ایب نارمل قاری کی ڈائری


قارئین! قارئین! میری کتاب دھیان سے پڑھیں۔ میں ایک مشہور رائٹر ہوں۔ پڑھنے لکھنے سے جس کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں، لیکن میں نے ہھر بھی آپ لوگوں کو اپنی کتاب مشہور کروا کے دکھا دی ہے۔
ارے انکل میری کتاب کو بک سٹال پر دیکھ کر آپ نے منہ کیوں بنایا۔

پلیز اسے خریدیں۔
خود بھی پڑھیں، اپنے بچوں کو ہی پڑھا دیں۔
تھینک یو آنٹی! آپ نے یہ کتاب خریدی، آپ کا نفسیاتی مسئلہ لگتا ہے۔ کبھی میرے کلینک بھی چکر لگائیں۔
ارے میری گڑیا اس کتاب کے سرورق پر تصویر سے نہ گھبراؤ۔ اس میں وہی باتیں ہیں جو تم عمیرہ احمد نمرہ احمد کی کتابوں میں پڑھتی ہو۔

دیکھیں جناب میں سرٹیفائیڈ پاگل نہیں ہوں۔
آئیں آئیں کتاب کی قیمت صرف 400 روپے۔ ۔ ۔ اتنے کی تو آپ آئس کریم کھا لیتے ہیں۔
آئیے پاکستان میں کتاب دوست کلچر پیدا کیجیے۔
ارے لونڈے یہ پارلیمانی مجروں کی کتاب چھوڑ اور میری کتاب پڑھ۔
قیمت صرف 400 روپے، 400 روپے۔
ابھی خریدنے پر 10 روپے کا ڈسکاؤنٹ بھی ملے گا۔

دیکھیں اس کتاب کو سکین کر کے مفت بانٹنے کی کوشش کرنے والوں سے بچیں۔
میری کتاب پر ہر جگہ بہت شاندار تبصرے ہیں۔ لوگ پڑھ پڑھ کر اپنی زندگی سنوار رہے ہیں۔
میری ایب نارمل کتاب پڑھ کر ایک ایب نارمل قاری نے ڈائری لکھی ہے، بالکل میری کتاب کے انداز میں۔
میں آپ کو اس کے مندرجات سناتا ہوں۔ یقینا آپ کا اس کتاب کو پڑھنے کا اشتیاق بڑھ جائے گا

انرجی سیور اور حسن پر میڈیٹیشن

عجیب رات تھی۔ ۔ ۔ انرجی سیور کی روشنی میں مجھے ایڈیسن نظر آتا ہے۔ ۔ ۔ اس نے بھی۔ یقینا سورج کو دیکھ کر بلب ایجاد کیا ہوگا۔ ۔ ۔ نہیں سورج نہیں۔ ۔ ۔ شاید چاند۔ یہ چاند بھی۔ ۔ ۔ تو تمھاری گھر کے باہر جلتے۔ ۔ ۔ انرجی سیور جیسا ہے۔ ۔ ۔ وہ بھی تمھارے حسن سے روشنی لیتا ہوگا۔ ۔ ۔ جس کی روشنی میں تمھارا سانولا رنگ۔ ۔ ۔ کیسا جادوئی تاثر دیتا ہے۔ ۔ ۔ تم۔ مجھے ساؤتھ انڈین فلموں کی ہیرؤن لگتی ہو۔ ۔ ۔ انھی جیسی موٹی۔ ۔ ۔ مگر مناسب جگہوں سے۔ ۔ ۔ تمھاری آنکھوں کا کالا رنگ۔ انرجی سیور کی روشنی میں کتنا کالا۔ ۔ ۔ جیسے کالا ناگ۔ ۔ ۔ نہیں ناگ نہیں ناگن۔ ۔ ۔ تمھارے انداز بھی کسی ناگن سے کم نہیں۔ تمھارے ڈسنے کے بعد سے میں نے پانی بھی نہیں مانگا۔ ۔ ۔

تمھاری گلی کے باقی کتوں سے تو۔ ۔ ۔ مجھے ڈر لگتا ہے۔ ہائے مگر وہ ایک کتا۔ پتا نہیں بیچارے کی کیا کہانی ہوگی۔ مجھے اس کتے سے بھی پیار ہونے لگا ہے۔ مجنوں کو بھی تو سگ لیلی سے پیار ہوا تھا۔ ۔ ۔ کیا وہ کتا بھی کہیں تمھارا عاشق تو نہیں۔ ۔ ۔ جو ہر وقت میری طرح تمھارے گھر کے باہر بیٹھا رہتا ہے۔

گٹر کا فلسفہ

تمھارے گھر کے باہر گٹر پر پڑا آدھا ٹوٹے ڈھکن۔ ۔ ۔ جیسے کوئی ٹوٹی انگڑائی۔ جیسے کوئی آثار قدیمہ۔ ۔ ۔ جہاں سے نکلتے تعفن میں ہزاروں راز ہیں۔ ۔ ۔ میں ہمیشہ اس گٹر کو دیکھ کر گہری سوچ میں ہڑ جاتا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ تم جب صبح سویرے۔ ۔ ۔ نہاتی ہوگی۔ تو لکس صابن۔ ۔ ۔ اور تمھارا پسینہ۔ ۔ ۔ دونوں مل کر کیا قیامت ڈھاتے ہوں گے۔ ۔ ۔ جانے وہ صابن اپنی قسمت پر کتنا رشک کرتا ہوگا۔ ۔ ۔ اس صابن کی بھی کیا زندگی ہے جو میری طرح۔ ۔ ۔ تمھاری حسن ہر گھل گھل کر قربان ہورہا ہے۔ ۔ ۔ ملٹی نیشنل کمپنی نے یہ صابن بنانے سے پہلے جانے کیا سوچا ہوگا۔ کتنے جانوروں کی چربی۔ ۔ ۔ حسن کو بڑھانے اور دنیا کو صاف کرنے میں خرچ ہوئی ہوگی۔ وہ جانور اپنی خوش قسمتی پر ناز کرتے ہوں گے۔ ۔ ۔ کیا انھیں پتا ہوگا؟ یہ گٹر صاف کرنے والے کلو کی۔ ۔ ۔ خاموشی میں بھی کوئی راز ضرور ہے۔ ۔ ۔ شاید وہ حسن کی نادریافت شدہ۔ ۔ ۔ ڈائمینشنز کو ڈھونڈتا ہے۔ یا اس نے دنیا کو پاکیزہ بنانے کا عزم کیا ہو۔ ۔ ۔ یا ہوسکتا ہے وہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے شاندار سلوک پر غور کرتا ہو۔

نسوار اور محبت کی بھیک۔

کل میں نے تمھیں ایک فقیر کو پانچ روپے کا سکہ دیتے دیکھا۔ میری تو صدمے سے سسکیاں نکل گئیں۔ مجھ سے خوش قسمت تو یہ فقیر ہی ہے۔ تمھیں دور کھڑے نسوار کھاتے۔ ۔ ۔ مجھ فقیر پر ترس نہ آیا۔ ۔ ۔ جو روز محبت کی بھیک مانگنے آتا ہے۔ تمھاری یاد میں نسواریں خرید خرید کر دکان داروں کو امیر بنا چکا ہوں۔ ۔ ۔ میں دنیا کا واحد عاشق ہوں جو نسوار کو بھی محبت کی علامت بناگیا ہے۔ ۔ ۔ کل جب نسوار کھا کھا کر تمھارے ہجر میں مجھے کینسر ہوجائے گا تو۔ ۔ ۔ اسوقت بھی کیا میری ساتھی یہ نسوارہی ہوگی۔ کیا سکندر جب ہندوستان آٰیا تو اس نے نسوار چکھی ہوگی۔ اس کا استاد ارسطو آج ہوتا تو میری ہاتھ پر بیعت کرتا۔ ۔ ۔ اور اپنی ساری کتابوں کو جلا دیتا۔

تم چورن کھاتی کتنی کیوٹ لگتی ہو۔ ۔ ۔

وہ دن جب تم نے کالج سے آتے چٹکی بھر بھر کر چورن کھاری رہی تھیں۔ تمھاری کھٹاس کے مزے میں بند آنکھیں۔ ۔ ۔ تمھارا کیوٹ سا چہرہ۔ سب لوگوں کی نظریں تم ہر تھیں۔ ۔ ۔ مگر میں صرف چورن کو دیکھ رہا تھا۔ چورن کا سلیٹی رنگ۔ تمھاری تھوک میں لتھڑی انگلیاں۔ ۔ ۔ ان سے گرتا کھٹا میٹھا تھوک۔ ۔ ۔ تمھارے پیچھے پیچھے لڑکوں کے ساتھ ساتھ چیونٹوں کی لائینیں۔ ۔ ۔ کئی لوگوں نے تمھیں مفت چورن دینے کی کوشش بھی کی۔ یہ چورن کا اور تمھارے حسن کا ضرور کوئی تعلق ہے۔ ۔ ۔ کاسمیٹک کمپنیوں نے حسن کا یہ راز دنیا سے چھپا رکھا ہے۔

پپا کی ڈول والی فیس بک پروفائل

کئی مہینوں کی انتھک محنت کے بعد مجھے تمھاری فیس بک پر پپا کی ڈول والی پروفائل ملی۔ ۔ ۔ وہ بھی تمھاری پاؤں کے تل کی وجہ سے۔ ۔ ۔ میرے علاوہ اس راز کو کون جان سکا ہوگا۔ ۔ ۔ تمھارے پاؤں کا وہ تل جو تمھارے سانولے رنگ کی وجہ سے۔ ۔ ۔ پہچانا بھی نہیں جاتا۔ ۔ ۔ مگر میں نے تمھاری پپا کی ڈول والی آئی ڈی میں پیر کی تصویر سے پہچان لیا۔ ۔ ۔ میں ہی تھا جو تمھیں روز سو سو میسج کرتا تھا، مگر تم صرف ہوں ہاں کرتی تھیں۔ ۔ ۔ محبت میں یہ بھی کافی ہے۔ تمھاری پروفائل بھی تو ایک طرح کا پردہ ہے۔ ۔ ۔ پردے میں چھپی ہیلن آف باؤ محلہ۔ ۔ ۔ کبھی کوئی ہومر ہماری کہانی بھی لکھے تو کمال ہوجائے۔ پر اس کہانی میں میرا کردار کس کا ہوگا اکیلیس کا۔ نہیں وہ تو مرگیا تھا۔ ۔ ۔ اور مجھ میں تمھیں اغوا کرکے۔ ۔ ۔ تمھارے باپ اور آٹھ بھائیوں سے لڑائی کی ہمت نہیں ہے۔
تم میری کلیوپیٹرہ ہو۔ میں سیزر تو نہیں۔ مگر تمھاری پاؤں کے تل کا مالک بن کر شاید سیزر سے بھی زیادہ خوش نصیب ہوجاؤں۔ ۔ ۔ وہ تل نہیں۔ ۔ ۔ ایک پوری کائنات ہے۔ ۔ ۔ کائنات بھی تو کبھی ایک تل جتنی ہی تھی۔ ۔ ۔ کیا پتا کل کو کوایٹم فزکس تمھارے تل سے کتنی کائناتیں نکالے۔

تو قارئین دیکھا پھر آپ نے! میری کتاب پڑھ کر عام سے لوگوں میں بھی تخلیق کے سوتے جاری ہوگئے ہیں۔ میں آپ کو بتاتا ہوں میں نے یہ ناول کیوں لکھا۔ ایک نفسیات دان کی حثیت سے ناکامی کے بعد میں بہت مایوس تھا۔ انھی دنوں ایک پاگل اردو رائٹر کو ہسپتال میں داخل کروایا گیا۔ یہ پاپولر اردو ادب کی رائٹر تھی۔ جس نے اشفاق احمد، بانو قدسیہ، عمیرہ احمد، نمرہ احمد اور اس قبیل کے تمام لوگوں کو گھوٹ کر پی رکھا تھا۔ اس کی اوٹ پٹانگ باتیں سن کر میں ہنستا کہ پاکستانی عوام کیا کیا چیزیں پڑھتی اور مانتی ہے۔ اس لڑکی کے پاگل پن کے وجہ بھی انھی رائٹرز کی باتیں لگتی تھیں۔ میں نے اسے اپنی مغربی سائیکالوجی سے ٹھیک کرنے کی کوشش کی مگر کوئی فرق نہ پڑا۔ تنگ آکر میں بس اس کی باتیں سنتا۔

میں نے ان باتوں کو ایک ڈائری میں لکھنا شروع کردیا۔ کچھ عرصہ بعد ان باتوں کو پڑھا تو وہ محبت نفسیات اور روحانیت کا ایک منجن لگیں۔ ایک دن میری وہ ڈائری اس پاگل رائٹر کے ہاتھوں لگ گئی۔ اس پاگل اس کو پڑھ کر اتنی متاثر ہوئی کہ میری فین ہوگئی۔ میں نے اسے بتانے کی کوشش کی کہ یہ اسی کی باتوں کو سن کر لکھی ہے۔ مگر وہ نہ مانی۔ کہنے لگی میں کبھی چاہ کر بھی ایسا نہیں لکھ سکی۔

اس نے اصرار کیا کہ اسے چھپواؤں۔ میں شروع میں تو نہ مانا، مگر پھر دیکھا کہ وہ پاگل رائٹر ہر وقت میری ڈائری ہی پڑھتی رہتی ہے۔ اور اس کے دورے پڑنے بند ہوگئے ہیں۔ وہ اب باتوں سے زیادہ خیالوں میں کھوئی رہتی ہے تو میں نے سوچا ہوسکتا ہے پاپولر اردو فکشن پڑھنے والے باقی پاگلوں کا بھی کچھ بھلا ہوسکتا ہے۔ شاید پاکستان میں محبت، نفسیات اور روحانیت کا منجن ہی لوگوں کا علاج کرتا ہے۔ یہ مغربی سائیکالوجی نہیں۔ میں نے اپنی سائیکالوجی کی تمام کتابیں اٹھا کر نالہ لئی میں پھینکیں اور اس انوکھے منجن کو بنانے اور بیچنے پر لگ گیا۔

وہ دن اور آج کا دن بے تحاشا لوگوں کو اس سے افاقہ ہوا ہے۔ آئیں آپ بھی اس کتاب کو پڑھیں اور اپنے نفسیاتی مسائل لے کر میرے کلینک آئیں۔ ۔ ۔

ادب کے سنجیدہ قارئین اردو ادب کے گمنام مزار پر آنسو بہانے جاسکتے ہیں۔
آپ اب پوچھنے کو آئے ہیں
اردو ادب تو مرگیا میری جان کب کا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).