خیبرپختونخوا میں سترہ ماہ میں 45 خواجہ سرا قتل


\"salmanعلیشا کو گزشتہ ہفتے جب شدید زخمی حالت میں پشاور کے سب سے بڑے ہسپتال لایا گیا تواس نے سفید کوٹ پہنے پیرا میڈیکل سٹاف اور ان سنجیدہ مزاج ڈاکٹروں کو بھی شش و پنج میں ڈال دیا جو عموماً کسی بھی ایمرجنسی پر فوری طور پر قابو پالیتے ہیں۔

شہر کے ماہرینِ طب نے انسانی جسم کی گتھیوں کو سلجھانے کے لیے توبہت زیادہ عرق ریزی کررکھی ہے لیکن انہوں نے علیشا کی جنس کے باعث پیدا ہونے والے انسانی المیے کا مطالعہ نہیں کیا۔ بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے خواجہ سرا کے علاج کے بارے میں کچھ نہیں پڑھا کیوں کہ جب علیشا موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھی تو وہ اس کو بچانے کے لیے آگے نہیں بڑھے۔

خواجہ سرا علیشا کے جسم پر گولیوں کے چھ زخم آئے تھے، جب اسے ہسپتال لایا گیا تو شعبہ ایمرجنسی کا عملہ اس کشمکش میں مبتلا ہوگیا کہ اسے مردانہ وارڈ میں داخل کریں یا زنانہ وارڈ میں؟ ایک ایسی جنس، جسے مردانہ معاشرے میں مواقع نہ ہونے کے باعث بھیک مانگ کر، مختلف تقریبات پر ناچ گا کر اور جنسی سرگرمیوں میں شریک ہوکر اپنی گزر بسر ممکن بنانا پڑتی ہے، علیشا موت و حیات کے ان لمحات میں خصوصی توجہ کی مستحق تھی۔

جب اسے کسی بھی وارڈ میں کوئی بھی بیڈ مل سکتا تھا، ڈاکٹر یہ فیصلہ کررہے تھے کہ اسے ہسپتال میں وی آئی پیز کے لیے مخصوص وارڈ میں کمرہ الاٹ کردیا جائے۔ اس سے قبل کہ وہ کوئی فیصلہ کر پاتے، علیشا نے دم توڑ دیا‘ وہ گمنامی اور تعصب کا ایک اور شکار تھی کیوں کہ اس ملک میں مریض یہ نہیں چاہتے کہ ان کے ساتھ والے بستر پر، مردانہ یا زنامہ وارڈ میں، کوئی خواجہ سرا دم توڑ دے۔

علیشا اِس وقت صرف 19 برس کی تھی جب اسے اس کے محبوب مراہ نے پشاور کے علاقے فقیرآباد میں قتل کردیا۔ ایک غیر سرکاری تنظیم بلیو وائنز، جو خواجہ سراﺅں کے حقوق کے لیے کام کررہی ہے، کے کوارڈینیٹر قمر نسیم کہتے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں جنوری 2015ء سے اب تک 45 خواجہ سراﺅں کو قتل کیا جاچکا ہے۔

انہوں نے مزید کہا:” خواجہ سراﺅں پر ہونے والے جنسی تشدد کی روک تھام کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی جارہی جب کہ اس حوالے سے مدد کے حصول کے لیے کی گئی بارہا کوششیں بھی بارآور ثابت نہیں ہوئیں اور خواجہ سراﺅں کو سکیورٹی فراہم کرنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔“

علیشا کی خواجہ سرا کمیونٹی میں شہرت اس اَمر سے عیاں ہوتی ہے کہ اس کی موت اس کے بہت سے خیر خواہوں کو ہسپتال کھینچ لائی۔ یا غالباً یہ ظلم و جبر کا شکار کمیونٹی کا خوف اور درد تھا جو اپنی ساتھی کی موت پر دُکھ اور ہمدردی کے اظہار کے لیے جمع ہوئی تھی کیوں کہ کوئی دوسرا ان کے لیے آنسو تو کیا بہاتا، کھڑا بھی نہ ہوتا۔حتیٰ کہ جب علیشا کے تیماردار ہسپتال میں جمع ہوئے تو وہ خود کو لوگوں کے طنزیہ جملوں سے بچانے کے لیے کمرے میں مقید ہوگئے۔ وہ اس واقعہ سے خوف زدہ ہوگئے تھے۔

نین گار سوسائٹی نے انسائٹس ریسرچ کنسلٹنٹس کے تعاون سے شہری آبادی کی ہوموفوبیا اور ٹرانس فوبیا کے بارے میں ان کی رائے معلوم کرنے کے لیے تحقیق کی جو مئی 2016ءمیں جاری ہوئی۔

نین گار سوسائٹی کے ڈائریکٹر محمد فلک نے ملتان سے نیوز لینز پاکستان سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس ریسرچ پول کو منعقد کروانے کا مقصد پاکستان میں ہوموفوبیا (ہم جنس پسندوں سے نفرت) اور ٹرانس فوبیا (خواجہ سراؤں سے نفرت) کی شرح جانچنا تھا۔

انہوں نے کہا:” اس نوعیت کے رویے نجی و سرکاری اداروں کی خدمات اور ماہرین کے کام کو متاثر کرتے ہیں اور ہسپتالوں، کالجوں، سماجی شعبوں اور ملازمتوں کے حصول میں بھی اثرانداز ہوتے ہیں اور ساری آبادی یکساں طور پر اپنے حقوق حاصل نہیں کر پاتی۔“

علیشا کی شہرت اس حقیقت سے بھی عیاں ہوتی ہے کہ وہ خیبرپختونخوا میں ٹرانس ایکشن الائنس کی کوارڈینیٹر تھیں اور اپنی کمیونٹی کے حقوق کے لیے آواز بلند کر رہی تھیں۔ سماجی ماہرین کے مطابق خواجہ سرا انتہائی غربت کی زندگی بسر کر رہے ہیں، وہ خود کو ان صلاحیتوں سے لیس نہیں کرپاتے کہ کوئی مہذب کام کرسکیں کیوں کہ سماج ان کو حقارت سے دیکھتا ہے، والدین قبول نہیں کرتے، سکولوں میں اساتذہ بے عزتی کرتے ہیں اور ساتھی طالب علم مارپیٹ کرتے ہیں ، وہ سماجی تنہائی کے باعث ملازمت کے لیے درکار صلاحیت بھی حاصل نہیں کر پاتے۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن تیمور جمال کہتے ہیں کہ پشاور میں خواجہ سراﺅں کو نہ صرف خاندان بلکہ سماج کی جانب سے بھی نظرانداز کیا جاتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا:” ان کی تعلیم، صحت اور عوامی مقامات تک بہت کم رسائی ہوتی ہے۔ معاشرتی رویہ ان کو بھرپور انداز سے سماجی و ثقافتی زندگی بسر نہیں کرنے دیتا۔ سیاست اور فیصلہ سازی کے عمل سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے اور خواجہ سراﺅں کے لیے اپنے بنیادی شہری حقوق کے بارے میں آگاہی حاصل کرنا اور ان پر عمل کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔“

انہوں نے کہا کہ ایل جی بی ٹی آئی کمیونٹی کی جنسی شناخت ظاہر ہوجائے تو ان کو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تیمور جمال نے کہا:”خیبر پختونخوا میں بہت سے ہم جنس پرست ہیں لیکن سماجی بدنامی کے خوف کے باعث ایل جی بی ٹی آئی کمیونٹی اپنی شناخت پوشیدہ رکھتی ہے اور دوہری زندگی بسر کرتی ہے۔“

پاکستان کا قانون، انگریزی اور اسلامی قوانین کا مجموعہ ہیں جو ہم جنس پرستی کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور اس کے لیے مختلف سزائیں تجویز کی گئی ہیں جن میں قید کی سزا بھی شامل ہے۔ تاہم قانون کی نسبت معاشرہ ایل جی بی ٹی آئی کمیونٹی کے لیے زیادہ مسائل پیدا کرتا ہے، پولیس کی بلیک میلنگ کے علاوہ جنسی و سماجی ہراساں کرنے کے واقعات، جرمانے اور جیل کی قید عمومی واقعات ہیں۔

2009ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیصلہ دیا کہ حکومت خواجہ سراﺅں کو ہراساں کرنے اور تعصب کے واقعات سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے فعال کردار ادا کرے۔ 2011ء میں عدالت عظمیٰ نے خواجہ سراﺅں کو ووٹ کا حق دیا اور قومی شناختی کارڈ جاری کیا جس میں ان کی شناخت ” شی میل“ کے طور پر کی گئی۔

قمر نسیم کہتے ہیں کہ جنسی رویے وشناخت کے حوالے سے انسانی حقوق کی صورتِ حال نمایاں طور پر بہتر ہوئی ہے تاہم قانون سازی کے ثمرات حاصل نہیں ہوسکے اور جنسی رویے و شناخت کے حوالے سے سماجی ساختیاتی تعصب کو ختم کرنا ہنوز ایک چیلنج ہے۔

انہوں نے مزید کہا:” ایل جی بی ٹی آئی کمیونٹی کو دیگر پاکستانیوں کے مماثل حقوق حاصل نہیں ہیں۔ ان کو ہراساں کرنے اور ان کے ساتھ تعصب برتنے کے واقعات عام ہیں اورخواجہ سرا کمیونٹی کو اکثر و بیش تر صرف مختلف ہونے کی بنا پرتشدد سہنا پڑتا ہے جن کا سماج میں کردار محض جنسی کارکن، گداگر اور تفریح فراہم کرنے والے فنکاروں کا ہے۔“

پاکستان میں ایل جی بی ٹی آئی کمیونٹی ایک حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا، ملک میں ایسا کوئی قانون رائج نہیں ہے جس کے تحت ان کے حقوق کا تحفظ کیا جاسکے۔ قمر نسیم کہتے ہیں:” ایل جی بی ٹی آئی کمیونٹی کے لیے آواز بلند کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے کیوں کہ سماج میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ مذہب بھی ہم جنسیت کو ممنوع قرار دیتا ہے۔“

انہوں نے کہا کہ بچپن میں ایل جی بی ٹی آئی کمیونٹی کے ارکان کو خصوصی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے کیوں کہ معاشرتی رویہ ان کو تنہائی کا شکار کردیتا ہے۔

قمر نسیم نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:” خیبر پختونخوا میں جنسی رویہ و شناخت حساس موضوعات ہیں کیوں کہ زندگی کا دھارا قبائلی اقدار اور مذہبی تعلیمات کی روشنی میں تشکیل پاتا ہے۔ اس وقت ان موضوعات کے بارے میں بات کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ لوگوں کی زندگیاں اور حقوق داﺅ پر لگے ہوئے ہیں۔“

جنوبی ایشیائی تناظر میں خواجہ سراکی اصطلاح مرد و خواتین سے مختلف جنسی شناخت رکھنے والے لوگوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے اور اس کی بنیاد خواجہ سراﺅں کی تاریخ میں پنہاں ہے جب وہ ترکی کی خلافتِ عثمانیہ سے انڈیا کی مغل سلطنت تک نگران، آرٹ کے انسٹرکٹرز اور شہزادوں و شہزادیوں کے ذاتی ملازمین اور شاہی پیغام رساں کے طور پر خدمات انجام دیا کرتے تھے۔

ان سلطنتوں کے زوال پذیر ہونے کے بعد خواجہ سرا، جن کا حرم میں انتہائی بلند مرتبہ تھا، عزت و توقیر سے محروم ہو گئے اور گداگری اور ایسے ہی دوسرے پیشے اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے۔ شاہی حرموں سے منسلک باعزت کارکنوں سے سماجی نفرت کا شکار ہونے تک، یہ امارت سے غربت کا شکار ہونے کی ایک دُکھ بھری داستان ہے اور اب خواجہ سرا سماج کے سب سے پست طبقے میں شمار ہوتے ہیں۔

(بشکریہ نیوز لینز – پاکستان)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments