دوسرے ہی دن ایل او سی پر فائرنگ ہوئی جس میں بھارتی فوجی کی لاش کی مبینہ بے حرمتی کا نیا معما بن گیا۔ ان دوخبروں کے بعد بھارتی حکومت مذاکرات سے پیچھے ہٹ گئی اور وزراء خارجہ کی ملاقاتیں منسوخ کردیں۔

اب اتنا سب ہونے کے بعد لازمی ردعمل آنا تھا۔ ہندستان جہاں عام انتخابات قریب ہوتے جارہے ہیں وہیں وہ بھی لوگوں کو پاک بھارت دشمنی کا لولی پاپ دے کر عوامی حمایت کی خاطر کافی جذباتی انداز میں لفظوں کے جوابی حملے کررہے ہیں۔ دونوں ملکوں کی سویلین سیاسی اشرافیہ نے ایک دوسرے پر طعنہ زنی شروع کردی، طعنہ زنی تیروں میں تبدیل ہوگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے دونوں ملکوں کی سیاسی سویلین اشرافیہ ایک دوسرے سے بہت دور چلی گئی۔ جہاں امن کی باتیں ہورہی تھی وہیں اب جنگ کی باتیں کرکے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششیں جاری ہیں۔

اس ساری فلم میں ہماری بدنصیبی یہ بھی ہے کہ ہمیں جو نیا حکمران ملا ہے وہ انتہائی جذباتی اور دوراندیشی سے ناواقف شخص ہے، جس کے پاس کوئی واضح ویژن نہیں ۔ اس کو چابی پر استعمال کیا جارہا ہے کبھی کبھار وہ چابی زیادہ چل جاتی ہے جس سے کاٹھ کا گھوڑا ہدف سے آگے نکل جاتا ہے، جسے واپس طے شدہ میدان میں لانے کے لئے کوشش کرنا پڑتی ہے۔ اس کا نقصان یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مسائل کا قابل عمل حل مزید مشکل ہو جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).