ریڈیو پاکستان کی عمارت کو لیز پر دینے کا حکومتی فیصلہ: ’یہ مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے‘


پی سی بی

                                                          احتجاج کرنے والے کنٹریکٹ ملازمین کے کنٹریکٹ کی تجدید نہ کیے جانے والے اس تشویش کا اظہار بھی کر رہے ہیں

وفاقی دارالحکومت کے ریڈ زون میں واقع پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کی نشریات معمول کے مطابق جاری ہیں لیکن سات منزلہ عمارت کے سینکڑوں ملازمین عمارت سے نکل کر سڑکوں پر احتجاج بھی کر رہے ہیں۔

ان کا یہ احتجاج حکومت کے اس ممکنہ فیصلے کو روکنا ہے جس کے تحت وہ ادارے کی عمارت لیز پر دے دینا چاہتی ہے۔

احتجاج کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ’قومی اتحاد پیدا کرنے والے ادارے کو اس جگہ پر پہنچا دیا گیا ہے کہ آج ہم وزیراعظم ہاؤس کے سامنے احتجاج کرنے پر مجبور ہیں۔۔۔۔۔ یہ اقدام ریڈیو ملازمین کے معاشی قتل کے مترادف ہے، اگر ہمارے خلاف پرچہ کٹتا ہے تو کٹ جائے۔۔۔ کیا چند کمروں کی اکیڈمی میں ریڈیو منتقل ہو سکتا ہے؟

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم نے سمجھا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت محکموں اچھی پالیسیاں لے کر آئے گی لیکن پالیسیاں نظر نہیں آ رہیں‘ اداروں کی تباہ کاری کا منصوبہ نظر آ رہا ہے۔ ‘

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے 21 اگست کو ملک کے سرکاری ریڈیو اور ٹی وی کو اداریاتی آزادی دینے کا اعلان کرتے ہوٸے آٸندہ تین ماہ تک بڑے اور فوری فیصلے کرنے کا اشارہ دیا تھا۔

پھر دونوں اداروں کی اکیڈمیوں کو اکٹھا کر کے میڈیا یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کی بات بھی کی۔ لیکن شاید اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ پی بی سی کی عمارت کو لیز پر دیے جانا اس جانب پہلا قدم ہو گا۔

17 ستمبر کو وزارت اطلاعات کے ڈائریکٹر دانیال گیلانی نے پی بی سی کے ڈاٸریکٹر جنرل شفقت جیلانی کو تحریری طور پر آگاہ کیا کہ ‘شاید ریڈیو پاکستان ہیڈکوارٹرز کو طویل مدت کے لیے لیز پر دے دیا جائے اور پی بی سی کو ایچ ناٸن میں واقع اکیڈمی میں شفٹ کرنے کے لیے ایک پرپوزل تیار کیا جاٸے۔’

اس اطلاع کے فقط دو روز بعد ہی ایک اور نوٹس ادارے کے حکام کو موصول ہوا جس کا عنوان تھا، ’شفٹنگ آف ریڈیو ہیڈ کوارٹرز۔‘

ڈاٸریکٹر براٸے نیوز, پروگرامنگ اور انجینیئرنگ سے کہا گیا ہے کہ وہ 25 ستمبر تک اس بارے میں اپنی رائے دیں۔

انتظامیہ کی جانب سے وزارت اطلاعات کے حکام کو اپنی رپورٹ دیے جانے میں ابھی ایک دن باقی ہے تاہم ادارے کے تمام ملازمین احتجاج کے بعد دھرنے کا پیغام بھی دے رہے ہیں۔

سعودی عرب سے واپسی پر وزیر اطلاعات سے پریس کانفرنس میں پوچھا گیا کہ ایسا فیصلہ کیوں کیا گیا یہ دکان تو نہیں جسے شفٹ کر دیا جائے؟ تو جواب ملا کہ میڈیا یونیورسٹی کو چلانے کے لیے ہمیں پیسوں کی ضرورت ہے۔۔۔۔ فیصلہ وزیراعظم نے کرنا ہے۔۔۔۔‘

پی بی سی

                                                    پی بی سی کی موجودہ سات منزلہ عمارت میں شعبہ انجینیئرنگ، پروگرامنگ، ایڈمن، پی آر، فنانس اور ہیڈ کوارٹر ایڈمن کے دفاتر ہیں
pcb

                                           ریڈیو کی سات منزلہ عمارت کے سامان اور عملے کو پاکستان براڈکاسٹنگ اکیڈمی کی ایک منزلہ عمارت میں منتقل کرنے کی تجویز زیر غور ہے

ریڈیو پاکستان کے شعبۂ نیوز اینڈ کرنٹ افیٸرز سے وابستہ سینٸر افراد ہوں یا انٹرٹینمنٹ اور شعبہ انجینئرنگ سے وابستہ افراد اکثریت کی نظر میں یہ قابل عمل نہیں, ممکن نہیں, بچگانہ بات لگتی ہے۔

بی بی سی سے گفتگو میں شعبۂ انجینیئرنگ سے وابستہ علی ضیا عباسی نے بتایا کہ ’یہاں 20 سٹوڈیوز ہیں، جن میں ہم مختلف زبانوں میں ہم پروگرام تیار کرتے ہیں۔ جہاں یہ ہمیں بھیجنا چاہتے ہیں وہاں تو 20 کمرے بھی نہیں ہیں۔۔۔۔‘

’ایک ایک سٹوڈیو جو ہم نے یہاں بنایا، اس پر کروڑوں کی لاگت آتی ہے۔ زیادہ تر جو ہم نے سٹوڈیوز بنائے ہیں وہ جاپان اور دیگر ممالک کی مدد سے بنائے، ہمارے پاس پیسہ نہیں ہے تو اس طرح کے سٹوڈیوز تو وہاں (اکیڈمی میں) بنائے ہی نہیں جا سکتے ہیں۔ یہاں ایک ہزار بندہ کام کرتا ہے۔

لیکن اعلیٰ انتظامیہ میں شامل افراد کا کہنا ہے کہ حتمی پالیسی تو حکومت ہی کی چلے گی۔

پی سی بی

                                                       سٹوڈیوز کو کہیں شفٹ کرنے میں کم ازکم چھ ماہ لگتے ہیں۔ اور میرا خیال ہے کہ وزیراطلاعات کو غلط بریفنگ دی گئی ہے

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک اعلیٰ عہدے دار نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ابھی تو یہ صرف ایک تجویز ہی ہے۔ یہ ایک لمبا عمل ہے۔ ظاہر ہے ورکرز میں تشویش پائی جاتی ہے اور اس کے بارے میں حکام کو آگاہ کیا جائے گا۔

یہاں سے شفٹ کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے تو یہ درحقیقت کتنا وقت درکار ہو گا اور اگر یہ اتنا ہی ناممکن ہے تو وزیر اطلاعات نے ایسا فیصلہ کیسے کر لیا؟

ضیا عباسی کہتے ہیں کہ کسی بھی سٹوڈیو کو شفٹ کرنے میں کم ازکم چھ ماہ لگتے ہیں۔ اور میرا خیال ہے کہ وزیراطلاعات کو غلط بریفنگ دی گئی ہے۔

مظاہرین وزیر اطلاعات کی جانب سے پریس کانفرنس میں دی گئی معلومات پر بھی تنقید کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے ہوم ورک نہیں کیا۔

pbc

                                                          حالیہ برسوں میں ریڈیو پاکستان کے بہت سے سٹوڈیوز کو نئے سرے سے بنایا گیا

وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ ’ریڈیو پاکستان 1940 اور 1950 میں بنا تھا اس وقت ٹرانسمیٹر بہت بڑے بڑے تھے، اب ٹیکنالوجی آگے چلی گٸی ہے ۔۔۔ ایف ایم تو دس مرلے میں لگ جاتا ہے۔۔۔ ریڈیو کی زمین 275 کنال جگہ ہے اور ریلوے کی 70 ہزار ایکڑ جگہ ہے، یہ زمین ڈیڈ پراپرٹیز ہیں اور وزیراعظم کہہ رہے ہیں وہ چاہتے ہیں انھیں استعمال میں لایا جاٸے۔ اس کو بیچ نہیں رہے۔۔۔’

لیکن حقیقت یہ ہے کہ ریڈیو کی موجودہ عمارت کا قیام 1974 میں کام کا آغاز ہوا تھا۔

ادارے کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ حال ہی میں جاپان کی حکومت نے 15 ارب کا خرچ کیا ہے اور ٹرانسمیٹرز کو سٹوڈیوز کو وقت کے ساتھ ساتھ اپ گریڈ کیا جاتا رہا ہے۔

12 سال سے ریڈیو پاکستان میں آئی ٹی کے شعبے سے تعلق رکھنے والی سعدیہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ اگر یہ پیسہ بچانا چاہتے ہیں تو شفٹنگ کے لیے جو سرمایہ درکار ہے وہ کہاں سے آئے گا؟‘

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32501 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp