کمسنی کی شادی: ‘کھیلنے کودنے کے دن تھے لیکن میں ماں بن چکی تھی’


نومولود بچے

پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے کے مطابق خیبر پختونخوا میں 15 فیصد لڑکیاں 15 سے 19 سال کے درمیان ماں بن جاتی ہیں

‘میری شادی 14 سال کی عمر میں کروائی گئی تھی۔ جب 15 سال کی ہوئی تو ماں بن گئی۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کس طرح بچے کو سنبھالوں۔ وہ دن تو ہمارے پڑھنے اور کھیلنے کودنے کے تھے، لیکن میں ماں بن چکی تھی۔’

یہ کہانی خیبر پختونخوا کے ضلع مہمند سے تعلق رکھنے والی عائشہ حسن کی ہے جو اب 48 سال کی ہیں۔

پشاور میں رہائش پذیر عائشہ ایک سرکاری دفتر میں ملازمت کرتی ہیں اور ان کے مطابق انھیں اب اندازہ ہوا ہے کہ ان کے خاندان نے چھوٹی عمر میں ان کی شادی کروا کے ان کے ساتھ کتنی ناانصافی کی تھی۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ بیاہ سے پہلے ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ شادی کس سے ہورہی ہے، نہ ہی انھوں نے لڑکے کو دیکھا تھا۔ ’اس وقت ایسا کوئی رواج تھا ہی نہیں کہ لڑکی پہلے لڑکے کو دیکھ لے اور لڑکی کے مشورہ سے شادی ہو سکے‘۔

مزید پڑھیے

کم عمری کی شادیوں کے خلاف خواتین علما کا فتویٰ

کم عمری کی شادی کے خلاف آگاہی کا انوکھا انداز

یونیسیف: کم عمری کی شادیوں کے واقعات میں کمی

‘تب دل بہت خفا تھا اور چھوٹی عمر میں اپنے والدین سے دور ساس کے گھر میں زندگی گزارنا بہت مشکل تھا۔ بچہ رات کو روتا تھا تو میں سوتی رہ جاتی کیونکہ میری آنکھ نہیں کھلتی تھی۔ بہت مشکل وقت تھا اور اب بھی وہ وقت یاد کر کے پریشان ہو جاتی ہوں۔’

عائشہ حسن

شوہر کی موت کے وقت عائشہ کے چھ بچے تھے، لیکن انھوں نے دوسری شادی نہیں کی

‘شوہر کی موت سے اکیلی رہ گئی

اپنے شوہر کی اچانک موت کے بارے میں بات کرتے ہوئے عائشہ حسن کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ وہ محض 26 سال کی تھیں جب ان کے خاوند کو دل کا دورہ پڑا اور وہ چل بسے۔

‘میں بالکل اکیلی ہو گئی تھی۔ شوہر جیسا بھی ہو، جیون ساتھی ہوتا ہے۔ خصوصاً ہمارے معاشرے میں بچوں کے سر کا سایہ بھی وہی ہوتا ہے۔’

شوہر کی موت کے وقت عائشہ کے چھ بچے تھے اور سب کی عمروں میں ایک یا دو برس کا فرق تھا۔ لیکن عائشہ نے دوسری شادی نہیں کی۔

وہ بتاتی ہیں کہ انھوں نے ہمت کر کے اپنے اپ کو اس قابل کیا کہ چھ کے چھ بچوں کو تعلیم دلوا سکیں۔

کم عمری میں شادی

طبی ماہرین کا خیال ہے کہ کم عمری میں ماں بننا زچہ اور بچہ دونوں کی صحت پر بری طرح اثرانداز ہوتا ہے

’ایک کٹھن مرحلہ‘

عائشہ حسن نے بتایا کہ شادی کے وقت انھوں نے آٹھویں تک تعلیم حاصل کی تھی، لیکن شادی کے بعد یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا ۔ لیکن شوہر کے وفات کے بعد انھوں نے دوبارہ سکول میں داخلہ لیا اور اب وہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ماسٹرز کر رہی ہیں۔

‘میرے خاندان والوں نے بہت مخالفت کی، کہا کہ یہ باہر نکل کر ملازمت نہیں کرے گی۔ لیکن میرے والد نے میرا ساتھ دیا اور انھوں نے ہی مجھے ملازمت کرنے کی اجازت دی۔‘

انھوں نے بتایا کہ وہ دو سال تک برقع پہن کر نوکری پر جاتی تھیں، لیکن اب وہی خاندان والے اس بات پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ ایک ماں اکیلے چھ بچوں کی کفالت کر رہی ہے۔

پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے کے مطابق خیبر پختونخوا میں 15 فیصد لڑکیاں 15 سے 19 سال کے درمیان ماں بن جاتی ہیں۔ خیبر پختونخوا میں یہ تناسب باقی صوبوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔

پنجاب میں یہ چھ فیصد، سندھ میں 10 فیصد، اسلام آباد میں پانچ فیصد، بلوچستان میں 12 فیصد اور قبائلی علاقوں میں یہ شرح 13 فیصد ہے۔

وقت سے پہلے پیدا ہونے والے بچے

ڈاکٹروں کے مطابق وقت سے پہلے پیدا ہونے والے بچوں کا وزن بہت کم ہوتا ہے اور ایسے بچوں کے زندہ رہنے کے امکانات کم ہوجاتے ہیں

کم عمر میں ماں بننے کے صحت پر منفی اثرات

طبی ماہرین کا خیال ہے کہ کم عمری میں ماں بننا زچہ اور بچہ دونوں کی صحت پر بری طرح اثرانداز ہوتا ہے۔

پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کی ڈاکٹر ملیحہ نثار نے بی بی سی کو بتایا کہ کم عمری میں ماں بننے کی وجہ سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں میں سب سے خطرناک بچے کا وقت سے پہلے پیدا ہونا ہے۔

ڈاکٹر ملیحہ نثار کے مطابق وقت سے پہلے پیدا ہونے والے بچوں کا وزن بہت کم ہوتا ہے اور ایسے بچوں کے زندہ رہنے کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔

’دوسری پیچیدگی خون کی دباؤ کا بڑھنا اور دوران زچگی زیادہ خون نکلنا ہے۔ اس سے ماں کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ کم عمری میں دوران حمل مردہ بچے بھی پیدا ہوتے ہیں اور مس کیریج کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔‘

کم عمری میں شادی

پاکستان میں کئی دہائیوں تک کم عمری کی شادیوں کو روکنے کے لیے 1929 میں بنا ‘چائلڈ میریج رسٹرینٹ ایکٹ’ ناٖفذ تھا

شادی کے لیے کم از کمعمر 18 سال

پاکستان میں کئی دہائیوں تک کم عمری کی شادیوں کو روکنے کے لیے 1929 میں بنا ‘چائلڈ میریج رسٹرینٹ ایکٹ’ ناٖفذ تھا۔ لیکن یہ قانون بہت پرانا بھی ہے اور اس میں کم عمری میں شادی کروانے والے کے لیے سزا بھی صرف ایک ماہ قید اور 1000 روپے جرمانہ ہے۔ اس قانون شادی کے لیے کم از کم عمر 16 سال مقرر تھی، جو ماہرین کے مطابق 18 سال ہونی چاہیے۔

تاہم صوبہ سندھ نے 2011 میں اس قانون کو تبدیل کر کے نیا قانون نافذ کردیا، جس کے تحت شادی کے لیے کم سے کم عمر 18 سال مقرر کر دی گئی اور قانون توڑنے والوں کے لیے سزائیں بھی بڑھا دی گئی ہیں۔

تاہم پنجاب کے 2015 کے چائلڈ میرج رسٹرینٹ ایکٹ میں لڑکی کے لیے شادی کی عمر 16 سال ہی ہے، جبکہ لڑکے کا کم از کم عمر 18 سال کا ہونا لازمی ہے۔ اس تضاد پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اعتراض کیا ہے۔

کم عمری میں شادی

خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے ایک مسودہ بنایا تھا جس میں شادی کے لیے کم از کم عمر 18 سال مقرر کی گئی، لیکن اس پر اب تک اتفاق نہیں ہو پایا

لیکن اس معاملے میں خیبر پختونخوا اب بھی باقی صوبوں سے پیچھے ہے۔ پاکسان تحریک انصاف کی پچھلی صوبائی حکومت میں 2014 میں ایک مسودہ بنایا تھا جس میں شادی کے لیے کم از کم عمر 18 سال مقرر کی گئی تھی، لیکن اس پر بھی اتفاق نہ ہو پایا۔

چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفئیر کمیشن خیبر پختونخوا کے محمد اعجاز نے بی بی سی کو بتایا کہ کم عمری کی شادیوں کے بارے میں 2014 کے مسودے کی تمام شقوں پر فریقین متفق تھے، لیکن عمر کی حد پر اعتراضات اب بھی موجود ہیں۔

‘کچھ مذہبی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ عمر کو نہ چھیڑا جائے۔ لیکن اب دوبارہ حکومتی سطح پر ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ایک مشاورتی میٹنگ ہو اور اس قانون کو حتمی شکل دیکر اسمبلی سے منظور کروائیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp