ہماری قوم اس قدر جذباتی کیوں ہے؟


بڑے بڑے دعوے کرنا بلاشُبہ انسان کی فطرت ہے مگر انہیں پورا کرنا اس کے بس کی بات نہیں۔ آج کل کے دور میں ہم انسان اتنے جذباتی ہو گئے ہیں کہ کوئی بھی اُٹھ کر خود کو مسیحا کہہ دے تو ہم میں سے سب تو نہیں مگر کچھ لوگ اس پر یقین ضرور کر لیتے ہیں۔ اور پھر جذبات کی حد تو یہ ہے کہ اس انسان کو زیادہ وقت بھی نہیں دیتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ صرف ہمارے مسائل پر غور کیا جائے، صرف ہماری بات سُنی جائے، ہم چاہتے ہیں کہ پوری دُنیا اپنا کام چھوڑ کر صرف ہم پر توجہ دے مگر افسوس اس بات کا کہ دوسرے بھی تو یہ ہی چاہتے ہیں۔ اب دوسروں کو بُرا کہا جائے یا خود کو؟
مانا کہ ہمارے علاوہ دُنیا میں سب بُرے ہیں لیکن ہم میں آخر ایسی اچھی بات کیا ہے جو ہمیں دوسروں سے مختلف کرتی ہے یہ ہم نے کبھی نہیں سوچا۔ ہمارے مُلک کا ہر شہری کرپٹ صحیح لیکن ہمارے کرپٹ نا ہونے سے فرق پڑتا ہے۔ ہر کوئی بد دیانت اور خودغرض صحیح لیکن ہمارے ایماندار ہونے سے فرق پڑتا ہے۔ اور یہ فرق یا “تبدیلی” ایک رات میں نہیں بلکہ آہستہ آہستہ خود کو بدلنے سے آتی ہے۔ اسلامی تاریخ سے مثال دی جائے تو ہم بھی ان قوموں میں سے ہیں جو خود کو صحیح مگر ان چند لوگوں کو غلط ٹھہراتے تھے جو ان کو آئینہ دکھاتے۔ پھر وہ چاہے انسان ہوں، انبیاء ہوں یا فرشتے ان کی نظر میں صرف وہ خود ہی صحیح تھے اور “میں نا مانوں” کی رٹ انہوں نے پلو سے باندھ کر رکھی تھی۔ جس کے نتیجے میں یا تو وہ آخر میں سُدھر گئے یا پھر عذاب کی نذر ہو گئے۔
ہم بھی کچھ ایسے ہی لوگ ہیں۔ جس کو چور سمجھ لیں اس کی جان لینے تک چین سے نہیں بیٹھتے چاہے ابھی الزام ثابت نا ہوا ہو اور جس کو اچھا سمجھیں اس کو فرشتہ یا نعوذُباللہ خُدا سمجھ لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہم اپنی قسمت کا فیصلہ بھی اس ناچیز کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں اور پھر آخر میں جب وہ ہماری ہر اچھی بُری خواہش پوری نہ کر سکے تو اس بیچارے پر سارا ملبہ ڈال دیتے ہیں کہ اس نے ہمیں دھوکہ دیا۔ بھائی کس نے کہا تھا کہ انسان سے خُدا والی اُمیدیں رکھو؟ نا تو انسان جادوگر ہے اور نہ ہی خُدا۔
معاملہ چاہے کوئی بھی ہو، سیاست ہو یا مذہب ہم ایسے ہی ہیں۔ کہتے ہیں جذبات میں فیصلہ نہیں کرنا چاہیے لیکن ہائے۔۔ ہم تو سارے فیصلے ہی جذبات میں کرتے ہیں، سوچ سمجھ والا عنصر تو ہم نے لیڈروں کے سپرد کیا ہوا ہے۔ اماِم مسجد کا انتخاب ہو یا بچوں کے لیے قُرآن پڑھانے والے قاری صاحب یا پھر سکول کو ہی لے لیجئے، پارٹی کا سربراہ ہو یا ملک کا وزیراعظم، ہمیں سب کچھ بہترین چاہیے مگر عرض یہ ہے کہ بہترین کو بہترین ثابت ہونے کے لیے کچھ وقت درکار ہوتا ہے لیکن افسوس کہ ہمارے پاس وقت بھی کم ہے۔ ٹریفک کی مثال ہی لے لیجئیے، سڑک پر گاڑی چلاتے ہوئے ہم ہمیشہ جلدی میں رہتے ہیں، اس لیے نہیں کیونکہ ہمیشہ ہی ہمیں وقت پر کسی میٹنگ یا تقریب میں پہنچنا ہوتا ہے بلکہ اس لیے کیونکہ ہمیں دوسروں سے آگے نکلنا ہے۔ دوسروں کو راستہ دینے پر بھی ہم کتراتے ہیں۔ ہماری انا اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ کام کے معاملے میں بھی ہمیں اپنے سے کسی نچلے درجے کے آدمی یا عورت کا آگے نکلنا یا پروموٹ ہونا پسند نہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو بہتر کرنے یا آگے لے جانے کی بجائے دوسروں کا راستہ روکنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں کہ ہم چاہے وہیں کے وہیں رہیں کسی دوسرے کو آگے نہیں جانا چاہیے۔ وہ ایک کہاوت ہے نا “ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے”۔
یہ سب باتیں شاید آپ کو موضوع سے ہٹ کر لگیں مگر یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ بھئی سیاست دان بھی ہماری طرح انسان ہیں اور انسان غلطی کا پتلا ہے۔ خدارا ان سے خدا جیسی اُمیدیں وابستہ نہ کریں اور ٹھنڈے دماغ سے اپنے لیڈر کا انتخاب کریں۔ جذبات کی لہر میں خود کو نہ بہنے دیں اور دوسرے کا نُقطہ نظر بھی سننے اور سمجھنے کی ہمت رکھیں اور اگر کسی بیچارے سیاستدان کو آپ فرشتہ سمجھ بھی بیٹھیے ہیں تو اس بات کو قبول کریں کہ یہ گُستاخی اس کی نہیں بلکہ آپ کی ہے خواہ وہ گُستاخی نئے پاکستان میں ہوئی یا پُرانے پاکستان میں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).