ٹی وی اسکرین پر دہشت سے سیاسی جنات تک


کیا سماج کی بہتری کے لیے ‘کشید کی گئی مجموعی انسانی دانش کو کوئی کردار ادا کرنا چاہیے یا نہیں؟ اس مجموعی انسانی دانش کو کیا کسی پیمانے سے پرکھا جا سکتا ہے؟

اگر ہم یہ کہیں کہ دانش overview effect کے بڑھنے کا نام ہے اور اس کا حتمی نتیجہ رواداری کی شکل میں برآمد ہوتا ہے تو شاید کلی اتفاق ممکن ہے۔ یہ اتفاق اس لیے ناگزیر ہے کہ بنیاد سائنس ہے۔

اسی انفرادی دانش کے دائرے کو پھیلا کر ہم مجموعی انسانی دانش کی کوئی شکل بنانا چاہیں تو شاید یہ ایک مشکل کام نہیں ہو گا۔ یوں ہماری حتمی منزل معاشرتی رواداری ، اظہار آزادی رائے ہو گی۔

جب تک ہماری حتمی منزل ایک مثالی معاشرہ نہیں ہو گا چاہے وہ بظاہر کتنی ہی ناممکن خیالی جنت کیوں نہ لگے، ترقی کا سفر ناممکن ہے۔

معاشرے کی تشکیل نوع انسانی میں اس لیے ممکن ہوئی کیونکہ انسان حال میں رہتے ہوئے پیش بیں بھی ہے۔ اسی صلاحیت کی وجہ سے قانون اور آئین کی شکلیں نظر آئیں اور یہی ہتھیار معاشرے کو شکل دینے کا سبب بنا۔ ہم سب معاشرے میں رہنے کے لیے باہم کیے گئے معاہدوں کے پابند ہیں اور یہی معاہدے بین المذہبی اخلاقی بنیادیں بھی فراہم کرتے ہیں ۔

ان معاہدوں میں ایک بنیادی شق دھوکہ دہی سے متعلق ہے۔

جرائم و جنات کے حوالے سے ٹیلی ویژن پر چلنے والے تماشے کیا اظہار آزادی رائے کے زمرے میں آتے ہیں؟

اگر یہ آزادی ”رائے“ ہے تو مزید یہ فیصلہ کرنا بھی ضروری ہے کیا یہ تفریحی تماشے ہیں یا معلوماتی ؟

معلومات تویہی کہتی ہیں کہ دونوں حوالوں کا دفاع کرنے سے قاصر میڈیا نے اسے ”معلوماتی تفریحی تماشوں“ کا نام دیا ہے۔

میں تلہ گنگ کے اڈے پر بیٹھا تھا،(نائن الیون سے پہلے کی بات ہے) جب اچانک خون آلود کپڑوں اور ہاتھ میں ایک خنجر لیے جس سے خون ٹپ ٹپ کر رہا تھا ایک نیم پاگل سا شخص جس کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی میری طرف دوڑتے ہوئے آیا۔ میرا دل حلق میں تھااور سانس رک گئی، میرے پاس ردعمل کا وقت بھی نہیں تھا، عین اس وقت کہ جب وہ خنجر گھونپنے کے لیے ہاتھ اٹھاتا، ساتھ ہی ایک زور دار قہقہہ سنائی دیتا ہے۔ یہ قہقہہ اسی بہروپیے کا تھا۔ جب میرے اوسان بحال ہوئے تو اس نے اپنی کارکردگی اور اظہار فن کے لیے پیسے طلب کیے۔یہاں پر اخلاقیات کے حوالے سے پیچیدہ سوالات اٹھتے ہیں۔ پہلا سوال یہ کہ کیا میں کسی ایسی تفریح کا طالب تھا؟ یقینا نہیں تھا۔تو یہاں تک تو بہروپیا مجرم ہے لیکن اپنے اس تماشے کے فورا بعد وہ قہقہہ لگاتا ہے اور تماشا ختم کرنے کا اعلان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ جناب یہ تماشا تھا اور اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کا یہ اعلان اخلاقیات کا بنیادی تقاضا ہے کہ اگر اس نے پیش بینی کی صلاحیت کو استعمال کرتے ہوئے میری حسیات کو دھوکہ دیا اور میری بنیادی جبلت خوف کے ساتھ کھیلا تو اب اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اس’ دھوکہ‘ کے حوالے سے مجھے ’ معلومات‘ بھی دے۔

اسی کی دی یہ معلومات کوئی انہونی بات نہیں ہے یہ باہم ایک معاشرے میں رہنے کے حوالے سے بنائے قوانین کا بنیادی حصہ ہے۔

ورلڈ ریسلنگ اینٹر ٹینمنٹ کی جانب آئیے، دو قسموں کے لوگ یہ کشتیاں دیکھتے ہیں، ایک وہ کہ جانتے ہیں یہ ڈرامہ ہے اور ان کی تمام چالیں جھوٹی ہیں، کرسی جو ایک دوسرے کو ماری جاتی ہے کس میٹریل سے بنی ہوتی ہے اور رنگ کے اندر لگے تختے کیوں لچکدار ہوتے ہیں، رسوں سے چھلانگ لگا کر دوسرے پہلوان پر گرنے والا جسم کا زیادہ وزن اپنی ہی کہنی پر کیوں سہتا ہے اور مکے کی رفتار نشانے سے دس انچ پہلے کیوں سست ہو جاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔۔ورلڈ ریسلنگ اینٹرٹینمنٹ کی چالوں پر یعنی جھوٹی چالوں پر محنت صرف ہوتی ہے اور ان چالوں کو ’ تجارتی راز‘ کہا جاتا ہے کہ دولت کمانے کا ذریعہ ہے۔

دوسری قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو اس کشتی کو حقیقت سمجھتے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ شرطیں لگاتے ہیں اور اس ساری تمثیل کاری کو سنجیدہ لیتے ہیں۔

کیا ورلڈ ریسلنگ انٹر ٹینمنٹ کو تمثیل کاری کے بعد آگاہ کرنا چاہیے کہ یہ حقیقت نہیں تھی ؟

کیا دوسری قسم کے لوگ جو علم اور تجربات میں کمی کے باعث اس تمثیل کاری کو سمجھنے سے قاصر ہیں ان کو دھوکہ دہی میں رکھنا چاہیئے؟

جب کہ مجموعی انسانی دانش جو اس بات سے آگاہ ہے کہ یہ دھوکہ ہے کو جانتے بوجھتے صرف نظر کرنا چاہیے کہ ان کو جو دھوکہ ہوتا ہے ہوتا رہے؟

ٹیلی ویژن کی جانب آئیے اور جنات اور بین الفطرتی تماشوں کو نگاہ میں لائیے۔

ایک خوفزدہ چہرہ لیں اور اس پر ویڈیو ایفیکٹ ’ نیگیٹو ‘ ڈال دیں یقیننا ایک نیلاہٹ سی لیے خوفزدہ کرنے والاچہرہ دکھائی دے گا۔

کیمرے کے اپرچر میں اتنی کم روشنی گزرنے دیں یا اتنی کم روشنی میں ریکارڈنگ کریں یا آئی ایس او بڑھا کر کم ترین روشنی میں ریکارڈنگ کریں کہ ویڈیو پر سبز رنگ اور نقطے نقطے دکھائی دیں کچھ بھی واضح دکھائی نہ دے اب کیمرے کو الٹی سیدھی مومنٹس دیں، دیوار پر کہیں ٹارچ ماریں اور روشنی کے گولے کا پیچھا کریں، کہیں ایڈوب کے ماسک کو استعمال کر کے ایک ہیولا تشکیل دیں جو ایک دم تیزی سے گزرتا ہے اور ساتھ خوفزدہ کرنے والی آوازیں استعمال کریں جو یو ٹیوب پر کثرت سے دستیاب ہیں۔

توانائی کی پیمائش کرنے والا میٹر دکھائیں اور پرانی حویلیوں اور قبرستانوں میں توانائی کی پیمائش کا ڈرامہ کریں بعد میں پوسٹ پر آواز کی لہروں پر مبنی ایک ایک ویڈیو ایفیکٹ لیں اور اس پر انتشار ظاہر کریں ۔۔۔

آپ کی اس ساری کاوش کو میں فن کا نام دینے کو تیار ہوں اگر آپ پروگرام کے شروع یا آخر میں لکھ کر یہ دکھانے کو تیار ہیں کہ یہ سب ایک تفریح کے لیے کی گئی تمثیل کاری ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

آپ کی اس ساری کاوش کو میں معلوماتی کہنے کو تیار ہوں اگر متذکرہ بالا دھوکہ دہی کے اثرات نہیں ہے اور سب کچھ حقیقی ہے ، اور شب و روز آپ کا جنات سے ملاکھڑا چل رہا ہے۔

یہی سوالات جرائم سے متعلقہ تماشوں کے حوالے سے کیے جا سکتے ہیں۔ بنیادی مقصد کیا ہے؟ معلوماتی سبق آموز یا تفریحی؟

میڈیا کے اندر ان شوز کے حوالے سے ایک اصطلاح اکثر سننے میں آتی ہے \”Bitchy pan\”

’یار اس قسط میں bitchy پن تھوڑا سا اور ڈالو مزہ نہیں آیا‘

چالیس منٹ پر محیط اکثر جرم کہانیوں کا مرکز قتل اور جنس ہوتا ہے ۔ انسان کی توجہ حاصل کرنے کے لیے بہترین موضوعات ہیں۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments