طلباء کا مستقبل برائے فروخت۔۔۔۔۔ 16 روپے فی کلوگرام


وقتاً فوقتاً اخبارات اور دیگر میڈیا میں خبریں آتی رہتی ہیں کہ اندرون سندھ، رورل پنجاب اور بلوچستان کے پس ماندہ علاقوں میں سرکاری سکولوں کی عمارتوں پر وڈیروں، سرداروں اور نوابوں نے جانوروں کے باڑے بنا رکھے ہیں۔ کبھی یہ خبریں بھی گرم تھیں کہ ملک بھر میں ہزاروں ”گھوسٹ سکول‘‘ کاغذات کی حد تک موجود ہیں تو ہمیں حیرت ہوتی تھی کی کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ملک کے مستقبل کے ساتھ اس طرح کا سلوک ہو۔ ہم خوش تھے کہ چلو ہم دور افتادہ ضرور ہیں، غریب بھی ہیں لیکن تعلیمی معاملے میں اس طرح کے رویے کا سوچ بھی نہیں سکتے جس طرح کی خبریں ملک کے دیگر علاقوں کے بار ے میں چھپتی رہتی ہیں۔

لیکن گزشتہ دنوں سکردو میں ضلع گانچھے کے طلباء کے لئے بھیجی گئیں ہزاروں کتابیں تقسیم کیے بغیر خفیہ طورپر ردی والے کو فروخت کرنے کا سکینڈل منظر عام پر آیا تو جبین عرق آلودہ ہوئی اور اپنے گریباں میں بھی چہرہ چھپانے کو جگہ نہیں ملی۔ معلوم اطلاعات کے مطابق BECS کی کتابیں جو کہ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ سے چھپی تھی نیز BECS کے اور سرکاری سکولوں دونوں کے لئے یکساں طور پر کار آمد اور منظور شدہ ہیں ضلع گانچھے کے طلباء میں تقسیم کرنے کے بجائے سٹورمیں Dump رہی اور بچے بغیر کتابوں کے نہ جانے کس طرح امتحانات دیتے رہے۔ اور پھر مافیانے ان کتابوں کو مزدا گاڑی میں لوڈ کر کے خپلو سے سکردو پہنچایا اور کباڑیے کو دو ہزار کلوگرام کتابیں 16روپے فی کلو گرام کے حساب سے بیچ دیا کچھ باشعور لوگ جو موقع پر موجود تھے اُنھوں نے پولیس اور مقامی انتظامیہ کو خبر دی، چھاپہ پڑا تو کباڑیے نے انکشاف کیا کہ مزید دو مزدا گاڑیاں جن میں اسی طرح کی کتابیں بھری ہوئی ہیں کا سودا ہو چکا ہے اور ابھی پہنچنا باقی ہے۔

سرکاری سکولوں کی زبوں حالی، تعلیمی انحطاط اور ملک میں رائج دہرا نظام تعلیم سنجید ہ خلقوں میں ایک عرصہ سے موضوع بحث ہے۔ ترقی یافتہ قومیں جب ” زرعی دور ‘‘ سے گزرتی ہوئی ”صنعتی دور ‘‘ اور اب تیسرے ”ٹکنالوجکل دور‘‘جسے ” ایلون ٹوفلر‘‘ نے تیسری لہر قرار دیاہے، میں داخل ہو چکی ہیں کا اگر عمیق جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ علم ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس کو بنیادی اہمیت دی گئی اور ان ترقی یافتہ قوموں نے ا پنی تمام توانایاں اس کے حصول میں صرف کی جبکہ پاکستا ن اور دیگر تیسری دنیا کے ممالک میں تعلیم کوچنداں وہ مقام حاصل نہیں رہا جس کی وجہ سے ان کی سماجی حالت دگر گوں ہے۔

پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک کے پیش کر دہ بجٹس پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم کے لیے رکھی جانے والی سالانہ رقم اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ اگرحالیہ 2018 ء کے بجٹ پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ صرف 4 فیصد رقم تعلیم کے لئے مختص کی گئی ہے۔ تعلیم سے یہ بے اعتنائی ظاہر ہے کوئی تبدیلی کی متحمل نہیں ہوسکتی سوائے کولہوکے بیل کی طرح روایتی وقت گزاری کرنے کے۔

ملک کی پبلک جامعات، ٹکنیکل اداروں اور دیگر کالجوں کے معیا ر اور ان میں موجود سہولیات کا ذکر ایک طرف رکھیں کیونکہ دنیا کی تعلیمی درسگاہوں کے میعار کی درجہ بندی میں شامل پانچ سو جامعات میں بھی خیر سے پاکستان کی کسی یونیورسٹی کا نام نہیں۔ دوسری طرف اگر صرف ملک بھر کے سرکاری سکولوں کا جائزہ لیا جائے جو کہ بنیادی تعلیم فراہم کرنے کے لیے خشت اول کا کام سر انجام دیتے ہیں تو ان کی زبوں حالی ہمارے مستقبل کا دھندلا نقشہ پیش کرتی ہے۔

جہاں تک ملک میں موجود طبقاتی نظام تعلیم کی بات کی جائے توحقیقت یہ ہے کہ ملک کی آبادی کی اکثریت دیہاتوں اور پسماندہ علاقوں میں رہائش پذیر ہیں ان کے لیے ٹاٹ والے سرکاری سکول دستیاب ہیں جہاں بنیادی سہولتوں یعنی فرنیچر، کلاس روم، پینے کا صاف پانی، ٹوائلیٹ اور پلے گراونڈ خال خال موجود ہیں۔ نصاب تعلیم نہایت پرانا اورزمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں، اساتذہ کی تربیت کے لیے کوئی مربوط طریقہ کا ر موجود نہیں کہ وہ کس طرح روایتی ٹیچنگ سے نکل پریکٹیکل اور ریسرچ اورئنٹڈطریقہ کار استعمال میں لائیں۔ اوپر سے سیاسی اور سفارشی کلچرکے تحت بھرتیاں اور پھر ہم امید لگا بیٹھیں کہ معجزہ ہوجائے۔ دوسری طرف اشرافیہ اور ملک کے مقتدر حکمرانوں کے بچوں کے لئے سٹی سکول سسٹم، بیکن سکول سسٹم، کیمبرج کے او لیول اور اے لیول کا نظام جہاں کی تعلیم عصری تقاضوں کے عین مطابق ہے۔

اب یہ کہاں ممکن ہے کہ مقابلے اور دیگر اہم عہدوں کے امتحانات میں سرکاری سکولوں سے ”الف۔ انار، ب۔ بکری اور ت۔ تختی‘‘ پڑھنے والا اٹھ کر اکسفورڈ اور کیمبرج سے منسلک سکولوں کے فارغ تحصیل سے مقابلہ کر سکیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اقبال کی ’’ ذرا نم ہوتو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی‘‘والی نسل نم نہ ملنے کی وجہ سے عمر بھر کلرکی پر ہی گزارا کرتی ہے۔ دہرے نظام تعلیم کا دوسرا بڑا نقصان یہ ہے کہ اس نے ملک میں طبقاتی نظام کو فروغ دیا ہے یوں ان دونوں نظام کی پیدا کردہ نسل کی سوچ، اپروچ، آئیڈیالوجی، طرز زندگی اور ترجیحات بالکل مختلف بلکہ متضاد ہیں پس ایسے میں ملکی سطح پر یک سوئی اور فکری ہم آہنگی کہاں ممکن ہے۔

اب جب کہ گلگت بلتستان جیسا دور افتادہ اور پسماند ہ علاقہ جہاں کے مشکل جغرافیائی خدوخال کے سبب ترقی کا سفر نہایت سست ہے وہیں پر سرکاری نظام تعلیم کو کھمبیوں کی طرح گلی کوچوں میں اگنے والے پرائیویٹ سکولوں سے جہاں سخت مقابلے کا سامنا ہے وہاں کے غریب طلباء جن کے والدین ننگے پاؤں پسینے سے شرابور سخت پتھریلی زمینوں سے لڑکر بمشکل سال بھر کا اناج اگاتے ہیں اور مشکل سے تعلیمی خرچہ اُٹھاتے ہیں کے لیے آنے والی کتابوں کو محکمہ ٔ تعلیم / BECS کے ”بابوں‘‘ سٹور میں ڈمپ رکھتے ہیں، سیشن گزر جاتا ہے اور امتحان بھی ہو جاتا ہے لیکن طلباء کے لیے کتابیں میسر نہیں رہتی۔ اور پھر بڑی بے شرمی اور ڈھٹائی سے کتابیں کباڑے کو چند روپوں کے عوض فروخت ہوتی ہیں۔
غالب نے کیا خوب کہا ہے۔

بھاگ ان بردہ فروشوں سے کہاں کے بھائی
بیچ ہی دیووے جو یوسف سا برادر ہووے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).