انسانی تماشا: ولیم سرویان کے ناول کا اردو ترجمہ


دوسری دفعہ ہومر کے اذیت ناک مرحلہ اس وقت آیا جب وہ ایک ایسی ماں کو بیٹے کی موت کی خبر دینے گیا جس کی سالگرہ پر پارٹی ہو رہی تھی اور گھر میں شادیانے بج رہے تھے۔ جہاں شہنائی بج رہی تھی وہاں اب ماتم کا سماں ہونے کو تھا۔ ہومر کا ہاتھ گھنٹی کی طرف بڑھتا لیکن اس کا بٹن دبانے کی ہمت نہ پڑتی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب اسے اپنی نوکری سے نفرت محسوس ہوئی۔ آخرکار ہمت مجتمع کرکے بٹن دبایا۔ بوڑھی ماں نے تارپڑھا، اس کے منہ سے کوئی آواز نہ نکلی، وہ آہستہ آہستہ سسکیاں لے رہی تھی جو گرامو فون کے نغمے میں ڈوب گئیں۔

ناول میں ایک کردار تار بابو مسٹر گروگن ہے جس کا دعویٰ ہے کہ تاربھیجنے اور وصول کرنے میں اس کا ثانی نہیں۔ ملازمت سے نکالے جانے کا سوچ کر ہی وہ کانپ جاتا ہے، اس کے خیال میں نوکری جاتی رہی تو ہفتے دس دن میں وہ مر جائے گا۔ مشینوں کی آمد سے وہ پریشان ہے۔

نیک دل مس ہکس 35 برس سے تاریخ کا مضمون پڑھا رہی ہے، سب اس کا احترام کرتے ہیں۔ طالب علموں کو درسی نہیں اخلاقیات کے ارفع اصولوں کی تعلیم بھی دیتی ہے۔ طالب علموں کے رویے اور سوچ میں تنوع کو وہ پسند کرتی ہے۔ ڈرل ماسٹر ایک مال دار طالب علم کی پشت پناہی اور غریب گھرانے کے ہومر کی حوصلہ شکنی کرتا ہے تو وہ استانی کمزور کا ساتھ دیتی ہے۔ بچوں کو یہ نکات تعلیم کرتی ہے :

” جن بچوں کو میں پڑھاتی ہوں۔ اُن کے ظاہری رکھ رکھاؤ سے مجھے کوئی سروکار نہیں۔ اچھے یا بُرے آداب مجھے متاثر نہیں کرتے۔ میں تو اُن کا باطن پرکھتی ہوں۔ کوئی بچہ امیر ہو یا غریب، کیتھلک ہو یا پروٹسٹنٹ، گورا ہو یا کالا، ہوشیار ہو یا غبی، چالاک ہو یا سادہ لوح۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس کے دل میں شرافت اور صداقت ہے یا نہیں۔ چھوٹوں کی عزت، بڑوں کا احترام۔ اگر یہ موجود ہیں تو پھر میں نہیں چاہتی کہ وہ ایک دوسرے کی نقل کریں اور سب ایک جیسے بن جائیں۔ میں انفرادیت کی قائل ہوں۔ یہ نہیں چاہتی کہ محض مجھے خوش کرنے کے لئے ایک بچہ دوسرے جیسا بن جائے۔ اگر ساری کلاس مودب بیٹھی رہے تو پڑھانا دوبھر ہو جائے۔ تنوع نہایت خوشگوار ہوتا ہے۔ میں چاہتی تھی کہ ہیوبرٹ( امیر گھر کا بچہ جس سے ہومر کی سکول میں لڑائی رہتی ہے) بھی یہ سُن لیتا کہ تمہاری باہمی نفرت بالکل معمولی سی چیز ہے۔ اس کے باوجود بھی اگر تم ایک دوسرے کی عزت کرتے ہو تو تم دونوں بہت اچھے ہو۔ مہذب ہونا اسی کو کہتے ہیں اور اسی لئے ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ‘‘

جنگ میں لڑنے والے فوجیوں کے پیارے ہر دم انھیں یاد کرتے ہیں لیکن فوجی بھی انھیں فراموش نہیں کرپاتے۔
ایک فوجی کا رواروی میں لکھا گیا تار ملاحظہ ہو:

ایماڈانا معرفت شکاگو یونیورسٹی، شکاگو
جانم مجھے تم سے محبت ہے۔ تمہیں میں یاد کرتا ہوں۔ ہر وقت تمھارا خیال رہتا ہے۔ خط لکھتی رہاکرو۔ سویٹر مل گیا، شکریہ۔ اصلی اقتصادیات تو میں ان دنوں سیکھ رہا ہوں۔ ہم بہت جلد محاذ پر جارہے ہیں۔ اتوار کو گرجے میں میرے لیے دعا ضرور مانگا کرو۔
نارمن

ہومر کا بھائی مارکس جو فوج میں ہے، اس کی ٹوبی جارج سے گہری دوستی ہوگئی، جو یتیم خانے میں پلا بڑھا اور ماں باپ کی شکل تک اس نے نہ دیکھی۔ مارکس نے اپنے کنبے کا ذکر اس سے اتنی دفعہ کیا کہ وہ خود کو اس کا حصہ جاننے لگا۔ محاذ پر جاتے ہوئے دونوں جی کھول کر دل کی باتیں کرتے ہیں۔ مارکس اسے بتاتا ہے کہ اسے اپنے والد بہت یاد آتے ہیں، جو باغوں میں اور دکانوں میں کام کرتے تھے۔ کنبے پر سب کچھ نچھاور کردینے والے۔ انھوں نے بیٹے کوبہت اچھا رباب خرید کر دیا جس کی قیمت ادا کرنے میں انھیں پانچ برس لگے، اس کے بعد بیٹی کو پیانو دلایا۔ دونوں دوست حالات بہتر ہونے پر اتھاکا جانے کا عہد باندھتے ہیں۔ مارکس، ٹوبی سے کہتا ہے کہ وہ اس کی بہن سے شادی کرکے اتھاکا میں گھر بسا لے کہ یہ بڑا اچھا قصبہ ہے۔

مارکس کا ہومر کے نام خط بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے، جو محبت اور درد سے لکھا گیا ہے۔ لگتا ہے کہ جیسے موت کی چاپ اس نے سن لی ہے، اس لیے چھوٹے بھائی سے مستقبل کے ممکنات پر بات کرتا ہے، اسے ذہنی طور پر تیار کر رہا ہے کہ اگر وہ جنگ میں مارا جائے تو اس نے خاندان کی دیکھ ریکھ کیسے کرنی ہے۔ خط کے شروع میں وہ اپنی ساری چیزیں اسے دینے کی بات کرتا ہے۔ چھوٹے بھائی سے کہتا ہے کہ اسے یقین ہے وہ اس کے بعد کنبے کا خیال رکھے گا۔ خط سے چنیدہ ٹکڑے اور اس خط پر ہومر کا ردعمل ملاحظہ ہو :

” تم بہت یاد آتے ہو۔ اکثر تمھارے متعلق سوچتا رہتا ہوں۔ تمھیں تو علم ہوگا کہ مجھے جنگ سے ہمیشہ نفرت رہی ہے۔ اس جنگ سے بھی جو مجبوراً لڑنی پڑے لیکن پھر سوچتا ہوں کہ ملک کی خدمت کررہا ہوں جس میں اتھاکا ہے، ہمارا گھر ہے اور میکالے کنبہ ہے۔ ہوسکتا ہے کہ میں جنگ میں کام آجاؤں۔ لیکن میری سب سے بڑی خواہش یہی ہے کہ بچ کر واپس گھر آؤں اور بقیہ زندگی والدہ، بہن اور بھائیوں کے ساتھ گزاروں۔ اور میری(مارکس کی محبوبہ جو اس کے پڑوس میں رہتی ہے) اور میں اپنا گھر بسائیں۔ مجھے یقین ہے کہ میرے وہ جذبات بھی تم تک پہنچ جائیں گے جنھیں میں الفاظ میں ادا نہ کرسکا، تم ضرور سمجھ جاؤ گے۔ کیونکہ ہمارے کنبے میں تم سب سے اچھے ہو۔ ہمیشہ اچھے رہنا۔ ۔ میرے عزیز بھائی تم دنیا کی سب سے بیش قیمت شے ہو۔ تم بہت یاد آتے ہو۔ تم سے ملنے کو بہت جی چاہتا ہے۔ اس دن کے لیے ایک ایک گھڑی گنتا رہتا ہوں۔ جب خدا ملائے گا، پھر تم بیشک مجھ سے کشتی لڑنا۔ والدہ، بیس اور میری کے سامنے مجھے پچھاڑ دینا، میں ہرگز برا نہیں مانوں گا۔ اس دن کا مجھے انتظار رہے گا۔ ‘‘

خط پڑھتے ہوئے، بارہا ہومر کی آواز بھرائی۔ کئی دفعہ اس کی آنکھوں میں آنسو آئے، دم گھٹنے لگا۔ سامنے اندھیرا چھا گیا۔
اس نے غصے میں کہا:
”اگر اس بیہودہ جنگ میں میرا بھائی مارا گیا تو عمر بھر کے لیے مجھے دنیا سے نفرت ہوجائے گی۔ نیکی، ایمانداری، سچائی ان سب سے نفرت کروں گا۔ میں بد بن کر دکھاؤں گا۔ مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا۔ ‘‘

مارکس آخر کار جنگ میں جان کی بازی ہار جاتا ہے، جس تار گھر میں ہومر کام کرتا ہے، وہیں بھائی کے مرنے کی خبر اسے ملتی ہے تو وہ بیقرار ہوکر سپنگلر سے کہتا ہے :
”کوئی مجھے اتنا بتادے کہ میرا بھائی کیوں مرگیا؟ یہ میری زندگی کا سب سے بڑا سانحہ ہے۔ بھائی کی موت پر میں تلملا رہا ہوں، میرے دل پر کچوکے لگ رہے ہیں۔ لیکن میں نہیں جانتا کہ کس کو ہم سے دشمنی تھی۔ ہمارا دشمن کون ہے؟ کیا آپ جانتے ہیں؟ ‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2