جماعت اسلامی – منزل ہے کہاں؟


مولانا مودودی مرحوم صدی کی عظیم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ جنہوں نے نہ صرف پورے خطے بلکہ پوری دنیا پر اثرات چھوڑے۔ جماعت اسلامی کی بنیاد رکھتے ہوئے واضح پروگرام کے تحت اسے آگے بڑھایا گیا۔ اسلامی تنظیموں کو ایسی شان و شوکت بہت کم ہی نصیب ہوئی۔ فوجی آمریت کے بارے میں ان کی سوچ اور خیالات بہت واضح تھے۔ جماعت اسلامی حقیقتاً ایک ایسی پارٹی رہی ہے کہ جس کے پاس ملک چلانے کیلئے ہر شعبہ کے بہترین دماغ اور پوری طرح سے قابل عمل پروگرام موجود تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ جماعت اسلامی وہ خیرہ کن سیاسی کامیابیاں حاصل نہ کرسکی جن کی وہ مستحق تھی۔ 1970ء کے عام انتخابات میں فتح کی قوی امید تھی مگر ایسا نہ ہو سکا۔ دعوت و تبلیغ اور سیاست کے بارے میں جماعت کو جو رہنمائی میسر رہی اس میں سماجی امور کے حوالے سے مولانا مودودی کی معرکہ آرا تحریروں کا بہت بڑا حصہ تھا۔

1971ء میں ملک دولخت ہونے سے پہلے جماعت اسلامی کی قیادت درویش صفت میاں طفیل محمد کو منتقل ہو چکی تھی۔ مشرقی پاکستان میں شورش برپا ہوئی تو جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے وابستگان نے البدر اور الشمس بنا کر پاک فوج کا دست وبازوبن کر ساتھ دیا۔ مکتی باہنی کی جنگی کارروائیوں کا بھر پور جواب دے کر ایک تا ریخ رقم کی۔ مولانا مودودی اس صورتحال پر بہت دل گرفتہ تھے۔ جماعت اسلامی اور اس کی ذیلی تنظیموں کے پلیٹ فارم سے کسی طرح کی مسلح کاروائیوں کے مکمل طور پر مخالف تھے۔ جماعت اور جمعیت کے حامیوں کو مسلح کارروائیوں کا حصہ بنتے دیکھ کر انہوں نے وہ تاریخی فقرہ کہا جس کا حوالہ تا دیر دیا جاتا رہے گا۔ مولانا کا کہنا تھا کہ ”ان لوگوں نے میری عمر بھر کی کمائی برباد کر دی“ ملک ٹوٹ گیا مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ نتیجتاً جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے بڑ ے بڑے نام آج تک پھانسیوں پر جھولتے آ رہے ہیں۔

جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاء کے کچھ عرصہ بعد مولانا مودودی خالق حقیقی سے جا ملے۔ فوجی آمر نے خطے کی صورت حال کو دیکھ کر اسلام کا نعر ہ لگایا تو جماعت اسلامی ایک بار پھر دست وبازو بن گئی۔ چند مرکزی رہنما مارشل لاء دور حکومت میں وزیر بھی بنے۔ تا ہم بعد میں حکومت سے الگ ہو گئے۔ اسی دور میں طلبہ یونینز پر پابندی لگی جس کا بڑا مقصد تعلیمی اداروں میں گہرا اثر و رسوخ رکھنے والی ملک گھیر تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کو نشانہ بنانا تھا۔ فوج نے جمعیت کے کارکنوں کے خلاف کریک ڈاﺅن کیا۔ مد د کیلئے جب منصورہ کی جانب دیکھا گیا تو الٹا یہ سننے کو ملا ایسا احتجاج کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ افغان جہاد کے اس” سنہرے دور“ میں اسٹیبلشمنٹ نے جماعت اسلامی کو خوب استعمال کیا۔ روسی فوج سے لڑائی شروع ہوئی تو ہزاروں کارکن جذبہ شہادت سے سر شار ہو کر ایندھن بننے کیلئے چلے گئے۔ جواں سال اور تازہ دم کارکنوں کی بڑی تعداد کی توجہ سیاست سے ہٹ گئی۔ اس کا خمیازہ تنظیم کو اٹھانا پڑا۔

اسی دوران کشمیرکا جہاد بھی شروع ہو گیا۔ جہاد کا نعرہ بلند ہوا تو نہ صرف افغانستان سے زندہ بچ کرآ نے والے بلکہ نئی نسل کے بھی سینکڑوں جوان داد شجاعت دینے پہنچ گئے۔ یہ جہادی کارروائیاں بلاشبہ صدق دل اور نیک نیتی کے ساتھ کی گئیں لیکن اس کا تنظیمی ڈھانچے پر زبردست اثر پڑا۔ وہ جماعت اسلامی جسے اپنے عظیم بانی کے مشن پر رہتے ہوئے سماجی انقلاب برپا کرنا تھا۔ سیاست پر اپنا پورا فوکس بھی نہ رکھ سکی۔ اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر آئی جے آئی میں شمولیت اختیار کی۔ اپنی شناخت بڑی حد تک اس لیے برقرار رکھی کہ موثر سٹریٹ پاور کو نظر انداز کرنا کسی کے لیے ممکن نہ تھا۔ 1985ء، 1988ء، اور پھر 1990ء میں جو ہوا وہ تو پلان کا حصہ تھا ہی مگر 1993ء میں جماعت اسلامی نے اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر ایک بڑا قدم اٹھایا۔ نواز شریف کی مخالفت کرتے ہوئے اسلامک فرنٹ کے نام پر محاذ بنا کر پورے ملک میں الیکشن لڑا۔ کہا جاتا ہے کہ جماعت اسلامی کو 40 سے 60 تک سیٹوں کا یقین دلایا گیا تھا۔ الیکشن نتائج سامنے آئے تو پتہ چلا کہ مسلم لیگ ن کو نئے حکومتی سیٹ اپ سے باہر رکھنے کا منصوبہ کامیاب ہو گیا مگر اس کے ساتھ ہی ن لیگ کا بھی یہ خوف اتر گیا کہ جماعت اسلامی کو ساتھ ملائے بغیر الیکشن لڑا یا جیتا نہیں جا سکتا۔

قاضی حسین احمد کی سربراہی میں جماعت کیلئے نیا انداز اور نئے نعرے سامنے آئے مگر گیم سنبھل نہ سکی۔ سادہ دل قاضی حسین احمد مرحوم کبھی بینظیر حکومت گرانے کیلئے راولپنڈی تک مارچ کرتے پائے گئے اورکبھی رائے ونڈ فارم میں گھس کر نواز شریف حکومت کو تگنی کا ناچ نچانے کی دھمکیاں دیتے رہے۔ 1999ءمیں امن مذاکرات کے لیے بھارتی وزیر اعظم واجپائی کی لاہور آمد پر پورا شہر میدان جنگ کا منظر پیش کرتا رہا، اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر ہونے والے اس احتجاج کے دوران اس روز تقریب کے لیے اسلام آباد سے آنے والے کئی غیر ملکی سفارتکاروں کی گاڑیاں بھی توڑ پھوڑ کا نشانہ بنیں۔ جنرل مشرف کے مارشل لاءکے دوران متحدہ مجلس عمل بنی تو جماعت اسلامی کو ایک بار پھر صوبہ سرحد (کے پی کے) میں حکومت کا حصہ بننے کا موقع مل گیا۔ فوجی آمر سے نوک جھونک چلتی رہی مگر مولانا فضل الرحمن ، قاضی حسین احمد اور ان کے دیگر ساتھیوں نے اس تمام دور میں اپنی پوزیشن کو بہتر بنایا۔ 2002ء کے انتخابات میں ن لیگ نے مجبوراً لاہور جیسے شہر میں بھی جماعت اسلامی کے رہنماﺅں کی حمایت کر کے الیکشن جیتنے میں ان کا ساتھ دیا۔ 2008ء آیا تو گیم پھر پلٹنا شروع ہوگئی۔

2013ء کے الیکشن سے پہلے ہی قاضی حسین احمد نے جماعت اسلامی کی امارت چھوڑ دی۔ سخت گیر موقف رکھنے والے منور حسن جماعت اسلامی کے سربراہ بن گئے۔ طالبان کے خلاف جنگ اور بعض دیگر امور پر ان کے اسٹیبلشمنٹ سے شدید اختلافات منظر عام پر آئے۔ ایسا بھی ہو ا کہ منورحسن کے بیان کی مذمت میں آئی ایس پی آر کو جوابی بیان جاری کرنا پڑا۔ جماعت اسلامی ہر گز اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکرانے کے موڈ میں نہیں تھی۔ ہاں مگر ایک لائن ضرور واضح ہو رہی تھی کہ اب پلاننگ اور فیصلے مکمل طور پر ہر قسم کے بیرونی دباﺅ سے آزاد ہوں گے۔ اسی دوران جماعت اسلامی کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت کا حصہ بن گئی۔ حیرت انگیز طور پر منور حسن کو صرف امیر جماعت کے اگلے چناﺅ میں ہٹا دیا گیا جوان قیادت کی صورت میں سراج الحق امیر جماعت بن گئے۔ توقع کی جا رہی تھی کہ جماعت اسلامی کی نئی قیادت پارٹی میں نئی روح پھونکے گی مگر ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ پارٹی تیز ی کے ساتھ سکڑنا شروع ہو گئی آج یہ عالم ہے کہ ملی مسلم لیگ اور تحریک لبیک جیسی اچانک بننے والی جماعتیں بھی الیکشن میں جماعت اسلامی سے کہیں زیادہ ووٹ حاصل کررہی ہیں۔ سٹریٹ پاور اس طرح سے غائب ہوئی جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔

الیکشن 2018 ءکی شام پولنگ ختم ہونے کے فوری بعد سراج الحق نے ایک نجی ٹی وی کے سٹوڈیو میں بیٹھے اینکر کو رابطہ کر کے بتایا کہ ان کے ساتھ دھاندلی ہو رہی ہے۔ سکیورٹی اہلکاروں نے ووٹوں کی گنتی شروع ہونے سے پہلے ان کے پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکال دیا ہے۔ اس اینکر کے بقول یہ گفتگو کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی کے لہجے میں بے بسی اور مایوسی جھلک رہی تھی۔ ایسا کیوں ہے؟ شاید اس لیے کہ سیاسی حوالے سے جماعت اسلامی بے سمت ہو چکی ہے۔ اس کے پڑھے لکھے اور مختلف شعبوں میں نمایاں حیثیت رکھنے والے رہنما اور کارکن بھی سیاسی حوالے سے اپنی قیادت کو اہمیت دینے پر تیار نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کئی ایک اب بھی اسٹیبلشمنٹ کی ڈائریکٹ لائن لیتے ہیں۔ پارٹی سے تعلق رکھنے والے بعض افراد ن لیگ کے بھی قریب ہیں مگر متحرک لوگوں کی زیادہ تعداد تحریک انصاف کی حامی ہے۔ ان لوگوں کو اس بات کا پوری طرح سے علم ہے کہ تحریک انصاف کے فیصلے کہاں ہو رہے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ الیکشن 2018ء کے آگے پیچھے مقتدر حلقوں نے کیا بندو بست کیا تھا۔ ان سے یہ بھی ڈھکا چھپا نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان آرٹیکل62، 63 پر پورا اترتے ہیں یا نہیں۔ اس کے باوجود جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے یہ گروہ آج کل کی مصروف ٹرمنالوجی کے مطابق”فل یوتھیا “بنا ہوا ہے۔ باقاعدہ لڑنے کو بھی آتے ہیں۔

ادھر ان کی اپنی جماعت ہے کہ جس کی ساکھ آج بھی اتنی مضبوط ہے کہ سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کی سماعت کے دوران سینئر جج صاحب کو حوالے دیتے ہوئے کہنا پڑا کہ اگر ہم آئین کی روح کے مطابق آرٹیکل 62، 63 کا نفاذ کریں تو صرف سراج الحق ہی بچیں گے۔ وہاں سے تو یقیناً بچ جائیں گے لیکن اگر گو مگو کی کیفیت رہی تو سیاسی طور پر نہیں بچیں گے۔ جماعت اسلامی مٹھی میں بند ریت کی طرح پھسل رہی ہے۔ بحالی کیلئے ہر معاملے پر اپنی واضح پالیسی اور پھر تحریک چلانے کی صلاحیت پیدا کرنا ہوگی۔ تحریک پر امن احتجاج کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے۔ جماعت اسلامی اپنا وجود منوانے کیلئے میدان عمل میں نہ آئی تو پھر قصہ پارینہ بننے میں شاید دیر نہ لگے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).