سائبان


ایک چھناکا ہوا اور اندر ہی اندر کوئی چیز ٹوٹ کر کِرچی کِرچی ہو گئی۔ اُنھوں نے سر اُٹھا کر اپنے شوہر کی طرف دیکھا۔ وہ گھمبیر سی صورت بنائے زیورات کے معائنے میں مصروف تھے۔ یہ وہ زیور تھے جنھیں وہ پہن کر دُلھن بنی تھیں۔ اِن زیوروں سے کئی خواب وابستہ تھے۔ اُن کے دل میں ایک عجیب سی خواہش نے انگڑائی لی، کہ ایک بار صرف ایک آخری بار وہ زیور پہن کر آئنے میں دیکھیں، کہ وہ کیسی لگتی ہیں۔ آئنے میں اپنی جوانی کا عکس ڈھونڈیں۔ حالاں کہ وہ جانتی تھیں، کہ آئنے پُرانے عکس نہیں لوٹا سکتے۔ وہ دِل ہی دِل میں اِس خواہش پر مسکرا اُٹھیں اور سر کی جنبش سے اس خیال کو ہلکے سے جھٹک دیا۔ اِس خیال سے کہ شوہر کہیں یہ نہ سمجھ بیٹھیں، کہ اُن کے دِل میں زیورات کی چاہت ابھی تک باقی ہے اور اُنھیں بیچنے کا خیال ترک کر دیں۔ آج اُن کے شوہر کا مان ٹُوٹ چکا تھا۔ اُن کی بہنوں کے زیور کبھی کے بِک چکے تھے لیکن اُن کے اُصولی شوہر نے ہاتھ بندھے ہوئے ہونے کے باوجود کبھی اُن کے زیورات کو ہاتھ نہیں لگایا تھا۔ وہ نپی تلی زندگی گُزارنے کے عادی تھے۔ اپنی ضرورتوں کو وہ اپنی آمدنی کے تابع رکھتے تھے۔ رہی خواہش تو اُن کی کوئی خواہش ہی نہ تھی۔ شاید اُن کی خواہشیں بچپن کی بے آسرا زندگی ہی میں دم توڑ گئیں تھیں۔

ابھی اُن کی عمر اُنگلیاں تھام کر چلنے کی تھی، کہ اُن کے ماں باپ نے اُن کا ساتھ چھوڑ دیا۔ اُنھیں تائی نے جو خود بیوہ تھیں، پالا پوسا تھا۔ اُن کے گھر میں خواہشوں کا کوئی ڈیرا نہ تھا۔ دادا کا چھوڑا ہوا ایک گھر تھا، جِس میں وہ اپنی بیوہ تائی اور تایا زاد بھائی کے ساتھ رہتے تھے۔ وہ گھر بھی شومئی قسمت سے ’’آرائش‘‘ کی نظر ہو گیا تھا‘ جب سکندر آباد ریلوے اسٹیشن جانے والی Kings Way سڑک بنائی گئی۔ وہ سڑک اُن کے گھر کو روندتی ہوئی چلی گئی تھی۔ پھر اُن کے ایک پھوپھی زاد بھائی نے اُن لوگوں کو پناہ دی تھی۔ اُن لوگوں کی زندگی ایک مکان سے ایک کمرے میں سِمٹ آئی تھی۔ اُس کے بعد وہ خواہش کرتے تو کِس سے کرتے۔ مصائب کا ایک اندھیرا تھا، جسے وہ لوگ اپنی پیہم جدوجہد کی لو سے اُجالنے کی کوشش کرتے تھے۔ یہی کیا کم تھا کہ پھوپھی زاد بھائی کے احسان کی وجہ سے وہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکے‘ ورنہ ڈر تھا کہ وہ کہیں چھوٹ نہ جاتی۔ غرض اُنھوں نے ساری زندگی اُصولوں کی کڑی دُھوپ میں طے کی تھی۔ کوئی چھاؤں اُنھیں میسر نہیں آئی تھی اور کسی نے اُن کے ماتھے کا پسینا نہ پونچھا تھا۔

جب وہ بیاہ کر اُن کے گھر آئیں تھیں، تو اُن کے دِل میں بھی ارمان تھے، خواہشیں تھیں۔ وہ اُن کو بھی اُصولوں کی کسوٹی پر گھس دیتے تھے۔ بیوی نے بھی اپنے آپ کو شوہر کے رنگ میں بلکہ بے رنگی میں ڈھال لیا تھا۔ اب اُنھوں نے بھی دِل میں ارمانوں کو بسانا چھوڑ دیا تھا۔ مگر ایک خواہش ایسی تھی جِسے وہ کبھی دِل سے نہیں نِکال سکیں۔ وہ خواہش تھی ایک خوب صورت سے گھر کی، جِسے وہ اپنی مرضی سے سجا سنوار سکیں۔ گھر اُن کے لیے ایک خواہش تھی، جب کہ اُن کے شوہر کے لیے ایک ضرورت۔ اُنھیں ایک آس تھی کہ ایک نہ ایک دِن اُن کی بچت زمینوں کے داموں سے زیادہ ہو جائے گی اور وہ زمین خریدنے میں کام یاب ہو جائیں گے۔ پھر پراویڈنٹ فنڈ اور کچھ رِٹائرمنٹ کے بعد وظیفہ بیچ کر وہ ایک گھر بنا ہی لیں گے۔ وہ اپنی زندگی ہی میں اپنی اولاد کے لیے ایک سائبان فراہم کرنا چاہ رہے تھے۔ زمینوں کے دام کبھی اُن کی گرفت میں نہیں آ سکے۔ اُن کا اعتماد ٹوٹ چکا تھا۔ وقت نِکلا جارہا تھا اور وہ وقت سے شکست کھا چکے تھے۔ آج اُنھوں نے مجبور ہوکر بیوی کا زیور بیچ دینے کا فیصلہ کر لیا تھا، تا کہ اپنی بچت کے پیسے مِلا کر زمین خرید سکیں۔ زیور پرکھتے وقت اُن کے چہرے پر شکست کی نا چاری نمایاں تھی۔

زیور بِک گئے۔ کچھ خواب بچ گئے۔ کچھ خواب کِرچی کِرچی ہو گئے۔ کچھ دِن رنج و ملال رہا۔ زمین خریدی گئی‘ زیور بِکنے کا افسوس تو تھا لیکن ساتھ ہی زمین خریدنے کی خوشی بھی تھی۔ مکان کی خواہش پھر اُن کے دِل میں انگڑائی لینے لگی۔ اُن کے شوہر مکان کا نقشہ بنوانے میں مصروف ہو گئے۔ وہ مدّرس تھے ہر چیز میں پرفیکشن کے عادی تھے۔ نقشے کے سلسلے میں بھی وہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں تھے۔ ایک نقشہ اُنھوں نے اپنے پھوپھی زاد بھائی کے لڑکے سے بنوایا تھا۔ ایک نقشہ اُن کے پرانے شاگرد نے بنا کر دیا۔ ایک دوست کا گھر اُنھیں پسند تھا، اُس کا بھی نقشہ وہ اُٹھا لائے تھے۔ صرف نقشہ بنوانے سے اگر گھر بن جاتے تو تین گھر تیار ہو گئے تھے۔ نقشے کے علاوہ بھی کئی مراحل تھے‘ مسائل تھے۔ پلاٹ جو خریدا گیا تھا وہ شہر کے مضافاتی علاقے میں پلان کی گئی ایک نئی کالونی میں تھا، جہاں پانی کی سہولت نہ تھی۔ بجلی اور ڈرینیج کا انتظام نہ تھا۔ پانی کے بغیر تعمیر ممکن ہی نہ تھی۔ جن لوگوں کے پاس پیسے کی فراوانی تھی، اُن لوگوں نے بور ویل یا کنویں کھدوا کر تعمیر کا آغاز کر دیا تھا۔ محدود رقم ہونے کی وجہ سے وہ روپیہ خرچ کر کے پانی کا فوری انتظام نہیں کر سکتے تھے۔ بلدیہ کی طرف سے اِن سہولتوں کا انتظام ہونے میں دو چار سال لگ سکتے تھے لیکن اِنتظار کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ اِس دوران وہ رِٹائر ہو گئے‘ آمدنی میں ایک دم کمی ہو گئی۔ یہ ایک نیا تجربہ تھا۔ خرچ میں کمی کرنا مشکل تھا۔ وہ اسراف کے عادی ہی نہ تھے کہ خرچ گھٹایا جا سکے۔ بچے ابھی پڑھ رہے تھے‘ اُن کی تعلیم کے بڑھتے ہوئے تقاضے تھے۔ سکڑتے ہوئے وسائل تھے۔ بڑھتے ہوئے مسائل تھے۔ دِن بہ دِن بھاگتی ہوئی قیمتیں تھیں۔ وہ نئے سِرے سے وسائل جوڑنے میں مصروف ہو گئے۔ وسائل جوڑتے جوڑتے وہ زندگی سے ایک دن شکست کھا گئے اور گھر بسانے کی حسرت دل میں لیے اِس دُنیا سے رُخصت ہو گئے۔

اُن کے شوہر اپنے پیچھے پانچ چھہ بیاض چھوڑ گئے تھے، جن میں اُن کی آمدنی اور خرچ کا ایک ایک پائی کا حِساب لِکھا ہوا تھا۔ یہ ایک مدرِس کی بندھی ٹکی آمدنی کا حِساب تھا، جِس کی ایک اسمگلر‘ ایک بے ایمان سیاست دان یا رِشوت خور افسر کی نظر میں کوئی وقعت نہیں تھی، لیکن اُن کے لیے یہ ساری زندگی کا حاصل تھا۔ ساری زندگی کا حِساب تھا، جِسے اُن لوگوں نے جِیا تھا۔ اُن بیاضوں کے ساتھ قلم دان میں ایک بوسیدہ نقشہ تھا، جو شاید اُن کے آبائی گھر کا نقشہ تھا۔ یہ بوسیدہ نقشہ شاید اُن کے لاشعور میں لگی ہوئی ایک گِرہ تھی، جو زِندگی بھر مکان بنانے میں حائل رہی۔ مکان کے نقشے اُنھی بیاضوں کے ساتھ رہ گئے۔ ذاتی مکان کی خواہش پیاسی رہ گئی۔ وقت کی کسوٹی نے ایک بار پھر اُن کے خوابوں کے گھس ڈالا تھا۔ اب مکان بنانے کا کوئی سوال ہی نہ تھا۔ بچوں کی تعلیم ختم ہونے تک زندگی چلانا ہی سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ بڑا لڑکا انجینئرنگ کے تیسرے سال میں تھا۔ دوسرے لڑکے کو ابھی آرکِٹکچر میں داخلہ مِلا تھا۔ چھوٹا ابھی انٹر ہی میں تھا۔ خوش آیند مستقبل کے خواب تھے۔ تعلیم چھڑائی نہ جا سکتی تھی۔ بچوں کی تعلیم اُن کے شوہر کا خواب تھا۔ مسائل سے لڑتے لڑتے جب وہ ہِمّت ہار جاتے تو افسردہ ہو جاتے۔ پھر خود ہی ڈھارس بندھاتے کہ دوسال ہی کی تو بات ہے لڑکا انجینئر بن جائے گا۔ میرا ہاتھ بٹائے گا۔ مشکلیں آساں ہو جائیں گی۔ زِندگی کے آخری دور میں وہ بھی خواب دیکھنے لگے تھے۔ وہ اپنے خوابوں کو تو اُصولوں کی کسوٹی پر گھس دینے کی عادی تھے لیکن وہ اپنے بچوں کے خوابوں کو اپنے پسِینے سے سینچنے میں مصروف تھے۔ اب اُن خوابوں کی تکمیل کا بوجھ اُن کی بیوی پر آ پڑا تھا۔ یہ فرض اُن کے شوہر اُن پر چھوڑ گئے تھے۔ مکان بنانے کے لیے جو پیسا زندگی بھر قطرہ قطرہ جوڑا گیا تھا، وہ تین سال میں روزمرہ کی زندگی کی کش مکش میں خرچ ہو گیا۔

بڑے لڑکے کی تعلیم ختم ہوئی، مسائل کی شکل بدل گئی۔ ہندوستان میں سیکڑوں انجینئر بے روزگار تھے۔ میکنیکل انجینئرنگ کی اِتنی مانگ نہ تھی۔ بیٹے نے ’ایم ای‘ میں داخلہ لے لیا اور حسب معمول ٹیوشن پڑھا کر گھر کے اخراجات میں حِصّہ بٹاتا رہا۔ دو سال یونھی بے روزگاری کے نذر ہو گئے۔ اب اُس کا دل اُچاٹ ہو چکا تھا۔ وقت کی رفتار تیز ہو چکی تھی۔ مشرقِ وُسطیٰ میں تیل کی دولت دریافت ہو چکی تھی۔ لوگ جوق در جوق مشرقِ وُسطیٰ کا رُخ کر رہے تھے۔ آزاد و بیرون کا شور اور غلغلہ تھا۔ مشرقِ وُسطیٰ جانے کے لیے بھی پیسوں کی ضرورت تھی اور وہ تہی دست تھے۔ بیٹا باہر جانے کی سر توڑ کوشش میں لگا رہا لیکن وسائل کی کمی کے ہاتھوں ہار جاتا۔ آزاد ویزے اِستحصال اور دھوکے کی ایک نئی شکل تھے۔ کچھ سچائی اور بہت کچھ جھوٹ تھا؛ دھوکا تھا۔ دو ایک بار بیٹا بھی دھوکا کھا گیا۔ اُس کی ہمت بالکل ٹُوٹنے پر آ گئی۔ ماں سے نہ دیکھا گیا۔ اُنھوں نے زمین بیچ دی۔ یوں بیٹے کے مشرقِ وُسطیٰ جانے کے اسباب کا اِنتظام ہو سکا۔ کچھ خواب بچ گئے، کچھ خواب کِرچی کِرچی ہو گئے۔

آج گھر بھراؤنی کی تقریب تھی۔ تینوں بھائیوں کے چہرے خوشی کے جذبات سے تمتما رہے تھے۔ وہ بھی آج خوش تھیں۔ یہ گھر ماجد نے بنجارہ ہلز میں بنوایا تھا۔ گھر میں خود ایک آرکیٹکٹ تھا لیکن اُس کے باوجود ماجد نے اِس گھر کا نقشہ جِدّہ کی اپنی ملٹی نیشنل کمپنی کے فرنچ آرکیٹکٹ سے بنوایا تھا۔ زمین اور اُس کے اطراف و اکناف کے مکانوں کی تصویریں آرکیٹکٹ کو فراہم کی تھی، تا کہ اُس کا گھر بھی اُس خوب صورت ماحول میں گھل مِل جائے؛ پہاڑوں میں سجا ہوا خوب صورت مکان تھا۔ محفل اپنے عروج پر تھی لیکن اُن کے دِل میں ایک کھٹک سی تھی۔ اُنھوں نے اپنے دِل میں جھانک کر دیکھا۔ سارے گھر کی صفائی کرنے کے باوجود جیسے کسی کونے میں کوڑا رہ جاتا ہے، اُسی طرح دِل کے کسی حِصے میں کہیں بے وجہ اُداسی ڈیڑا جمائے پڑی تھی۔ اُنھوں نے سر کو جھٹک دیا۔ آج اُداس سوچوں کے تعاقب کے لیے وقت نہ تھا۔ آج اُداسی ایک جرم تھی۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

قیوم خالد (شکاگو)
Latest posts by قیوم خالد (شکاگو) (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2