سرکار بنام نواز شریف وغیرہ ۔ ۔ ۔


ایک صدا مسلسل ڈیڑھ سال سے گُونج رہی ہے۔ کبھی کہیں کبھی کہیں۔ ”سرکار بہ نام محمد نواز شریف۔ ‘‘
اسلا می جمہوریہ پاکستان کے دارالحکومت، اسلام آباد کے سیکٹر جی۔ الیون میں واقع ایک بے آب و رنگ سپاٹ سی عمارت ہے۔ اس عمارت میں کچھ عدالتیں لگتی، کچھ منصف بیٹھتے ہیں۔ چار چھ سیڑھیاں چڑھنے کے بعد، تنگ داماں سے برآمدے اور نیم روشن سی راہ داریوں سے جڑے ایک چھوٹے سے کمرے میں بھی ایک عدالت لگتی ہے۔ پچھلے ایک سال سے ایک شخص، جو تین بار اس ملک کا وزیراعظم رہ چکا ہے، اپنی بیٹی کا ہاتھ تھامے اس عدالت میں آتا اور ایک کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔ وہ منہ اندھیرے لاہور سے نکلتا ہے لیکن وقت سے پہلے عدالت پہنچ جاتا ہے۔

پھر جج ایک بلند چبوترے پہ بچھی کرسی پہ آکر بیٹھتا ہے۔ ایک آواز پڑتی ہے۔ ”سرکاربہ نام نوازشریف وغیرہ۔ ‘‘ملزم کھڑا ہوکر ذرا سی گردن جھکا کر عزت مآب جج کے لئے آداب بجا لاتا ہے، حاضری لگواتا اور بیٹھ جاتا ہے۔ یہ پکار پچھلے ایک سال سے اس بے مہر سی عمارت میں گونج رہی ہے۔ ملزم ایک سو بیس سے زائد پیشیاں بھگت چکا ہے۔ ایک ریفرنس میں سزا پانے کے بعد اس کی بیٹی اور داماد کا معاملہ ایک دوسرے عدالتی عمل سے گزر رہا ہے۔ خود اُس پر ابھی دو اور ریفرنس موجود ہیں۔ اب وہ تنہا عدالت میں آتا ہے۔ ”سرکار بہ نام نوازشریف کی صدا سُن کر وہ اپنی کرسی پہ بیٹھ جاتا ہے۔ درجنوں مداحوں اور چاہنے والوں کی موجودگی میں وہ اپنی سوچ کی دُنیا میں چلا جاتا ہے۔ ”ایسا کیوں ہے؟ میراقصور کیا ہے؟ قانون اور انصاف کے نام پر قانون اور انصاف کی بے توقیری کب تک جاری رہے گی۔ کب تک مجھے وہ قرض بھی چکانے پڑیں گے جو مجھ پر واجب بھی نہیں۔ ؟

یہ سوال اس کے ذہن کی لوح پر نقش ہو کر رہ گئے ہیں۔ ان سوالوں نے پچیس سال قبل اُس وقت سر اُٹھایا تھا جب 258/2B کی شمشیر برہنہ سے لیس ایک اَنا پرست صدر نے بے نظیر کے بعد اس کی حکومت کا لہو پینے کی ٹھانی تھی۔ تب لندن فلیٹس تھے نہ کچھ اور لیکن وہ گردن زدنی ٹھہرا تھا۔ اُس پر کرپشن کی تہمت لگی۔ اس پر الزام لگا کہ اُس نے آرمی چیف آصف نواز جنجوعہ کو زہر دے کر مار ڈالا۔ اُس نے ہار نہ مانی۔ قوم سے کہا کہ۔ ”میں ڈرنے اور جھکنے والا نہیں۔ استعفیٰ نہیں دوں گا۔ ڈکٹیشن نہیں لوں گا۔ ‘‘اَنا کی تیز دھار تلوا ر نے اس کی حکومت ختم کردی۔ وہ سب سے بڑی عدالت پہنچا۔ عدالت نے اَنا پرست بوڑھے کے اقدام کو آئین کے خلاف قرار دے دیا۔ وہ پھر سے وزیر اعظم ہاؤس آبیٹھا لیکن موسموں کی صورت گری کرنے والی ہواؤں نے اُس کے خیمہ اقتدار کی طنابیں کاٹ ڈالیں۔ وہ سوالوں کی گُتھیاں سلجھاتا گھر آگیا۔

1996میں، عوام نے اُسے دو تہائی ووٹوں سے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچایا۔ تین سال بعد وہ پھر نا مطلوب ٹھہرا۔ عوام کا منتخب نمائند ہ اور ملک کا چیف ایگزیکٹو ہونے کے ناتے، وہ سول حکمرانی کی برتری چاہتا تھا۔ اداروں کی اپنی حُدود میں رہنے کی بات کرتا تھا۔ اُس نے ایک پڑوسی ملک سے معاملات ٹھیک کرنے کی ”مکروہ سازش ‘‘بھی کی تھی۔ اکتوبر 1999ء کی ایک شام، انقلاب کا ڈنکابجا۔ اُسے وزیر اعظم ہاؤس سے اُٹھا کسی نامعلوم مقام پر پہنچا دیا گیا۔ رات ڈھلنے کو تھی کہ جنرل محمود اور جنرل علی جان اور کزئی، بغل میں ڈنڈے لئے اُس کے کمرے میں داخل ہوئے۔ اُن کے پہلوؤں میں بندوق بردار جوان تھے۔ اُس کے سامنے ایک کاغذ رکھا گیا۔ حکم صادر ہوا کہ اس پر دستخط کرو۔ اُس نے کہا۔ ”نہ استعفیٰ دوں گا۔ ۔ نہ اسمبلی تو ڑوں گا۔ نہ تمہاری ڈکٹیشن لوں گا۔ ‘‘اُسے ڈرایا گیا۔ دھمکایا گیا۔ عبرت ناک انجام کا نقشہ کھینچاگیا۔ تنگ آکر اُس نے کاغذ اُٹھا کر زمین پر پھینک دیا اور کہا۔

”Over My Dead Body‘‘۔ اس کے لیے تمہیں میری لاش سے گزرنا ہوگا۔ ‘‘اُسے اٹک قلعے کی ایک کال کوٹھری میں ڈال دیا گیا۔ تب بھی لندن فلیٹس کسی کو یا د نہ آئے۔ اس پر طیارہ اغواء
کر نے کا مقدمہ چلا۔ اُسے بکتر بند گاڑی کے پنجرے میں اسلام آباد کی سڑکوں پہ گھمایا گیا۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ، جہاز پر لانا ہوتا تو اُس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال کر زنجیر جہاز کی سیٹ سے باندھ دی جاتی۔ کبھی ذکر چلے تو بھی وہ یہ کہانی نہیں دوہراتا۔ البتہ اُسے آج بھی ایک پولیس اہلکار کے وہ آنسو یاد ہیں جو ہتھکڑیاں ڈالتے ہوئے اُس کے ہاتھ کی پُشت پر آٹپکے تھے۔ پھر اُسے عمر قید کی سزا سُنا دی گئی۔ آمر کی آمریت پر دباؤ پڑا تو قیدی کو اپنے بوڑھے والدین اور بال بچوں سمیت ملک بدر کردیا گیا۔ کئی برس پہلے کے سوالوں والی بوسیدہ گٹھڑی اُٹھائے وہ جدہ روانہ ہوگیا۔

2013میں پھر انتخابات کی بساط بچھی، پاکستان کے لوگوں نے ایک بار پھر اُسے اعتماد سے نوازا۔ وہ تیسری بار وزیراعظم بنا۔ لیکن قیدو بند، ہتھکڑیاں، کال کوٹھریاں، جلا وطنی اور باپ کی میت کو قبر میں نہ اُتار سکنے کے گہرے زخم کے باوجود اُس کے سر کا ”خناس‘‘اپنی جگہ موجود رہا۔ اُس نے پھر کہا۔ ”فیصلوں کا اختیار اُنہی کو ہے جنہیں عوام نے یہ استحقاق دیا ہے‘‘۔ اُس نے پھر سول حکمرانی کی بات کی۔ اُس نے پھر یہ ”کلمہ کفر ‘‘دہرایا کہ ”آئین بالادست ہے اور اداروں کو آئینی حدود میں رہنا چاہیے۔ لانگ مارچ ہوئے۔ کئی کئی ماہ کے دھرنے دیے گئے۔ توسیع نہ دینے کے نتائج سے ڈرایا گیا، پانامہ کی پیالی سے ایک طوفان اُٹھایا گیا، ڈان لیکس کے آتش فشاں سے نکلتے لاوے نے سب کچھ لپیٹ میں لے لیا۔

اُسے کہا گیا ”چپکے سے گھر چلے جاؤ ‘‘۔ ”مائنس ون‘‘، پاکستان کی سلامتی بقا اور ترقی، خوشحالی کا سب سے بڑا تقاضا بن گیا۔ لیکن سدا کے ضدی شخص نے کہا۔ ”استعفیٰ نہیں دوں گا۔ نا ڈروں گا، نا دھمکیوں میں آؤں گا۔ ڈکٹیشن نہیں لوں گا۔ ‘‘پھر اُس کی کردار کشی کے لئے قومی تاریخ کا سب سے بڑا میڈیا سرکس لگا۔ اُس کی قبا تار تار کر دی گئی۔ اُ س کے خاندان کے ناموس کی دھجیاں اُڑا دی گئیں۔ پھر ستر سالہ عہد کی سب سے بڑی، سب سے توانا، سب سے طاقتور اور سب سے با اختیار جے۔ آئی۔ ٹی بنی۔ ریاست کے سارے وسائل، سارے اختیارات اس کے قدموں میں ڈال دیے گئے۔ اس نے نگر نگر کی خاک چھانی۔ درجنوں ریاستوں کو خط لکھے۔ عالمی اداروں سے مدد مانگی۔

بین الاقوامی ایجنسیوں سے معاہدے کیے۔ پھر اُس نے دس جلدوں اور ہزاروں صفحات پر مشتمل، رپورٹ عدالتِ عظمیٰ کے حوالے کر دی۔ عدالت نے اُس کا ورق ورق چھانا۔ لفظ لفظ پرکھا۔ انگ انگ ٹٹولا۔ بات نہ بنی۔ کرپشن؟ نہیں! منی لانڈرنگ؟ نہیں! قومی خزانے میں ہیراپھیری؟ نہیں! عہدے کا ناجائز استعمال؟ نہیں! لیکن ” مائنس ون ‘‘کا اٹل فیصلہ پاکستان کی لوحِ تقدیر پرلکھا جا چکا تھا۔ سو کارکنانِ” قضاوقدر ‘‘ اور” منصفانِ عالی مرتبت ‘‘کی خوش نصیبی کہ نواز شریف کے ایک قبیح جر م کا سراغ مل گیا۔ وہ جرم جس کا عمران خان، سراج الحق اور شیخ رشید کی درخواستوں میں حوالہ تک نہ تھا۔

اس جرمِ قبیح کا خلاصہ یہ تھا کہ کبھی دبئی میں تمہارے بیٹے حسن نے ایک کمپنی بنائی تھی۔ یہ کمپنی گو کئی سال قبل بند ہو چکی ہے لیکن کبھی تم اُس کمپنی کے چیئرمین تھے۔ تب کاغذوں میں تمہاری ایک تنخواہ بھی مقرر تھی۔ گوتم نے اپنے بیٹے سے وہ تنخواہ نہیں لی۔ تمہارے کسی بینک اکاؤنٹ میں بھی نہیں آئی۔ لیکن وہ تمہاری تنخواہ تو تھی نا۔ سو تمہارا اثاثہ تھی۔ تم نے اپنا یہ ”اثاثہ ‘‘ اپنے کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہیں کیا۔ لہٰذا تم صادق رہے نہ امین۔ عمر بھر کے لئے نا اہل ہوگئے۔ وہ سوالوں کی پوٹلی اُٹھائے گھر چلا گیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2