چارٹرڈ طیارہ کمرشل فلائیٹ سے سستا ہے


پاکستان تحریک انصاف کو تبدیلی کے صرف نعرے پہ ہی ووٹ نہیں پڑئے بلکہ عوام کو امید ہے کہ یہ نعرہ وہ اپنی حقیقی شکل میں عملی صورت میں نافذ بھی کریں گے کہ جس سے عوام کو اپنے ووٹ دینے پہ افسوس نہیں ہو گا۔ اور ابھی تک تو صورت حال نہایت حوصلہ افزاء ہے کہ موجودہ حکومت عوامی امنگوں پر نہ صرف پورا اُتر رہی ہے بلکہ اُس کے ہرفیصلے سے عوام میں خوشی کی ایک لہر ایسی دوڑ رہی ہے جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ اور کچھ بالکوں کو تو خوشی سے چھلانگیں لگاتے راقم خود ملاحظہ کر چکا۔ عوامی حکومت ہے، تبدیلی سرکار ہے، تبدیلی تو آنی ہے۔ بلکہ یہ کیوں نہ کہا جائے کہ تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی آ چکی ہے۔

تبدیلی آئی کہا ں پہ؟ سب سے واضح تبدیلی آئی کہ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک بن گیا کہ جہاں ہیلی کاپٹر پچاس روپے فی کلومیٹر سفر کرتا ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں ہم کہ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈز کی انتظامیہ ہمارے اس ریکارڈ کو سنجیدگی سے اپنی ریکارڈی کتاب میں شامل کرنے پہ غور کرئے ورنہ۔ ۔ ۔ آگے بڑھیے، اگلی تبدیلی جو ہماری حکومت لائی وہ کمال مہارت سے عوامی توجہ اصل مسائل سے ہٹا کر وزیر اعظم ہاؤس کی بھینسوں کی طرف لے گئی۔ کچھ بعید نہیں کہ جیسے بھینسوں کے چارے کے لیے اعداد و شمار سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں تو کل کلاں ان کے گوبر سے متعلق بھی سننے کو کچھ مل جائے۔

ہمارے سکول کے پرنسپل صاحب ذرا وکھری طبیعیت کے تھے۔ سکول کے گراؤنڈ کی گھاس بڑھ جاتی تھی تو انہوں نے اس کا نہایت سادہ حل نکالا کہ ایک بھینس پال لی۔ سکول شہری علاقے میں ہونے کے باوجود سکول کے اوقات ختم ہوتے ہی بھینس گراؤنڈ میں مٹکنا شروع کر دیتی اور گھاس کی ہمت کا امتحان لینا شروع کر دیتی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آج وزیر اعظم ہاؤس سے نکالی گئی بھینسیں بھی کل کلاں کسی کے فارم ہاؤس پہ نظر آئیں۔

ایک اور حیران کن تبدیلی ہوئی، کہ ہمارے اس وقت کے صرف اسد عمر اور آج کے وزیر خزانہ اسد عمر جو اپوزیشن کی کرسیوں پہ خوب گرجتے تھے کہ پٹرول تو چھیالیس روپے فی لیٹر ہونا چاہیے، عالمی سطح پر سستا ہے، پیسے حکومت کھا جاتی ہے۔ اب ان کو نہ جانے کیوں چپ سی لگ گئی ہے۔ اب نہ جانے چھیالیس روپے سے اوپر کے فی لیٹر پیسے نہ جانے کہاں جا رہے ہیں۔ یا شاید وہ ہمیں بتانا گوارا نہیں کر رہے۔ کمال مہارت سے ہمیں مہنگائی بم مارنے سے پہلے افغانی و بنگالی باشندوں کو شہریت دینے کا نازک مسئلہ چھیڑ دیا گیا۔ اور اسی جھمیلے میں وزیر اطلاعات اور وزیر پٹرولیم (بھلا ہو چوہدری نثار کا کہ جن کے خلاف الیکشن لڑنے سے پٹرولیم کی وزارت مل گئی) نے پوپلا سا منہ بنا کے گیس مہنگی کیے جانے کی خبر دے دی۔

ہم ابھی پروٹوکول ختم ہونے کی خوشی ہی منا رہے تھے کہ کراچی سے پروٹوکول مارکہ ویڈیوز آنا شروع ہو گئیں۔ ہمارا کوئی قصور نہیں ہے، سارا قصور موئے موبائل فون کا ہے۔ اعلان ہوا کہ ہم تو بھئی جہاز اپنے لیے نہ لیٹ کروائیں گے نہ پوری پرواز کو اذیت میں ڈالیں گے اپنی وجہ سے کہ پچھلوں نے خوب نقصان کیا ہے۔ اور ایسا ہوا بھی کہ ہمارے وزیر خارجہ و بڑے صاحب نے کمرشل پرواز یا فرسٹ کلاس کا رولا ہی ختم کر دیا اور خصوصی ہیلی کاپٹر کے بعد خصوصی طیارے پہ سفر شروع کر دیا۔ یہاں بھی ستیا ناس ہو جائے اس فوٹو گرافر کا جس نے تصویر بناتے ہوئے خصوصی طیارے کو خصوصی طور پر فریم میں لے لیا۔ ہم ملک سے بھوک و غربت مٹائیں گے، وعدہ تو نہ جانے پورا ہو گا یا نہیں لیکن ہم ٹنوں نے حساب سے اپنی گندم دوسروں کو تحفے ضرور دینا شروع ہو گئے ہیں۔ تحفے بھی اُن کو جو ہم سے سیدھے منہ بات کرنا گوارا نہیں کرتے۔

اقرباء پروری کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکیں گے۔ راہنما کا نعرہ تھا۔ ہمارے راہنما کے کون سے بچے یہاں ہیں، جنہیں نوازا جائے گا، حواری کہتے تھے۔ لیکن بچے نہ سہی اپنے ذوالفقار بخاری ہی سہی، کیا کہایہ کون ہیں؟ ارے بھئی اپنے زلفی بخاری، جنہیں مشیر لگا دیا گیا ہے وزیر اعظم صاحب کا۔ وہی وہی جن کا خصوصی طیارے میں عمرے پہ بھی ساتھ رہا، صحیح پہچانا۔ دوستوں کو تو چھوڑیے ہم تو خاندانوں کی سیاست کا قلع قمع کرنے چلے تھے لیکن ساری جھاگ ضمنی انتخابات میں ٹکٹ دینے پہ ہی بیٹھ سی گئی ہے۔ نہ جانے تبدیلی اُداس اُداس سی کیوں ہے، نہ جانے سوال کرنے پہ چہرے سُرخ کیوں ہونے لگے ہیں۔ حالانکہ دعویٰ تو تھا کہ ہم پہ سوال کیا جا سکتا ہے۔ ہم شہنشائیت قائم نہیں کریں گے۔ لیکن سوال ہو رہا ہے مگر جواب ندارد۔

حکومت کو بنے بے شک کچھ دن ہوئے ہیں لیکن عوامی توقعات پہ عمل پہلے دن سے نظرآ سکتا تھا۔ جو ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ اور شاید جلسے کے سٹیج سے نعرے اور دعوے الگ معنی رکھتے ہیں۔ جب کہ عنانِ اقتدار سنبھالنا یکسر الگ ہے۔ شاید حکومت سنبھالنے کے بعد معلوم ہوا کہ بھئی ہمارے نوے فیصد نعرے تو قابل عمل ہیں ہی نہیں۔ ہم جو ملک کو پاؤں پہ کھڑا کر کے، باہر سے لوگوں کو یہاں بلا کر نوکریاں کروانے کا پلان بنائے بیٹھے تھے۔ ہم کو ڈیم بنانے کے لیے بھی چندہ مانگنا پڑ رہا ہے اور حد یہ کہ کہا جا رہا ہے اگر چندہ نہ دیا تو ملک نہیں چل سکتا۔ بھئی اپنوں سے مانگنے میں شرم کیسی لیکن آپ جب لمبی چھوڑ رہے تھے تو تب بھی سوچا تھا کہ اس کا حاصل کیا ہو گا؟ تب یہ نہیں سوچا تھا کہ لوگ سوال کریں گے۔ لیکن ہو سکتا ہے ہماری معلومات ناقص ہوں اور جیسے ہیلی کاپٹر کا علم ہمیں اب ہوا کہ پچپن روپے فی کلومیٹر چلتا ہے تو چارٹرڈ طیارہ بھی کمرشل فلائیٹ سے سستا ہی پڑتا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).