ملتان کا سفر اور کچھ دیر کتابوں کے درمیان


”کتابیں اہلِ علم کاحقیقی سرمایہ ہوتی ہیں‘‘۔ اس قول کا عملی مشاہدہ گزشتہ ہفتے ملتان کے ایک کتب خانہ کو دیکھنے پر ہوا۔ بہت عرصہ پہلے مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی رہنما مولانا اللہ وسایا مدظلہ نے بتایا کہ مجلس تحفظ ختم نبوت کے کتب خانے کا کیٹلاگ تیار ہو رہاہے۔ پھر جب یہ خوش خبری ملی کہ کتب خانہ کمپیوٹرائزڈ ہو چکا ہے توکتب خانہ دیکھنے کا اشتیاق مزید بڑھ گیا۔ مولانا اللہ وسایا سے رابطہ ہوا تواُنھوں نے کہا کہ آپ یہاں تب آئیں کہ جب میں ملتان میں موجود ہوں، تاکہ آپ کواِستفادہ کرنے میں آسانی ہو۔ اِس دوران میں نواسۂ امیر شریعت محترمی سید محمد کفیل بخاری حفظہ اللہ بھی مولانا سے مسلسل رابطے میں رہے۔ بالآخرمجھے حضرت شاہ صاحب نے مطلع فرمایا کہ مولاناسے 6، 7، 8محرم الحرام کے ایام طے ہو گئے ہیں۔

شاہ جی لاہور تشریف لائے ہوئے تھے، میں بھی تلہ گنگ سے لاہور پہنچ گیا۔ رات دفتر احرار لاہور میں قیام ہوا اور صبح شاہ جی کی معیت میں ملتان کا سفر شروع ہو گیا۔ چیچہ وطنی جناب عبداللطیف خالد چیمہ مرکزی ناظم اعلیٰ مجلس احراراسلام کا مستقر ہے۔ اِن دنوں وہ علیل ہیں، ان کی بیمار پرسی کے لیے چیچہ وطنی (ضلع ساہیوال)میں پڑاؤ ہوا۔ اُن کی عیادت اور اہم مشاورت کے بعد ظہر کی نماز جامع مسجد میں ادا کی، دفترمیں کھانا کھایا اوروہاں سے رخصت ہو کر ملتان کے راستے پر ہو لیے۔ ڈاکٹرمحمدآصف ناظم شعبہ دعوت و اِرشاد مجلس احراراسلام کی خوش گفتاری سے فاصلے کی طوالت کا احساس ہی نہ ہوا اورہم ملتان پہنچ گئے۔

رات کو خانوادۂ امیرشریعتؒ کے مرکز دارِ بنی ہاشم میں قیام ہوا۔ حضرت امیر شریعت سیدعطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے فرزند ارجمند، قائدِ احرار حضرت پیر جی سید عطاء المہیمن بخاری دامت برکاتہم اِن دنوں صاحبِ فراش ہیں۔ بہت کمزور ہو چکے ہیں، چند قدم چلنا بھی دشوار ہو چکا ہے۔ اُن کی بیمار پرسی کی اور دعائیں لیں۔ 6محرم الحرام کی صبح کو ختم نبوت کے دفتر مرکزیہ میں مولانا اللہ وسایا ہمارے منتظر تھے۔ حضرت شاہ صاحب کے ہمراہ وہاں حاضری دی۔ مولانا اللہ وسایا سے مل کر احساس ہوا کہ ابھی پرانے وقتوں کے لوگ موجود ہیں۔ اُن کی شفقت و محبت، والہانہ استقبال اوربے تکلفانہ سلوک نے ہمارے عزم و حوصلہ کو مہمیز دی۔ اللہ اُن کی عمر میں برکت دے، ایسے مشفق بزرگ اب قصۂ ماضی بنتے جاتے ہیں۔ اُن کا وجودغنیمت ہے۔

وہ مولانا محمدعلی جالندھری، مولانامحمدحیات، مولانالال حسین اختراورمولانا تاج محمودرحمہم اللہ تعالیٰ جیسے بزرگوں کی تربیت اور صحبتوں سے فیض یافتہ ہیں۔ لذتِ کام و دہن سے فارغ ہوئے تو مولانا اللہ وسایا نے پوچھا کہ کام کہاں سے شروع کیا جائے۔ مجھے مجلس احرار اسلام کی تاریخ سے متعلق مطبوعہ کمیاب کتب و رسائل اور اخبارات کی ضرورت تھی، کیونکہ میں احرارکی تاریخ اور اُس کی بپا کردہ تحریکوں پر تحقیقی و تصنیفی کام کر رہا ہوں۔ اِس لیے کتب دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تو مولانا نے کتب خانہ کے ایک کارکن بھائی مولانا محمد وسیم کو کمپیوٹرائزڈ فہرست دکھانے کے لیے کہا۔ سلیقہ و ترتیب سے تیار شدہ فہرست سے استفادہ کرنے میں بہت آسانی ہوئی۔ مطلوبہ کتب میسر آئیں تواُنھیں فوٹو سٹیٹ کرا لیا۔ بعد ازاں مجلس احرار کے اخبار روزنامہ ”آزاد‘‘ لاہور، اور ہفت روزہ ”افضل‘‘ سہارنپور کے بعض شماروں کی اہم خبروں کے موبائل سے فوٹو لیے۔

کتب خانے میں مسلسل تین روز آمد و رفت رہی اور طبیعت خوش ہوئی کہ بیشتر مطلوبہ مواد یہاں سے میسر آگیا اور یہ سب مولانا اللہ وسایا کی شفقت، کتاب دوستی اور علم سے محبت کا نتیجہ تھا۔ بعد اَزاں اُن سے کتب خانے کے حوالے سے بات ہوئی تواُنھوں نے بتایا کہ مولانا لال حسین اختر رحمہ اللہ کی امارت کے زمانے میں کتب خانہ کا کام بغیر کسی کے کہنے پر میں نے محض اپنے شوق سے سنبھالا اور پھر حضرت مولانا خواجہ خان محمد رحمہ اللہ کے دور میں تمام ذمہ داری میرے سپرد ہو گئی۔ قیمتی، نادر و نایاب کتب کو اِکٹھا کرنا مولانا اللہ وسایا کی ذاتی دلچسپی اور محنت کا مرہون منت ہے۔ انھوں نے ایک ایک ورق اکٹھا کیا اور اب یہ عظیم کتب خانہ 25ہزار کتب اور نادر اخبارات و جرائد پر مشتمل ہے۔ جس سے فائدہ اٹھانے کی اہلِ علم کو مکمل آزادی اور سہولت ہے۔

یادرہے کہ اس کتب خانہ میں موجود اَحرار کے ترجمان روزنامہ”آزاد‘‘ اور ہفت روزہ ”افضل‘‘ کے فائل دراصل مولاناتاج محمودؒ (بانی مدیر”لولاک‘‘) کی ذاتی لائبریری کا حصہ تھے جو مولانا تاج محمود کی وفات کے بعداُن کے بیٹے صاحبزادہ طارق محمودؒ نے عطیہ کیے تھے۔ یہ علمی ایثاروقربانی کی ایک قابل تقلیدمثال ہے۔ اِس کردارکا تسلسل ہی ایسی تاریخی امانتیں محفوظ ہاتھوں کو سونپ سکتاہے، وگرنہ نا اہل اولادوں اورناخلف ورثاکے ذریعے انتہائی قیمتی کتب کے ضائع ہوجانے کے سینکڑوں واقعات موجودہیں۔

پاکستان میں کئی ایسے ذاتی کتب خانے بھی ہیں کہ اُن سے کسی کو نفع اٹھانے کی کوئی سہولت دستیاب نہیں ہے اورانہیں دیمک چاٹ رہی ہے۔ حالانکہ علم کا فروغ صدقۂ جاریہ ہے۔ اگرذاتی کتب خانوں کو قابل اعتماداِداروں کے سپردکردیاجائے توجہاں علمی سرمایہ محفوظ ہوجاتاہے، وہاں اہل علم کو علمی پیاس بجھانے کے مواقع بھی میسرآتے ہیں۔

مجلس احرار اسلام تحریکِ آزادی اور تحفظ ختم نبوت کی سرخیل جماعت ہے۔ اب اللہ کے فضل وکرم سے میرے سمیت مختلف احباب احرار کی تاریخی خدمات کو مرتب کرنے میں مصروف ہیں۔ اِس سلسلہ میں ملک بھر کے اُن تمام احباب سے گزارش ہے کہ جن کے پاس مجلس احرار اسلام کے اخبارات روزنامہ ”مجاہد لاہور، ”روزنامہ ”احرار‘‘لاہور، روزنامہ”آزاد‘‘لاہور، ہفت روزہ ”افضل‘‘ سہارنپور سمیت احرار کی طرف سے تقسیم ہند سے پہلے شائع ہونے والے کتابچے، قرار دادیں، خطبات، خطوط اور تصاویروغیرہ موجود ہوں تو ازارہِ کرم ہمیں ضرور مطلع فرمائیں۔

اگرممکن ہوتواُن کی فوٹوسٹیٹ کراکے بھجوا دیں، ورنہ حکم فرمائیں، ہم خود حاضر ہو کراِستفادہ کریں گے۔ اسی طرح یہ تاریخی ریکارڈ محفوظ ہو سکتا ہے۔ امید ہے کہ قارئین کا حوصلہ افزا جواب ہماری ہمت و حوصلے کو مزید بڑھانے کا باعث بنے گا اوراُن کے تعاون سے اکابر کی جدوجہدکی تاریخ مرتب ہو کرآنے والی نسلوں کی تربیت وتہذیب کا باعث بنے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).