لڑکیاں کیا کیا برداشت کرتی ہیں؟



کچھ مجبوریوں کے سبب اپنا فیس بک اکاؤنٹ بند کرکے بیٹی کے نام پر اکاؤنٹ استعمال کرنا پڑا. کوئ خاص مقاصد نہ تھے. مگر یہ کیا؟ فیس بک ریکوسٹ کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ. پیغامات, کسی گروپ پر ایک لفظ لکھ دو اور پھر لائیکس کی ایک لمبی قطار. پسندیدگی ہی پسندیدگی. ڈی پی ایسی کہ میری بیٹی جس کے نام پر اکاؤنٹ تھا میری گود میں بیٹھی تھی. دس سالہ بچی کے وہم و گماں میں بھی نہیں تھا کہ اس کے بابا اس کا فیس بک اکاؤنٹ استعمال کر رہے ہیں. پانچویں جماعت کی بچی کو فیس بک وغیرہ سے کیا غرض.
سچ بتاؤں تو جس روز سے یہ اکاؤنٹ استعمال کر رہا ہوں میں بہت خائف ہوں. سہما ہوا سا ہوں. مجھے زمانے اور وقت کی بھوکی اور ہوس زدہ نظروں سے خوف و سراسیمگی محسوس ہوتی ہے.

مجھے اپنا بچپن یاد ہے. محلے کی تاریک گلیوں میں جب چاند کی روشنی پھیلتی تو ہم سارے بچے کھیل رہے ہوتے تھے. نوجوان بچے بچیاں چھتوں پر اودھم مچا رہے ہوتے تھے. کچے مکانوں اور بنا کواڑوں اور باڑوں کے مکانات بھی محفوظ محسوس ہوتے تھے. انسان کو انسان سے خوف محسوس نہ ہوتا تھا. مگر آج! میرے گھر کے باہر موجود چوکیدار اور پکی دیواروں کے عین بیچ بھی مجھے ایک انجانے خوف نے آن گھیرا ہے. کسی بھدی سی تصویر والی آئ ڈی سے جب اچانک فرینڈ ریکوسٹ آتی ہے تو اس پتھر کی طرح محسوس ہوتی ہے جو کسی نامعلوم سمت سے آئے اور سیدھا آپ کے سامنے آن گرے. آپ کو لگے کہ بال بال بچ گئے. ان بکس میں اچانک آنے والے میسج کو دیکھ کر ٹھیک سا جواب دینے کو جی چاہتا ہے مگر پھر اپنے ارد گرد کنکھیوں سے دیکھ کر فوراً ڈیلیٹ کر دیتا ہوں.
مجھے سمجھ نہیں آتا کہ جب آپ کسی کو جانتے ہی نہیں تو فرینڈ ریکوسٹ کس چکر میں؟ کیسے آپ کو معلوم ہوا کہ اگلا آپ کے مزاج اور طبعیت کے مطابق و موافق ہے. یا محض نام اور جنس دیکھ کر آپ کا “ٹھرکو میٹر” آن ہوگیا؟

فیس بک پر “ہائے” اور “مے آئ نو یو” جیسے ہزاروں لاکھوں پیغامات اجنبی دوسروں کو بھیج رہے ہوتے ہیں. انہیں بالکل بھی اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں. یقین کریں میں نے اپنے بہت سے پڑھے لکھے احباب دیکھے ہیں جو ایسی پوسٹ کے نیچے کمنٹ کرتے پائے گئے ہیں جہاں یہ لکھا ہوتا ہے کہ “کمنٹس میں آٹھ لکھیں یہ تصویر کھل جائے گی”.
کیا ہماری بچیوں کا یہی مستقبل ہے کہ وہ ہر قدم پر بیٹھے لوگوں کی انجانی خواہشوں سے بچتی پھریں گیں؟ یہ سوچ پریشان کیے ہوئے ہے. شاید چند لوگ اسے “اوور سینسٹیویٹی” غیر معمولی حساسیت کہیں. میرے دماغ کے خرافات اور بے تکی سوچ کہیں مگر ہم حقیقت سے نظریں نہیں چرا سکتے.

ایک واقعہ پڑھا. لکھاری کا نام معلوم نہیں ہے. بیان کرتے ہیں کہ:

“میری بیٹی بڑی ہو گئی. ایک روز اس نے بڑے پیار سے مجھ سے پوچھا،”پاپا، کیا میں نے آپ کو کبھی رلایا؟”
میں نے کہا،”جی ہاں.”
“کب؟” اس نے حیرت سے پوچھا.
میں نے بتایا،”اس وقت تم قریباً ایک سال کی تھیں. گھٹنوں پر سركتی تھیں.چل پھر نہیں سکتی تھیں. میں نے تمہارے سامنے پیسے، قلم اور کھلونا رکھ دیا کیوں کہ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ تم تینوں میں سے کسے اٹھاتی ہو. تمہارا انتخاب مجھے بتاتا کہ بڑی ہوکر تم کسے زیادہ اہمیت دو گی. جیسے پیسے کا مطلب جائیداد ، قلم کا مطلب علم و عقل اور کھلونا مطلب کھیل و شغل. میں نے یہ سب کچھ پیار سے کیا. جیسے کوئ بچہ کھیل ہی کھیل میں کچھ متصور کر لیتا ہے. مجھے تمہارا انتخاب دیکھنا تھا. تم ایک جگہ مستحکم بیٹھی ٹكر ٹكر ان تینوں اشیاء کو دیکھ رہی تھیں. میں تمہارے سامنے ان اشیاء کے دوسری طرف خاموش بیٹھا تمہیں دیکھ رہا تھا. تم گھٹنوں اور ہاتھوں کے زور سركتی آگے بڑھیں، میں سانس روکے دیکھ رہا تھا اور لمحہ بھر میں ہی تم نے تینوں اشیاء کو ہاتھ سے پرے سرکا دیا. بڑی سرعت کے ساتھ ان اشیاء کو پار کرتی ہوئی آکر میری گود میں بیٹھ گئیں. مجھے دھیان ہی نہیں رہا کہ ان تینوں اشیاء کے علاوہ تمہارا ایک انتخاب میں بھی تو ہو سکتا تھا. وہ پہلی اور آخری بار تھی بیٹا جب تم نے مجھے رلایا, بہت رلایا. زاروقطار رلایا”.
واقعی بیٹیوں کی دنیا وہ نہیں ہے جو والدین کے کندھے پر بیٹھ کر دیکھتی ہیں. انہیں وقت اور حالات کے تھپیڑوں میں اپنی راہ متعین کرنی ہوتی ہے. ہمیں ان کو بھی سمجھانا, سکھانا, بتانا اور وقت کی سختیوں صعوبتوں سے روشناس کرانا ضروری ہے.

آج ایک وڈیو کلپ دیکھا. کراچی کی ڈبلیو گیارہ بس کا ڈرائیور سائیڈ ویو لگے آئینے سے عقب میں بیٹھی لڑکی کو گھور بلکہ تاڑ رہا تھا. اس لڑکی نے اپنے موبائل فون کی مدد سے اسکی اس حرکت کو ریکارڈ کر لیا. بہت دکھ ہوا. افسوس ہوا کہ ایک انسان کتوں کی مانند کسی پر جھپٹنے کی خواہش رکھتا ہے.
بس سٹاپ, بازار, رش والی جگہوں, پارکوں حتی’ کہ مذہبی اجتماعات میں بھی یہ رویہ دیکھنے کو ملتا ہے. کوئ تو اسکا حل ہوگا ناں؟ کسی طرح تو ایسے افراد کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے؟ کہیں تو انکو روکا جائے. یہ وہ معاشرتی مسئلہ ہے جس کا تدارک اشد ضروری ہے. ہم سب برے نہیں. معاشرہ اتنی بھی سڑانڈ کا شکار نہیں. مگر چند گندے دماغ ضرور موجود ہیں.

بسوں میں سوار ہوتے پاؤں سے پاؤں اور جسم سے جسم ٹچ کرنے کی کوشش کرتے, بازاروں میں گزرتے ہوئے کندھے اور ہاتھ مس کرتے, بچوں کو سکول وین میں سوار کرتے انکو اپنی غلیظ حرکات کا نشانہ بناتے ہوئے, سٹورز پر سرخی پوڈر سے لدی مجبور سیلز گرلز کو تاڑتے, مختلف گروپس, ایزی لوڈ اور بینک ودفاتر کے ڈیٹا فارم سے نمبر لیکر خواتین کو میسج کرتے سب مذکروں سے گزارش ہے کہ ہماری بیٹیوں نے اسی آسمان کے نیچے ایسے ہی سانس لینا ہے جیسے میں اور آپ لیتے ہیں. انکے لئے گھٹن نہ بنیں. مرد بنیں مرد! سوچیں کہ لڑکیاں کیا کیا برداشت کرتی ہیں. وہ سب لڑکیاں جو میری اور آپ کی بیٹیاں ہیں.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).