عظیم حکمران ٹیپو سلطان


ٹیپو سلطان کا اصل نام فتح علی ٹیپو تھا آپ 1750 میں حیدر علی کے گھر پیدا ہوئے سلطان بچپن سے ہی علم وادب میں گہری دلچسپی رکھتے تھے یہ ہی وجہ ہے کہ اُن کی ذاتی لائبریری میں دو ہزار کے لگ بھگ کتابیں موجود تھیں۔ ٹیپو کے والد حیدرعلی ریاستِ میسور کے حکمران تھے سلطان کی تربیت خصوصی طورپر ایک جنگجو فوجی کی مانند کی گئی تھی۔ سلطان کی بہادری دلیری شجاعت کے قصے برصغیر میں زبان زدِ عام تھے ٹیپو سلطان کوجس بھی کسی جنگی مہم پر اُن کے والد نے روانہ کیا وہ ہمیشہ میدان کارزار میں کامیاب وکامران رہے۔

یہ ہی محرکات ہیں کہ فقط 17 برس کی عمر میں سلطان ریاستِ میسور کی فوج کے سپہ سالار بن گئے۔ جنگی حکمت عملیوں اور منصوبہ سازی میں کوئی اُن کا ثانی نہ تھا اپنی فوج کے پیادہ دستوں کے علاوہ گھڑ سواروں اور توپ خانے پر اُن کی خصوصی توجہ مرکوز رہی سلطان کی قیادت میں ایک ایسی طاقتور باصلاحیت بہادر فوج وجود میں آچکی تھی کہ جس کا رعب ودبدبہ پورے برصغیر پر قائم تھا۔ حیدر علی کی وفات کے بعد 24 دسمبر 1782 کو ٹیپو سلطان ریاست میسور کے تخت پر جلوہ افروز ہوئے سلطان ہمدرد عادل اور عوام دوست حکمران تھے اُن کی توجہ فقط اپنی رعایا کے مسائل حل کرنے کی جانب مرکوز رہی۔

ریاست میسور کی زراعت پر سلطان نے بھاری سرمایہ خرچ کیا فصلوں کی کاشت کاری کے لئے دریائی پانی اور نہری نظام میں بہتری لائی گئی میسور میں دنیا کی سب سے اعلیٰ قسم کی صندل پائی جاتی تھی۔ سلطان نے ریاست میسور میں بے روزگاری کے خاتمہ کے لئے چھوٹی صنعتوں کو فروغ دیا ریشم کے کیٹرے چین سے منگواکر ریشمی کپڑے کی صعنت کو فروغ دیا گیا۔ ٹیپو ایک دوراندیش مخلص ہمدرد اور آزاد خیال حکمران تھا اُس کی ریاست میں مسلمان اور دیگر غیر مسلم قومیں خوشحال اور مطمن زندگیاں بسر کررہی تھیں نیز ریاست میسور کے عوام اپنے حکمران سے بے پناہ پیار محبت بھی کرتے تھے۔

ریاست میسور کے پاس سب کچھ تھا دولت زراعت طاقتور فوج اورایک عظیم حکمران جس کا تاریخی قول آج بھی بے حد مقبول ہے، شیر کی زندگی کا ایک دن گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے، انگریز برصغیر میں تجارت کی غرض سے داخل ہوئے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیاد 1600 میں رکھی گئی جبکہ برصغیر میں باقاعدہ تجارت کا آغاز 1616 میں شروع ہوا مغل بادشاہوں کی غفلتوں و کوتاہیوں کے سبب انگریز رفتہ رفتہ برصغیر پر قابض ہونا شروع ہوگئے۔ ٹیپو سلطان انگریزوں کے منصوبوں و عزائم سے بخوبی آگاہ تھے 1787 میں مرہٹوں اور نظام حیدر آباد نے انگریزوں کی حمایت اور سازش کے تحت میسور پر حملہ کردیا ٹیپو سلطان نے اپنی ریاست کا زبردست دفاع کیا اور اپنے سے کئی گنا بڑی افواج کو شکست فاش دی، 1789 میں مرہٹوں نظام حیدر آباد اور انگریز تینوں نے مل کر میسور پر حملہ کردیا اس بار طویل جنگ جاری رہی۔

انگریزوں کی چالوں اور اپنوں کی غداری کے باعث ٹیپو سلطان کو جنگ بندی کرنی پڑی ریاست میسور نے اُس زمانے میں تین کروڑ روپے تاوان ادا کیا علاوہ ازیں سلطان کو اپنے دو بیٹے عبدالخالق اور معزالدین کو انگریز کی تحویل میں دینا پڑا جو دو سال کے بعد واپس آئے۔ انگریز اور اُس کے اتحادی اس حقیقت کا مکمل ادراک رکھتے تھے کہ ٹیپو سلطان کو شکست دینا انتہائی دشوار اور ناممکن ہے لہذا انگریز نے سلطان کے قریبی دوستوں امرا اور اعلیٰ افسران کو خریدنا شروع کردیا جس نے میسور کی چوتھی لڑائی میں جنگ کا پانسہ ہی پلٹ کر رکھ دیا۔

میسور کی چوتھی اور آخری جنگ ٹیپو سلطان کی فوج اور انگریز کے مابین سرنگا پٹم میں لڑی گئی اس جنگ میں سلطان قلعہ بند ہوکر دشمن سے برسرپیکار تھا۔ انگریزوں کو مسلسل ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑرہا تھا کیونکہ ریاستِ میسور کا دفاع بہت مضبوط تھا اس تناظر میں سلطان کے قریبی دوست میر صادق غدار نے انگریزوں کا بھرپور ساتھ دیا قلعہ کا نقشہ اور تمام حساس معلومات و اطلاعات وہ انگریزوں تک مسلسل پہنچتا رہا میرصادق کی ہی غداری کے سبب انگریز فوج قلعہ کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوئی۔

گھمسان کا رن پڑا ٹیپو سلطان نے مسلسل کئی گھنٹے اپنی فوج سے کئی گنا بڑی انگریز فوج کی پیشقدی سرنگا پٹم پر روکے رکھی اس تناظر میں میسور کا شیر اپنے وطن کا دفاع کرتے ہوئے شدید زخمی ہوکر گرپڑا وہ حالت نزع میں تھا اس دوران ایک انگریز سپاہی نے سلطان کے ہاتھ سے قیمتی نایاب تلوار اپنے قبضے میں لینی چاہی ٹیپو نے ایسا وار کیاکہ انگریز کا سر تن سے جدا ہوکر دور جاگرا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ٹیپو سلطان کا جسد خاکی تین دن تک اُس ہی مقام پر پڑا رہا کسی کو ہاتھ لگانے کی جرات نہیں ہوتی تھی۔

میسور کا شیر اس جنگ میں 1799 میں جامِ شہادت نوش کرگیا۔ سلطان کی لاش کے قریب کھڑے ہوکر انگریز جنرل ہیرس نے کہا تھا، آج سے ہندوستان ہمارا ہے، سیماب اکبر آبادی نے اپنے اشعارمیں شہید کو کیا خوب خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ ہند کی قسمت ہی میں رسوائی کا سامان تھا، ورنہ تو ہی عہد آزادی کا ایک عنوان تھا، اپنے ہاتھوں خود تجھے اہل وطن نے کھودیا، آہ کیسا باغباں شام چمن نے کھودیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).