افغانستان بھارت پاکستان اور پشتون بلوچ بفر زون


Dulat: Sir, we can play these wargames, but who knows what will happen. There are people in Delhi who believe Pakistan will inevitably break up, which is a lot of rubbish.
Durrani: So let’s consider the implication of Pakistan breaking up. Discuss karo,bhai. Good for us or bad for us.
Dulat: Oh no, much worse for us.
Durrani: Let them discuss it, and after that if it is not good for us, if it’s not going to be better for us then…
Dulat: That’s precisely why a smart politician like Vajpayee went to Minar-e-Pakistan, against all advice.

درج بالا سطور مشہور کتاب سپائی کرانیکل کے صفحہ نمبر 74 سے لی گئی ہیں جو پاکستان اور بھارت کی خفیہ ایجنسیوں یعنی را اور آئی ایس آئی کے سابقہ سربراہان اسد درانی اور اےایس دولت کی گفتگو پر مشتمل ایک کتاب ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں ممالک میں عوامی، سیاسی، عسکری اور میڈیا کے سطح پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور توڑ دینے کی ایک خاص ذہنیت موجود ہے، جو کہ دراصل دونوں ممالک کے مقتدر حلقے ایک خاص وقت میں ایک خاص مدت کے لئے ایک خاص مقصد کے لیے استعمال میں لاتی رہتی ہے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کے مفادات کے خلاف کارروائی بھی کرتے رہتے ہیں اور جب مفادات مشترک ہو تو ایک دوسرے کے حق میں بھی کام کرتے ہیں، لیکن ایسا قطعی نہیں ہوسکتا جس طرح دونوں ممالک کے عوام کی اکثریت سوچتی ہے کہ ہندوستان پاکستان کو یا پاکستان ہندوستان کو کھا جائے گا۔ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو کمزور تک ہونے نہیں دیکھنا چاہتے۔ کیونکہ دونوں ممالک میں اگر ایک میں بھی کوئی سیاسی یا اجتماعی المیہ رونما ہوتا ہے تو اس کے منفی اثرات یا فال آوٹ سے دونوں اطراف بہت جلد شدید طور پر متاثر ہوں گے اور اس کا ادراک دونوں ممالک کے مقتدر حلقوں اور اداروں کو بہ خوبی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں ممالک کبھی بھی ایک دوسرے کے خلاف ایسی پالیسی نہیں بنائیں گے جو ایک یا دوسرے ملک میں انسانی المیہ کا باعث بنے۔ درج بالا سطور میں دیکھا جاسکتا ہے کہ دولت سنگھ یہ کہتا ہے کہ پاکستان کا ٹوٹنا ہندوستان کے لیے بہت بڑی خرابی کا باعث بنے گا اور اس کے بعد اسد درانی بھی ہندستان سے متعلق یہی بات دہراتا ہے۔

اسی تناظر میں دیکھا جائے تو افغانستان اور پاکستان کے تعلقات میں ایسی بات بالکل بھی نظر نہیں آتی، کیونکہ پچھلے چالیس سال سے بھی زائد عرصہ سے پاکستان کی طرف سے افغانستان میں ایک خون ریز مداخلت کا عمل جاری ہے جس کے نتیجے میں افغانستان کے اندر انسانی و اجتماعی المیے جنم لیتے ہیں، مگر پاکستان پر اپنے اس ہمسایہ ملک کی بربادی، افراتفری اور المیوں کی وجہ سے آج تک کوئی منفی اثرات رونما نہیں ہوئے بلکہ پاکستان افغانستان کی بربادی سے مسلسل مستفید ہوتا آرہا ہے۔ ڈیفینس یونیورسٹی اسلام آباد کی ڈاکٹر تہذیب کے مطابق ’پاکستان کی افغان پالیسی پر اکثر تنقید ہوتی ہے کہ یہ ایک ناکام پالیسی ہے مگر درحقیقت ایسا نہیں ہے کیونکہ یہ پاکستان کی افغان پالیسی ہی کا نتیجہ ہے کہ پچھلے چالیس سال سے پاکستان پر مغربی ممالک اور دیگر امیر ممالک کے خزانوں کے منہ کھلے ہوئے ہیں جس کے ذریعے پاکستان نا صرف اپنی دفاع کو ناقابل تسخیر بنارہا ہے بلکہ پاکستان نے انہی پیسوں سے جو اسے اپنی افغان پالیسی کے تحت مل رہے ہیں اپنا پورے کا پورا پرانا انفراسٹرکچر تبدیل کراکر ایک نئے اور جدید دور کے مطابق انفراسٹرکچر ترتیب دیا ہے‘۔ ڈاکٹر تہذیب کے مطابق: اگر پاکستان کی افغان پالیسی ایک ناکام پالیسی ہوتی تو آج راولپنڈی ڈویژن اور اسلام آباد میں شاید ایک ہی یونیورسٹی ہوتی مگر ایسا نہیں ہے کیونکہ ان کے بقول یہ ایک کامیاب ترین پالیسی ہے کہ جس سے حاصل شدہ پیسے سے ہی یہ یونیورسٹیز بنائی گئی ہیں۔

اب اصل سوال یہاں پر یہ بنتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ ہندوستان اور پاکستان ایک دوسرے کے انسانی اور اجتماعی المیہ سے بری طرح سے متاثر ہوسکتے ہیں جس کی تصدیق دونوں ممالک کے اعلی ترین اداروں کے سابقہ سربراہان اپنی مشترکہ کتاب سپائی کرانیکلز میں کر چکے ہیں، مگر پاکستان افغانستان کے انسانی اور اجتماعی المیہ سے بجائے اس کے کہ متاثر ہو برعکس پاکستان اپنے اس ہمسایہ ملک کی بربادی کو کیش کیسے کر رہا ہے۔ یعنی بنیادی فرق کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کی تباہی اور بربادی سے سخت متاثر ہو سکتے ہیں مگر افغانستان جو بھارت کی طرح پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے مگر یہاں کی تباہی اور بربادی سے پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں۔

بنیادی فرق یہ ہے کہ لاہور اور دہلی کراچی اور بمبئی ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں یعنی پاکستان اور بھارت کے درمیان ایسا کوئی خلا موجود نہیں ہے کہ جس میں یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کی تباہی اور بربادی یا انسانی اور اجتماعی المیہ کے فال آوٹ کو محدود کرنے کے بعد قابو کر لے دونوں ممالک براہ راست ایک دوسرے کے آلام و مصائب سے متاثر ہو سکتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں ممالک باوجود سخت ترین تناؤ کے ایک دوسرے کا بہت زیادہ خیال بھی رکھتے ہیں۔ مگر پاکستان اور افغانستان کا معاملہ الگ قسم کا ہے یہاں پاکستان افغانستان کے مسائل سے اس لئے متاثر نہیں ہوسکتا کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان ایک وسیع جغرافیائی خلا موجود ہے کہ جہاں پاکستان افغانستان کے مسئلے کا فال آوٹ بڑی کامیابی کے ساتھ محدود کرکے قابو کرتا آرہا ہے

افغانستان اور پاکستان کے درمیان یہ جغرافیائی خلا دریائے سندھ کے اس پار سے لے کر ڈیورنڈ لائن تک پھیلا ہوا ہے جس میں بلوچستان (پشتون بلوچ علاقے) اور خیبر پختون خواہ اور فاٹا کے علاقوں سمیت سندھ اور سرائیکی پنجاب کے بھی کچھ علاقے شامل ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو پاکستان کی نوے فیصد سے زیادہ انفراسٹرکچر صنعت مواصلات اہم ترین سرکاری اور نجی ادارے بیرونی و اندرونی سرمایہ کاری کے زونز وغیرہ دریائے سندھ کے اس پار ہندوستان کی سرحدوں سے ملحقہ علاقوں بالخصوص پنجاب میں قائم ہیں لہذا افغانستان کی شورش سے یہ علاقے اس لئے متاثر نہیں ہوسکتے کیونکہ دراصل پاکستان کے اندر پنجاب اور افغانستان کے درمیان ایک بفر زون قائم کیا گیا ہے اور ہم آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ افغان سرحد اور دریائے سندھ کے درمیان قائم اس بفر زون میں بہ نسبت دریائے سندھ اور بھارتی سرحد تک کے علاقے یعنی پنجاب میں ہر لحاظ سے خاصا فرق موجود ہے باوجود اس کے کہ یہ دونوں علاقے ایک ہی ملک آئین اور قانون کے ماتحت ہیں۔

چونکہ بلوچستان خاص کر بلوچستان کے پشتون علاقے اور فاٹا سمیت خیبر پختون خواہ کی حیثیت پنجاب اور افغانستان کے درمیان 1947 سے ایک بفر زون کی ہے لہذا ان علاقوں میں صنعت و حرفت تعلیم و تجارت اور ایک باوقار زندگی اختیار کرنے کے مواقع فراہم کیے جانے کے بہ جائے ان علاقوں کو پہلے افغانستان میں افغان شاہی خاندان کی حکومت کے خلاف پھر افغانستان کی جمہوری نظام کے خلاف اور 1979 کے بعد روس کے خلاف اور اب دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے حق میں فوجی آپریشنز کے نام پر اور ساتھ ہی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف جہاد کے نام پر مکمل طور پر ایک وسیع و عریض جنگی تربیتی کیمپ میں تبدیل کرائے گئے ہیں۔

ان علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن بھی ہوتے ہیں اور دہشت گردوں کو تربیت فراہم بھی کی جاتی ہے۔ ان علاقوں میں منشیات کے خلاف کارروائیاں بھی کرائی جاتی ہیں اور منشیات فروشوں کو سپورٹ بھی فراہم کی جاتی ہے۔ ان علاقوں سےافغانستان میں مداخلت بھی کرائی جاتی ہے اور اس کے فال آوٹ کو کنٹرول بھی یہاں کیا جاتا ہے۔ ان علاقوں میں اپنے حواریوں کے ذریعے خوف کی ایک ایسی فضا قائم کرائی گئی ہے کہ جس کی وجہ سے عالمی میڈیا سیاحوں اور سفارت کاروں کو یہ باور کرایا گیا ہے کہ بوجہ سخت ترین خطر انہیں ان علاقوں میں جانے سے گریز کرنا چاہیے۔ لہذا ان تمام تر صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ سمجھنا فی زمانہ بہت آسان ہوگیا ہے کہ آیا پاکستان بھارت کو اپنا ازلی دشمن سمجھتا ہے یا افغانستان کو اور یہ کہ پاکستانی ریاست کس حد تک اس بفر زون میں آباد پشتون اور بلوچ شہریوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت دے سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).